سی پیک،بلوچستان اور آل انڈیا ریڈیو

امریکہ سمیت مغربی دنیا میں ریڈیوآج بھی ابلاغ کا تیز تراور موثرترین ذریعہ جانا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں سینکڑوں ریڈیو سٹیشنز کام کررہے ہیں جوموسیقی کے ساتھ ساتھ عالمی خبروں سے لے کر مقامی موسم اور ٹریفک کے حوالے سے بھی عوام کو آگاہ رکھتے ہیں تاہم بدقسمتی سے ہمارے ہاں زیادہ تر ریڈیوسٹیشنز صرف میوزک شوز تک ہی محدود ہیں ۔صرف سرکاری ریڈیو یعنی ریڈیو پاکستان ہی خبریں نشر کرتا ہے یا اس کے علاوہ اگر کوئی ایک آدھ نجی ریڈیو ہو جو خبریں نشر کرتا ہو۔

ریڈیو کسی ملک کے بارے میں پروپیگنڈا کرنے کے لئے بھی استعمال کیاجاتارہاہے ۔میرے کالم کے عنوان سے اپ سمجھ گئے ہونگے کہ یہ سی پیک،بلوچستان اور پاکستان کی ترقی اور اس کی راہ میں بھارت کی جانب سے اٹکائے جانے والے روڑوں کے حوالے سے ہے جبکہ کالم کے آغازمیں ریڈیو کی افادیت و اہمیت بیان کی جارہی ہے تو یہ سب لکھنے کا مقصد صرف اتنا بتاناتھا کہ باقی دنیا ریڈیو کو کس طرح اور کس لئے استعمال کررہی ہے جبکہ ہمارے ہاں کیا صورتحال ہے۔

اب آتے ہیں آل انڈیا ریڈیو اور بلوچستان کی جانب ۔آل انڈیا ریڈیو1974ء سے بلوچی زبان میں نشریات دے رہاہے تاہم وزیراعظم نریندرا مودی کے بلوچستان کے حوالے سے حالیہ بیان کے بعد آل انڈیا ریڈیو نے بلوچی زبان میں اپنی نشریات میں توسیع کرنے اور بلوچی نیوز بلیٹن کے اوقات میں اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی منظوری وزیراعظم مودی دے چکے ہیں۔

اس حوالے سے آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل فیاض شہریار اور مرکزی وزیر جتندرسنگھ کے درمیان ملاقات بھی ہوئی ہے۔ملاقات کے بعد فیاض شہریار کا کہنا ہے کہ آل انڈیا ریڈیو کی نشریات آزاد جموں و کشمیر سمیت پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی سنی جاتی ہیں تاہم اب بھارتی کشمیر میں300کے وی کا مزید ایک اور ٹرانس میٹر نصب کیا جائے گا جس سے آل انڈیا ریڈیو کی نشریات پاکستان کے زیادہ سے زیادہ علاقوں میں سنی جا سکے گی ۔

خبر کے مطابق آل انڈیا ریڈیو بلوچی زبان میں پہلے ہی دس منٹ کا بلیٹن آن ائیر کر رہا ہے تاہم وزیراعظم مودی کے بلوچستان بارے حالیہ بیان کے بعد اس میں اضافے کا فیصلہ کیاگیاہے ۔کیا بھارت اپنے آل انڈیا ریڈیو پر بلوچستان کے بارے میں خبریں دیتے ہوئے پاکستانی مفادات کا خیال رکھے گا؟؟کیا آل انڈیا ریڈیو بلوچستان کی ترقی کے گُن گائے گا ؟؟نہیں ہرگز نہیں بلکہ وہ اپنے مفادات کے لئے پروپیگنڈا نیوز کا سہارا لے کربلوچستان میں تخریبی کارروائیاں کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرے گا جس سے بلوچستان کی آگ مزید بھڑک اٹھنے کا اندیشہ ہے ۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے کشمیر اور بلوچستان کو ایک ہی طرح کا معاملہ بیان کرنا ہی بھارتی عزائم آشکارا کرنے کے لئے کافی ہے جس سے وہ دنیا کویہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں بھی کشمیر کی طرح ہی آزادی کی تحریک چل رہی ہے باالفاظ دیگر نریندر مودی نے کشمیر کے معاملے پر پاکستان کو شٹ اپ کال دینے کی کوشش کی ہے کہ اگر آپ کشمیر کا معاملہ دنیا کے سامنے اٹھائیں گے تو ہم بلوچستان کے حوالے سے پروپیگنڈا کرکے علیحدگی پسندوں کا ساتھ دیں گے ۔بلوچستان میں جاری دہشت گردی کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی را کا ہاتھ ہے جس کی جیتا جاگتا ثبوت بھارت کے سلامتی مشیر اجیت دوول کا وہ بیان ہے جس میں وہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی پالیسی بیان کررہاہے۔اسی طرح بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کی بلوچستان سے گرفتاری اور اس کے اعترافات بھی بھارتی عزائم کو واضح کرتے ہیں۔

بھارت سمیت دیگرطاقتیں پہلے بھی پاکستان کو کمزور کرنے کی کوششیں کرتی رہی ہیں تاہم جب سے چین پاکستان اقتصادی راہداری کا منصوبہ شروع کیا گیا ہے جس کو نہ صرف پاکستان کی معیشت بلکہ خطے کی اقتصادیات کے لئے بھی گیم چینجرکی حیثیت حاصل ہے تو ان ناپاک کوششوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے جس کے ذریعے یہ طاقتیں پاکستان اور چین کے مابین جاری اس عظیم ترین منصوبے کو ناکام بنانے کی کوشش کررہی ہیں اور آل انڈیا ریڈیو کا بلوچی نشریات میں توسیع اور بلوچی خبروں میں اضافے کا فیصلہ اس بات کا عماز ہے کہ اب ہمارے دشمن نے اپنا طریقہ کار بدلنے کا فیصلہ کیاہے اور وہ پروپیگنڈا نیوز کے ذریعے معصوم بلوچوں کو ورغلانے کی بھرپور کوشش کرے گا۔

اس طرح کی نازک صورتحال میں وفاق میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کاقومی فریضہ بنتا ہے کہ وہ سی پیک کے تحت بلوچستان سمیت ملک کے دیگر محروم علاقوں کو ترقی کے یکساں مواقع دے کر دشمن کے مزموم مقاصد کو ناکام بنائے تاہم وفاقی حکومت کی مبہم پالیسیاں اور وفاقی وزارء کے مبہم بیانات سے یوں لگتا ہے کہ مسلم لیگ ن سی پیک جیسے عظیم منصوبے کو بھی صرف پنجاب اور خصوصا وسطی پنجاب کی ترقی کے لئے استعمال کررہی ہے جس سے دشمن کا کام انتہائی آسان ہوجائے گا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے