دہشت گردوں کی دُم اور ہماری ناکامیاں

تحریر: ارشدعلی خان

یوں تو ہماری ناکامیوں اور نااہلیوں کی فہرست خاصی طویل ہے جس کی تاریخ قائد اعظم محمد علی جناح کو لانے والی ایمبولینس میں پٹرول کے ختم ہونے سے شروع ہوتی ہے اور سقوط ڈھاکہ سے ہوتی ہوئی مردان میں خودکش حملے پر ختم ہوتی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ہماری ناکامیوں کی فہرست ابھی ختم نہیں ہوئی ،جاری ہے تو بے جا نہ ہوگا۔

محترم وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے لے کر جناب گورنر خیبرپختونخوا اقبال ظفر جھگڑا تک او رپاک فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف سے لے کر ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ تک سب ہی کا ایک ہی موقف ہے کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے ،دہشت گردوں کی دُم رہ گئی ہے ،ان کا ڈنک نکال دیا گیا ہے اور اب وہ سافٹ ٹارگٹ کو نشانہ بنا رہے ہیں ۔ہرسانحے کے بعد ہمارے معزز اراکین حکومت اور اعلی حکام کی جانب سے اس قسم کے بیانات دینا اور ان واقعات کی سخت الفاظ میں مذمت کرنا ایک فیشن بن گیا ہے۔

مردان کچہری خودکش حملے اور پشاور میں ورسک ڈیم کی کرسچین کالونی پر دہشت گردوں کے حملے سے صرف ایک دن پہلے ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹنٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کی جانب سے پریس کو بریفنگ دی گئی جو تقریبا دو گھنٹوں پر محیط تھی۔ان کی بریفنگ میں بہت سارے دعوے کئے گئے اورانہوں نے میڈیا کے ساتھ فیکٹس ایند فیگرز بھی شیئر کیں ۔وزیراعظم میا ں نواز شریف بھی دعوے کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں ۔لوڈشیدنگ ختم کرنے کے دعوے سے لے کر دہشت گردوں کی دُم رہ جانے کے دعوے تک انہوں نے بھی قوم کو سبزباغ دکھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

میری سمجھ میں نہیں آتا کہ سانحہ کوئٹہ کے وقت بھی دہشت گرد سافٹ ٹارگٹ کو نشانہ بنا رہے تھے اور مردان میں کچہری گیٹ پر ہونے والے خودکش حملے کو بھی ہمارے حکومتی اراکین اور اعلی حکام سافٹ ٹارگٹ قرار دے رہے ہیں ۔کوئٹہ میں جب صدر بلوچستان ہائیکورٹ بارکونسل ایڈوکیٹ بلال انور کاسی کوشہید کیا گیا اور ان کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد سول ہسپتال کوئٹہ میں جمع ہونے والے ان کے رفقاء کار کو بھی خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا تو کیا یہ منصوبہ چند منٹوں یا گھنٹوں میں بنا ہوگا؟؟ ایک ایسا منصوبہ جس نے کوئٹہ کی وکلاء برداری کو تقریبا ختم کر دیا۔ایک ایسا منصوبہ جس میں شہید بلال انورکاسی کو ٹارگٹ کرنے کی جگہ سے لے کر سول ہسپتال کوئٹہ میں خودکش حملے کی ٹائمنگ تک سب کچھ مکمل اور فول پروف تھا ۔ایک ایسا منصوبہ جس میں ہرزاویے کاخیال رکھاگیا ایسے منصوبے کو ڈیزائن کرنے میں سالوں نہیں تو مہینے ضرور لگ جاتے ہونگے تاہم ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں کہاں تھی ؟

چلیں حکمرانوں کی بات سچ مان لیتے ہیں کہ کوئٹہ تو اس لئے نشانے پر ہے کہ بلوچستان میں چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ زیر تکمیل ہے اور اس منصوبے پر امریکہ سمیت بھارت اور دیگر ممالک کوتحفظات ہیں مگر کوئی مجھے بتا سکتا ہے کہ مردان سے سی پیک کا کونسا روٹ گزرنے والا ہے ؟؟

مردان کے سب سے مصروف اور شہر کے ریڈزون کہلائے جانے والے علاقے میں کچہری گیٹ پر پہلے تو دستی بم سے حملہ کیا گیا جس میں گیٹ پر موجود پولیس اہلکار نشانہ بنے ۔جس کے بعد خودکش بمبار نے کچہری کے اندر جانے کی کوشش کی تاہم دستی بم حملے میں شدید زخمی پولیس کانسٹیبل جنید کی فائرنگ کی وجہ سے خودکش بمبار اندر نہ جاسکا اور اس نے خود کو مرکزی گیٹ کے قریب اُڑالیا جس کے نتیجے میں پولیس اہلکاروں اور وکلاء سمیت 14شہری شہید جبکہ پچاس سے زائد زخمی ہوگئے ۔زخمیوں میں بھی 6 افراد کی حالت نازک بتائی جاتی ہے ۔اگر خداناخواستہ خودکش بمبار کچہری کے اندر جانے میں کامیاب ہوجاتا جس کا اصل ٹارگٹ بار روم بتایا جاتا ہے تو سانحہ کوئٹہ کی طرح مردان میں بھی ایک عظیم سانحہ رونماہوچکاہوتا تاہم پولیس اہلکار کی بہادری کہ اُس نے مرتے مرتے بھی بہت سارے دوسرے لوگوں کی زندگیاں بچائیں ۔

ہمارے محترم گورنر جناب اقبال ظفر جھگڑا بھی مردان کچہری گیٹ پر ہوئے خودکش حملے کو سافٹ ٹارگٹ قرار دے کر بری الذمہ ہوگئے تو کیا گورنر صاحب ہمیں یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ اگر ایک ایسا مقام جس کے سامنے شہر کا سب سے بڑا تھانہ ہو،جس کے ایک طرف سیشن کورٹس ہوں جہاں سیشن جج صاحبان روزانہ مقدمات کی سماعت کرتے ہوں،جس کے دوسری طرف سیکرٹریٹ ہواور سیکرٹریٹ کے ساتھ ضلع مردان کے بادشاہ یعنی کمشنر صاحب کا آفس اور گھر ہو،جہاں سے چند منٹ کے فاصلے پر ڈی آئی جی پولیس کا آفس اور گھر ہو،جہاں پاک فوج کا پنجاب رجمنٹ سنٹر چند فرلانگ کے فاصلے پر واقع ہو تو کیا ایسا علاقہ بھی سافٹ ٹارگٹ ہوسکتا ہے ؟؟؟

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ایک کھرے سیاستدان ہونگے تاہم اس معاملے وہ بھی دیگر سیاستدانو ں جیسے ہی بیانات جاری کرتے ہیں ۔مردان میں کچہری گیٹ پر خودکش حملے کے دوسرے دن کمشنر ہاوس مردان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ مردان کے باسیوں کے چہرے پر مایوسی کا نہ ہونا دہشت گردوں کی شکست ہے ۔یہ بات بجا سہی تاہم اُن لواحقین سے پوچھنا چاہیے جن کے پیارے اس خودکش حملے کی نذر ہوئے کہ مایوسی کیا ہوتی ہے؟اندھیرے کس کو کہتے ہیں؟؟

پشاور میں کرسچین کالونی پر حملہ سیکیورٹی فورسز کے جوانوں نے ناکام بنایاجو ایک بڑی کامیابی ہے کیونکہ اگر پشاور میں دہشت گرد عیسائی برادری کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوجاتے تویہ پاکستان کے لئے بین الاقوامی سطح پر انتہائی بدنامی اور شرمندگی کا باعث ہوتا ۔اسی طرح مردان بھی پولیس اہلکار جنیدکی بہادری اور جواں مردی کی وجہ سے ایک بڑے سانحے سے بچ گیا اگرچہ 14لوگوں کی شہادت بھی کسی سانحے سے کم نہیں۔

بتایا گیا ہے کہ ایک ہی دن ہوئے دونوں حملوں میں مارے جانے والے خودکش حملہ آور غیر ملکی تھے۔ جو کافی دور سے آئے ہونگے ،اُن کوکہیں نہ کہیں ٹریننگ دی گئی ہوگی ،اُن کے لئے ہتھیاروں اور خودکش جیکٹس کا بندوبست کیا گیا ہوگااور اُنہوں نے اُس جگہ کے قریب رات گزاری ہوگی جہاں صبح خودکش حملہ کرنا تھا توایسی صورتحال میں ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں ان حملوں کا بروقت سدباب کرسکتی تھیں تاہم ملکی ایجنسیوں کے ایک دوسرے کے ساتھ کوارڈینیشن کی کمی کی وجہ سے دہشت گرد ٹوٹی ہوئی کمر کے ساتھ بھی کامیاب ہوجاتے ہیں جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے