جاوید احمد غامدی اور مسئلہ تکفیر

ابھی چند دنوں قبل فاضل دوست زاہد مغل صاحب کی پوسٹ نظر سے گذری جس میں جاوید احمد غامدی کے نظریہ تکفیر پہ خاصی نقد موجود تھی۔ قاری حنیف ڈار صاحب کا بھی اس موضوع پر بہت جاندار مضمون پڑھنے کو ملا۔ زاہد مغل صاحب نے کافی دلائل جمع کردئیے تھے۔

اس سلسلے میں چند معروضات میں بھی پیش کرنا چاہونگا ۔ مسئلہ تکفیر اور غامدی صاحب کے موقف سے متعلق چند غلط فہمیاں ہیں جنکا ازالہ کیا جانا ضروری ہے ۔

جب یہ کہا جاتا ہے کہ تکفیر کرنا جائز نہی تو اسکا مطلب یہ مراد لیا جاتا ہے کہ شائد کوئی بھی تکفیر نہی کرسکتا۔ یہی اصل مسئلے کی جڑ ہے۔ زاہد مغل بھائی نے جتنے بھی دلائل دئیے وہ اس بنیاد کو نہ سمجھنے کی بنیاد پر تھے۔ تکفیر کی جاسکتی ہے لیکن اسکا حق صرف اور صرف اللہ اور اسکے رسولﷺ کو ہے۔ایسا کیوں ہے؟

انسانی رویہ جات دو قسم کے ہوتے ہیں۔ انسانی رویہ جات کا سائنسی علم ہمیں بتاتا ہے کہ انسان یا تو بہت سختی سے انکار کرتا ہے یا اقرار کرتا ہے۔ یہ اسکےرویے کی ایک صورت ہے۔ اسمیں وہ جان بوجھ کر انکار کررہا ہوتا ہے۔ دوسری صورت اسکی مخالف صورت ہے۔ جسمیں اسکا سب کانشیس مائنڈ اسکے رویہ جات کو کنڑول کر رہا ہوتا ہے۔ یہ اسکے رویہ کہ دوسری قسم ہے۔ قران جب جزاء و سزاء کا معاملہ بیان کرتا ہے تو پہلے رویہ کو بیان کرتا ہے۔ کہ کوئی کسر باقی نہی چھوڑتا۔ مثال کے طور پر جب وہ اہل کتاب کے انکار کو بیان کرتا ہے تو ان الفاظ میں کرتا ہے

الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ ۖ وَإِنَّ فَرِيقًا مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
﴿002:146﴾

جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ ان (پیغمبر آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم) کو اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانا کرتے ہیں مگر ایک فریق ان میں سے سچی بات کو جان بوجھ کر چھپا رہا ہے ‏

جان بوجھ کر چھپا لینا (وھم یعلمون)، یہ ایسا معاملہ ہے جسکی تہہ تک ایک انسان تو نہی پہنچ سکتا۔مشہور واقعہ ہے صحابی نے ایک ایسے شخص جنگ میں ایسی حالت میں قتل کردیا کہ اس نے اسلام قبول کرلیا۔ نبیﷺ کو بتایا گیا تو آپﷺ نے کو رنگ سرخ ہوگیا آپ نے پوچھا کہ ایسا کیوں ہوا؟ صحابی نے عذر پیش کیا کہ وہ جان کے ڈر سے اسلام قبول کر رہا تھا۔ تو آپ نے فرمایا کہ تم نے اسکا پیٹ پھاڑ کہ دیکھ لیا تھا؟؟

تکفیر، کسی بھی شخص کو مسلمانوں کے نظم اجتماعی سے کاٹ دینا ہے۔ اس بات کی گواہی دینا ہے کہ یہ شخص اپنے ہوش و حواس میں جان بوجھ کر خد ا اور اسکے رسول کا انکار کررہا ہے۔ یہ کسی انسان کےبس کا کام نہی۔ کسی بھی مجرم کا جرم ہمیشہ عدالت میں جج ثابت کیا کرتا ہے شہری لاکھ دیکھ لیں کہ اس نے جرم کیا ہے وہ عادل گواہ تو ہوسکتے ہیں۔ لیکن منصف نہی۔ اور خدا کی عدالت میں کسی کی گواہی کی ضرورت ہی نہی تو ہماری گواہی کی بھی ضرورت نہ ہوگی۔ اسی لئے غامدی صاحب سے جب بھی تکفیر کے متعلق سوال کیا جاتا ہے تو ایک ہی بات کہتے ہیں کہ آپ غلطی واضح کرسکتے ہیں۔ آپ غلطی واضح کرسکتے۔

قران کا کفار اور منافقین کے گروہ بنانا۔

قران جب کسی پر کافر ہونے کا لیبل لگا رہا ہوتا ہے تو یہ لیبل میرے آپکی طرف سے نہی اس کی طرف سے ہوتا ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں ماں کے پیٹ میں موجود بچے سے واقف ہوں۔ اسکے ماضی ، حال اور مستقبل کے ساتھ اسکی ہر چیز جسے وہ چھپا لے اور جسے وہ ظاہر کرے۔ تو یہ اس کا توحق ہوا میرا آپکا حق کیسے ہے؟ کیا ہم نیتوں کا حال جاننے والے ہیں؟

ممکنات میں سے ہے کہ کسی نے بات سن لی ہو غور نہ کیا ہو۔ غور کرلیا ہو بات ٖغلط سمجھا ہو۔ میں اور آپ کیسے اس بات کا تعین صرف اس بنیاد پر کرسکتے ہیں کہ وہ بات نہی سمجھا۔

زاہد مغل صاحب نے دوسری قسط میں کافی لمبا لکھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ لوگ آج کے دور میں دین سے غافل ہوں۔ یہی وہ رویہ ہے جسے نے ہردوسرے فرقے کو دوسرے کی تکفیر پہ مجبور کردیا۔ ہم نے سمجھ رکھا ہے کہ ہمارے سوا ہردوسرا جان بوجھ کر ہمارے دلائل جھٹلا رہا ہے۔ حالانکہ انسان کے ہوشمند فیصلوں پر بھی بہت سے عوامل اثر انداز ہوتے ہیں جسکی بنا وہ یہ کام کر رہا ہوتا ہے۔ اسمیں اسکا بغض عناد اور ہٹ دھرمی شامل نہی ہوتی۔میر ا قوی گمان ہے کہ زاہد مغل صاحب نے یہ جو نقد کی ہے یہ بڑے سچے دل سے کی ہوگی۔ لیکن اگر میں اس مقام پر کھڑا ہوں جہاں فاضل دوست کھڑے ہیں تو اسکا مطلب ہوگا کہ میں زاہد مغل صاحب کی نیت پہ شک کروں اور انکے محرکات طے کروں۔

اس تمہیدی گفتگو کے بعد زاہد مغل صاحب کے اعتراضات کی طرف بڑھتے ہیں۔

ھو الذی خلقکم فمنکم کافر و منکم مومن (تغابن: 2)
یعنی ”وہی (خدا) ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، پھر تم میں سے بعض کافر ہیں اور بعض مومن۔

آپ لکھتے ہیں یہا ں کوئی دوسری صنف موجود ہی نہی۔ اس لئے قران سے کسی تیسر صنف کا وجود ہی نہی۔اس بات کا مطلب ہوا کہ اب جو گروہ ہونگے وہ یا تو ایک حد (مسلم) یا دوسری حد (کافر) یعنی اسکے درمیان کسی صورت نہی ہوسکتے۔
سوال ہے پھر منافقین کا کیا ہوا؟ وہ بھی تو اس قانون میں سے نکل گئے جب گروہ ہی دو ہیں تو منافقین بھی تو نکل گئے۔

سورۃ توبہ اٹھائے قران مشرکین کے بارے میں کہہ رہا ہے کہ قوم لایعلمون،
وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ۚ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْلَمُونَ
﴿009:006﴾
‏ [جالندھری]‏ اور اگر کوئی مشرک تم سے پناہ کا خواستگار ہو تو اس کو پناہ دو یہاں تک کہ کلام خدا سُننے لگے پھر اس کو امن کی جگہ واپس پہنچا دو۔ اس لئے کہ یہ بےخبر لوگ ہیں ۔
مشرک ہیں تو لایعلمون کیسے؟ انہیں یا تو کافر ہونا ہے یا مسلم، جب لایعلمون ہیں تو صاف ظاہر ہے کہ قانون جزا و سزا کی رو سے ان پر بات واضح نہی ہوئی۔ ابھی اوپر ہی (سورۃ توبہ) تو انکے بارے میں حکم ناز ل ہوا ہے۔
فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ
﴿009:005﴾
جب عزت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کر دو اور پکڑ لو اور گھیر لو اور ہر گھات کی جگہ پر ان کی تاک میں بیٹھے رہو۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے لگیں تو ان کی راہ چھوڑ دو۔ بیشک خدا بخشنے والا مہربان ہے۔

اسکا صاف مطلب ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں کہ جو شرک تو کرتے ہیں لیکن لایعلمون ہیں(یعنی وہ خدا کے ساتھ شریک تو ٹہراتے ہیں لیکن وہ اس عمل کی خبر نہی رکھتے، وہی دعا جو احد میں نبیﷺ نے کی کہ الھم اغفر لقومی فانھم لایعلمون)۔ انہیں کس صنف میں شامل کیاجائے؟زاہد مغل صاحب کے قائد ے کے متعلق انہیں مطلق کفر کے درجے میں داخل ہونا چاہیے کیونکہ یہ قران ان پر شرک کی شہاد ت دے رہا ہے۔ لیکن اگر ان پر شرک کی شہادت دی جائیگی تو پھر مشرکین سے ان دو آیات میں سے ایک آیت والا معاملہ ہوگا۔ یا تو جہاں بھی ملینگے ماردیا جائےگا یا پھر پناہ مانگنے پر رکھا جائے گا اور آیات قرانی سنائی جائنگی اور یہ ایک وقت میں (آخری اقدام) میں ممکن نہی۔ کیونکہ ہر دوصورت میں ایک حکم کی خلاف فرضی کا احتمال بہرحال موجود رہےگا۔

لیکن اگر غامدی صاحب کی بات مان لی جائے تو مدعا واضح ہوجاتا ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جن تک بات پہنچی تو ہے پر وہ ڈھٹائی سے نہی یا سمجھ کر، یا جان بوجھ کر نہی بلکہ کسی اور بنا پر اسے جھٹلا رہے ہیں .

اتمام حجت کا کفر سے متعلق ہونے کا جہاں تک تعلق ہے۔ تو یہ اور تکفیر لازم و ملزوم ہیں۔ جیسا کہ تمہید میں تکفیر والا معاملہ بیان ہوچکا ہے۔
اتمام حجت میں خدا اپنی عدالت زمین پر لگا کر وہ فیصلے کرتا ہے جو فیصلے اس نے حشر میں کرنے ہیں۔ بلکل وہی معاملہ، سورۃ توبہ آخری اقدام کی سورۃ ہے ایک ترتیب سے آیات اٹھا کر پڑھتے جائیے بلکل وہی معاملہ جو حشر میں ہو رہا ہوگا وہی معاملہ یہاں ہورہا ہے۔اسکے لئے خدا کا رابطہ ضروری ہے۔اسکے خلاف آپ نے عیسیٰء کی قوم کے بارے میں بیان کیا ہے کہ انکی قوم پر کوئی اتمام حجت یا یعرفون کما یعرفون ابنائہم والا معاملہ نہی ہوا۔
ذرا قران کو اٹھائیں تو قران نبی کے وجود کو حجت قرار دے رہا ہے۔

’لِءَلاَّ یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌ م بَعْدَ الرُّسُلِ، کہ نبی کے آنے کے بعد کوئی عذر باقی نہی رہتا۔ تو بلکل صاف ہے کہ عیسائیوں کا معاملہ اتمام حجت کے قانون کے علاوہ نہی ہوا۔نبی اپنے وجود میں حجت ہوا کرتا ہے۔
پھر جو کفر کی تعریف آپ نے کی ہے احادیث مبارکہ میں بیان کردہ کفر سے میل نہی کھاتی اور قران کے بھی خلاف ہے۔
حديثُ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ: وَيْلَكُمْ أَوْ وَيْحَكُمْ، لا تَرْجِعُوا بَعْدي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقابَ بَعْضٍ.
ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہاری بربادی میرے بعد کافر مت ھو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگ جاؤ ،،
اسمیں کفر کس معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔
کثیر روایات ہیں کہ وہ مومن نہی ہوسکتا جو خود جی بھر کے کھائے، لیکن اسکا پڑوسی بھوکا سوئے۔
اس بنیاد پر بھی تکفیر کی جانی چاہیے اگر تکفیر کا مطلب یہی ہےتو؟؟؟
واللہ عالم
أقول قولي هذا واستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے