خواہش جب خبر بنتی ہے

کچھ دن قبل کراچی کے روزنامہ امت کے بارے میں فیس بک کے کچھ دوستوں کے درمیان گرما گرمی دیکھی ۔ میں اس بحث میں کودنا نہیں‌ چاہتا تھا ۔ میرا ایک دوست بے چارہ تنہا اپنے اخبار کا دفاع کررہا تھا۔ میں نے وہاں ایک ہلکے پھلکے تبصرے پراکتفا کرنے میں ہی عافیت جانی کیونکہ اکثر انجان لوگ معاملے کے پس منظر سے آگاہی کے بغیرہی جتھوں کی صورت پِل پڑتے ہیں ۔

آج انٹرنیٹ پر آوارہ گردی کے دوران روزنامہ امت کراچی کے درشن ہوئے ۔ فرنٹ پیج دیکھ کر اُبکائی سی آنے لگی ۔ ہم نے یونیورسٹی میں صحافت کے جو رُموزپڑھے اور سیکھے ،اس اخبار کی خبر نما سرخیاں اُن کا منہ چڑا رہی تھیں ۔ صحافت کے اساتذہ سے میری گزارش ہے کہ جب وہ طلبہ کو فریمنگ یا اینگلنگ کا مفہوم سمجھانا چاہیں تو کراچی کے روزنامہ امت کا صفحہ اول انہیں بطور نمونہ دکھائیں ۔ یوں لیکچر کی تفہیم بہ سہولت ہو جایا کرے گی۔

یہ تو سب جانتے ہیں کہ روزنامہ امت ہمیشہ سے ایم کیو ایم کے ”خلاف” رپورٹنگ کرتا آیا ہے ۔ مجھے بطور صحافت کے ایک طالب علم کے یہاں رپورٹنگ کو ”کسی کے خلاف” لکھتے ہوئے شرم محسوس ہو رہی ہے ورنہ رپورٹ صرف خبر ہوتی ہے ، اس میں‌ واقعہ اور اس سے جڑے شواہد بلا کم وکاست بیان کیے جاتے ہیں لیکن پاکستان کی صحافتی تاریخ میں اس بڑے پیمانے پر اینگلنگ کی مثال شاید ہی کہیں‌ مل سکے ۔ اگر کسی عمر رسیدہ صحافی کو امت اخبار سے بڑی کوئی مثال ماضی میں مِل جائے تو اس طالب علم کو ضرور آگاہ کیجیے۔

اب آتے ہیں آج کے روزنامہ امت کے صفحہ اول پر لگی سرخیوں اور تصاویر کی جانب:

آج کے روزنامہ امت کراچی کی سُپر لیڈ(دوسری بڑی خبر) کے نیچے ایم کیو ایم کے اسیر رہنما وسیم اختر کی میئر کا حلف لیتے ہوئے تصویر شائع کی گئی ہے جس کا کیپشن یہ ہے:

”شہر کی کنجی دہشت گردی کے ملزم وسیم اختر کے حوالے کی جارہی ہے”

لِیڈ(سب سے نمایاں سُرخی) کے سامنے دو نمایاں تصاویر ایک کیپشن کے ساتھ شائع کی گئیں ہیں ، جن میں کراچی کے نئے میئر وسیم اختر بکتر بند گاڑی سے اُتر کر حلف برداری کی تقریب میں‌ آتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ اس تصویر کا کیپشن کچھ اس طرح ہے :

”دہشت گردوں کے سہولت کار وسیم اختر کو پولیس اہلکار بکتر بند گاڑی سے نکال رہے ہیں ،میئر کا حلف اٹھانے پولو گرائونڈ میں‌داخل ہو رہے ہیں ”

فرنٹ پیج کے دائیں‌ جانب نیچے ایک تصویر میں فاروق ستار اور نئے میئر کراچی وسیم اختر گفتگو کرتے دیکھے جاسکتے ہیں ۔ روزنامہ امت نے اس تصویر کا کیپشن یوں جمایا ہے:

”فاروق ستار نئے میئر کو حلف اٹھانے کے بعد محتاط رہنے کی ہدایات دے رہے ہیں ”

اسی کے تصویر کے بالکل سامنے بائیں جانب حلف برداری کی تصویر ہے جس کا کیپشن یوں ہے:

”وسیم اختر اور ارشد بوہرا پولو گرائونڈ میں منعقدہ تقریب میں اپنے عہدوں کا حلف لے رہے ہیں،دونوں کے اہل خانہ بھی موجود ہیں‌، پیچھے کرسیاں خالی ہیں ”

ایک خبر یوں‌ ہے ”وسیم اختر کو حلف کے دوران بھی ہدایات ملتی رہیں ”

مجموعی طور پر 33/34 خبریں (زیادہ ہو سکتی ہیں کم بالکل بھی نہیں)صرف ایم کیو ایم کے بارے میں ہیں‌ جبکہ اس کے علاوہ 3 سنگل کالمی خبریں کشمیر،سندھ ایپکس کمیٹی کے اجلاس،نئے چیئرمینوں کو مبارک اورمشاہد حسین کے ایک بیان(دو کالمی) سے متعلق شائع ہوئی ہیں‌۔

میرا ماننا ہے کہ اخباریا کسی بھی میڈیا آوٹ لیٹ کو کبھی فریق نہیں بننا چاہئے ۔ یہ صحافتی اخلاقیات کی سنگین خلاف ورزی ہے ۔ صحافتی اداروں میں شائع ہونے والے مواد کی مسلمہ صحافتی پیمانوں پر پڑتال کرنے والے بااختیارایڈیٹر کا عہدہ ختم ہونے کی وجہ سے بہت سے اہم امور پیشہ ورصحافیوں کے ہاتھ سے نکل گئے اور خبروں میں بڑے پیمانے پر اینگلنگ شروع ہوئی اورپھرمالکان کی خواہش خبر بننے لگی ۔اس سے بڑھ کرالمیہ یہ ہوا کہ بیانات کو بھی خبر سمجھا جانے لگا۔

میرے کارکن صحافی دوست اور رپورٹرز بخوبی آگاہ ہیں کہ پاکستان کے اُردو اخباروں میں روزانہ کی بنیاد پرسینکڑوں خبروں کا قتل (News Killing)اب عام سی بات ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے