تین تصویریں ، تین رویے

آج میں نے اپنی فیس بک وال پر دوگھنٹوں کے دوران تین تصویریں شئیر کیں.

[pullquote]پہلی تصویر
[/pullquote]

زیادہ مسافر اور زیادہ کرایہ لینے والی گاڑی کی تصویر اور نمبر
زیادہ مسافر اور زیادہ کرایہ لینے والی گاڑی کی تصویر اور نمبر

پہلی پوسٹ میں تین تصاویر کے ساتھ ساتھ دو ویڈیوز بھی شامل تھیں جس میں عوام کو در پیش ایک اہم مسئلے کی جانب متوجہ کرانے کی کوشش کی گئی۔ پورے ملک میں اڈوں پر لوگوں کو کس طرح ذلیل اور رسوا کیا جاتا ہے ۔ میں نے اپنی اس پوسٹ میں بتایا تھا کہ

[highlight txtcolor=”#1e73be”]

 

 

راولپنڈی سے مانسہرہ کا کرایہ 210 روپے ہے اور ایک ویگن میں تین سواریاں بٹھانے کی اجازت ہے لیکن پیر ودھائی منڈی موڑ پر فی سواری تین سو روپے جبکہ ہر سیٹ پر چار چار سواریاں بٹھائی جا رہی ہیں. قربانی کے جانوروں کو بھی اس طرح نہیں لادا جا رہا جس طرح انسانوں کو ویگنوں اور بسوں میں لادا جا رہا ہے. گاڑی میں کوئی اے سی نہیں اور لوگ شدید گرمی میں سفر کرنے پر مجبور ہیں.

اڈے کی انتظامیہ کہتی ہے کہ پیر ودھائی ٹریفک پولیس والے ہم سے فی گاڑی کے پیسے لیتے ہیں اور ان کی وجہ سے ہم نے کرایہ 90 روپے فی کس بڑھا دیا ہے. موٹر وے پولیس کہتی ہے کہ وہ راستے میں چیک کرتے ہیں لیکن اکا دکا گاڑیوں کے علاوہ کسی کو چیک نہیں کیا جا رہا. یوں اوور لوڈنگ اور زیادہ کرایہ غریب اور پسے ہوئے عوام سے لیا جا رہا ہے.

پولیس اور انتظامیہ کی ملی بھگت سے لوگوں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ مجرم بنیں، لڑائی جھگڑے اڈوں پر معمول ہیں. اڈہ مالکان مسافروں کو گالیاں دیتے ہیں اور بات کرنے پر بھی گاڑی سے گھسیٹ کر اتار دیتے ہیں۔ یہ آج کا نہیں، برسوں کا معمول ہے. یہ پنڈی نہیں ہر اڈے کا معمول ہے.

میرے صحافی دوست اگر قربانی کے جانوروں کی ماڈلنگ سے فارغ ہوچکے ہوں تو خدا را ان جانور نما انسانوں کے لئے بھی ایک رپورٹ بنا دیں. شاید بے حس حکمرانوں کو خیال آجائے کہ جن گدھوں کے ووٹ سے وہ منتخب ہوتے ہیں، ان کی حالت کیاہے.

گاڑی کی تصویریں اور ویڈیو موجود ہے. اسے بھی چلا سکتے ہیں. جن صحافیوں، ٹریفک پولیس والوں اور سیاستدانوں کو جانتے ہیں، انہیں مینشن یا ٹیگ کرتے جائیں، اس پوسٹ کو شئیر کرتے جائیں شاید آج جو ذلت ہمیںں نصیب ہو رہی ہے، وہ کل آپ کا مقدر نہ بنے.

ایک سواری نے غصے سے کہا کہ الطاف حسین نے جو کراچی پریس کلب کے باہر نعرے لگائے تھے، وہ غلط تو نہیں تھے. میں خاموش ہو گیا، کیا کہہ سکتا تھا.

 

میں نے اس مسئلے کیلئے ٹریفک پولیس کو فون کیا، پانچ بار موٹر وے پولیس کو فون کیا. میڈیا کے دوستوں کو فون کیا. گاڑی میں پوری تقریر کی ، اڈے پر ڈرائیور اور اڈہ انتظامیہ سے لڑا، گھر پہنچا تو ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے سر میں درد تھا لیکن اس خبر کو اس وقت تک 37 لوگوں نے شئیر کیا. تھوڑے سے لوگوں نے اپنے کمنٹس بھی کئے لیکن میڈیا اور پولیس کی جانب سے کوئی تعاون نہیں کیا گیا. میں نے اس مسئلے کو اٹھانے کیلئے آئی بی سی اردو سمیت کئی پیجز سے بھی گذارش کی کہ وہ اس موضوع کو زیر بحث بنائیں ۔

[pullquote]دوسری تصویر
[/pullquote]

اس تصویر میں دکھایا گیا کہ کس طرح فوجی اہلکار نے موٹر وے پولیس اہلکاروں کو گھسیٹتے ہوئے لے جا رہے ہیں
اس تصویر میں دکھایا گیا کہ کس طرح فوجی اہلکار نے موٹر وے پولیس اہلکاروں کو گھسیٹتے ہوئے لے جا رہے ہیں

اسی دوران موٹر وے پولیس کے اہلکاروں کے ساتھ فوجی جوانوں کی زیادتی اور اٹک قلعے میں ہراساں کرنے اور تشدد کا نشانہ بنانے کی تصویریں موصول ہوئیں.موٹر وے پولیس کے اہلکاروں کی جانب سے آرمی چیف کو لکھا گیا ایک خط بھی ساتھ شئیر کیا . 147 لوگوں نے اسے شئیر کیا. بعض لوگوں فوج کو گالیاں دیں، فوجی اہلکاروں کی زیادتیوں کی تاریخ لکھی. کوئٹہ میں ڈاکٹر شازیہ کے ساتھ کیپٹن حماد کا ریپ ، فوجی اہلکار کے ہاتھوں میٹر ریڈر کا قتل سمیت اسلام آباد میں ریٹائر برگیڈئر کے ساتھ آئی ایس آئی کے حاضر سروس برگیڈئر کی زیادتی تک ایک بحث شروع ہوگئی، اور ہونی بھی چاہیے تھی ۔ کچھ نے فوج کی حمایت کرکے اس واقعے کو سپورٹ کرنا شروع کر دیا. الغرض دو گروپ بن گئے اور اس وقت یہ سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا کا سب سے اہم مسئلہ ہے. ہونا بھی چاہیے کیونکہ قانون کی بالادستی کیلئے لازم ہے کہ پوری قوم ایک پیج پر ہو ۔

[pullquote]تیسری تصویر
[/pullquote]

اس تصویر میں نماز کے بعد جنازہ اضافی لکھاگیا تھا
اس تصویر میں نماز کے بعد جنازہ اضافی لکھاگیا تھا

ایک فضول سی تصویر مجھے کسی دوست نے واٹس ایپ کی جس میں جس میں نیو ٹی وی نے اپنے ٹکرز میں لکھ دیا کہ مسجد الحرام میں عید الاضحیٰ کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی ہے ۔ اس تصویر کو 490 سے زائد لوگ اسے اس وقت شئیر کر چکے ہیں.

[pullquote]اب آتے ہیں اصل مسئلہ کی طرف
[/pullquote]

آئیے اپنے گریبانوں میں جھانکتے ہیں. زرا سینے پر ہاتھ رکھ کر مجھے بتائیں جب اہم سماجی مسائل کو اتنی اہمیت دیں گے تو میڈیا پر گلہ شکوہ کیوں ہے ۔ جتنی آپ کو اس مسئلے سے دلچسبی ہے ،میڈیا بھی تو اسے اتنا ہی دکھائے گا نا ،،، حکمران بھی اس پر اتنا ہی ایکشن لیں گے, پولیس بھی اتنی ہی توجہ دے گی جتنی آپ نے دی ہے.

میں نے ایک بار سوچا کہ ہمارا مین سٹریم میڈیا اس موضوع پر گفت گو ، ٹاک شوز اور رپورٹس کرنے کے بجائے بکروں کی ماڈلنگ کیوں دکھا رہا ہے۔
آپ کے رویے نے مجھے میرے اس سوال کا جواب دے دیا کہ آپ کے نزدیک جو چیز اہم ہے، میڈیا وہی دکھائے گا نا بھائی ،،،
آپ کو پھکڑ پن، جگتیں اور شغل میلہ پسند ہے، میڈیا وہی دکھا رہا ہے.
وہ نہیں دکھائے گا تو آپ دیکھیں گے نہیں،
آپ دیکھیں گے نہیں تو اسے اشتہار نہیں ملیں گے.
اشتہار نہیں ملیں گے تو ٹی وی چلے گا نہیں,
ٹی وی میں کام کرنے والوں کی تنخواہوں کے پیسے نہیں آئیں گے ۔
پیسے نہیں آئیں گے تو ٹی وی چلے گا نہیں ۔
ٹی وی چلے گا نہیں تو بے روزگاری بڑھے گی۔
کاروبار بند ہو جائے گا.

اس لئے کاروبار چلانے کا اصول یہ ہے کہ دکان پر وہی سامان رکھا جاتا ہے جو بکتا ہے. آپ کو اعتراض ہے کہ میڈیا میں بکواس چلتا ہے ۔ میڈیا میں بکواس اس لئے چلتا ہے کہ اس کے آپ کو بکواس پسند ہے ۔آپ کے بکواس دیکھنے کی خواہش سے بکواس کی ریٹنگ بنتی ہے . آپ خود سوچیں ایک چیز کے خریدار 37 ہیں اور دوسری کے 460 تو مجھے ایمانداری اور دکانداری سے بتائیں کہ دکان پر کونسی چیز رکھنی چاہیے.
شیشے میں اپنی شکل بری دکھائی دی جارہی ہو تو دانا کہتے ہیں کہ

[pullquote]شیشہ توڑنے کے بجائے اپنی شکل ٹھیک کرنی چاہیے
[/pullquote]

اب سب آپ کے پاس ہے
شیشہ بھی ، چہرہ بھی اور ہاتھ بھی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے