مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کیلئے 22 ارکان اسمبلی کی اہلیت پر اعتراض

اسلام آباد: سول سوسائٹی کی جانب سے کیے گئے ایک مظاہرے میں مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے منتخب کیے گئے 22 ارکان اسمبلی کی اہلیت پر سوال اٹھادیئے گئے۔

سول سوسائٹی کی کال پر اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب (این پی سی) کے باہر ہونے والے مظاہرے میں عام شہریوں، سیاستدانوں، وکلاء، صحافیوں اور مختلف جامعات کے طلباء نے شرکت کی۔

اس مظاہرے کا مقصد ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے لوگوں سے اظہار یکجہتی کرنا تھا جو ہندوستانی فورسز کی جارحیت اور ظلم و ستم کا شکار ہیں۔

واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں ہندوستانی فورسز کی جانب سے پیلٹ گنوں کے استعمال کی وجہ سے بہت سے نوجوان نابینا یا جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر اور انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرم کارکن عاصمہ جہانگیر نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ‘سفیروں کے افریقا اور برازیل کے دورے سے کیا مقصد حاصل ہوگا، جبکہ ان ملکوں کا مسئلہ کشمیر سے کچھ لینا دینا نہیں’۔

ان کا کہنا تھا، ‘بدقسمتی سے حکومتیں مسئلہ کمشیر کو سنجیدگی سے نہیں لے رہیں، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ماضی میں بھی ایسے ہی وفود مختلف ممالک کو بھیجے گئے، لیکن انھیں تو یہ بھی نہیں معلوم نہیں کہ لداخ بھی کشمیر کا ہی حصہ ہے’.

عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ ‘سول سوسائٹی کو کشمیر کی فوجی تسلط سے آزادی کا مطالبہ کرنا چاہیے اور پاکستانی حکومت کو بھی اس مطالبے کو انٹرنیشنل سطح پر اجاگر کرنا چاہیے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد، ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے نوجوان اپنی مرضی سے اپنے گھروں سے باہر نکلے، یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی فورسز کے مظالم پر سری نگر کے ہندو بھی تنقید کر رہے ہیں’۔

یاد رہے کہ حزب المجاہدین کے نوجوان کمانڈر برہان وانی کو رواں برس 8 جولائی کو ہندوستانی فورسز نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا۔

عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ ‘ہندوستان کے زیر انتظام کمشیر کے نوجوان ہندوستان کے ساتھ رہنے پر تیار نہیں، حتیٰ کہ وہ پاکستان کے ساتھ بھی نہیں رہنا چاہتے، وہ آزادی چاہتے ہیں اور ہمیں ان کی حمایت کرنی چاہیے’۔

اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ ‘اگر پاکستان اور ہندوستان اس بات کو جان لیں کہ کشمیر صرف کشمیریوں کا ہے تو مسئلہ کشمیر چند ہفتوں کے اندر حل ہوسکتا ہے’۔

ان کا کہنا تھا، ‘ہندوستان پیلٹ گنوں کے استعمال سے نوجوانوں کو اندھا کرکے کشمیریوں کو شکست نہیں دے سکتا’۔

فرحت اللہ بابر نے مزید کہا کہ ‘پاکستانی حکمرانوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ کشمیر میں عسکریت پسند بھیجنے والے کشمیر کاز کی کسی قسم کی خدمت نہیں کرسکتے، ہمیں اپنے گھر کو بھی دیکھنے کی ضرروت ہے’۔

سنیئر صحافی حامد میر نے اس موقع پر کہا کہ ‘مسئلہ کمشیر کو اجاگر کرنے کے لیے مختلف ممالک میں نااہل لوگوں کو بھیجا جارہا ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر یہ بات نوٹ کی گئی ہے اور جلد ہی ایک کشمیری آرگنائزیشن اس حوالے سے پاکستانی حکومت کو ایک خط لکھے گی’۔

مظاہرے میں راولا کوٹ سے آنے والے عمیر پرویز نے کہا کہ ’22 سفراء عالمی سطح پر کشمیریوں کے مسائل کو اجاگر کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے’۔

انھوں نے مزید کہا، ‘زیادہ تر سفراء مسئلہ کشمیر سے آگاہ نہیں ہیں اور اس پر بات نہیں کرسکتے، اگر حکومت واقعی سنجیدہ ہے تو اس مقصد کے لیے اہل لوگوں کو بھیجا جائے’۔

صحافی اعجاز حیدر کا کہنا تھا کہ ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے لوگوں کا مسئلہ اجاگر کرنا پاکستان کی ذمہ داری تھی’۔

انھوں نے مزید کہا کہ ‘بدقسمتی سے پاکستان میں زیادہ تر لوگ مسئلہ کشمیر سے واقف نہیں ہیں جبکہ اس مسئلے پر اہم کتابیں غیر ملکی مصنفین نے تحریر کی ہیں’۔

کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کی رکن نسیمہ وانی کا کہنا تھا کہ ‘مسئلہ کشمیر کے لیے لوگوں کو متحد ہونا چاہیے’۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے