سیاسی جماعتوں کا المیہ

قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بچارے دو رکعت کے امام (اقبال)

سیاسی دنیا کا عمومی اصول یہ ہے کہ سیاست دان عمومی صورت میں عوام کے نہ صرف یہ کہ نمائندے ہوتے ہیں بلکے عوامی حقوق کے ضامن بھی ہوتے ہیں اور قومی اور بین الاقوامی سطح پر سیاست دان ایک ملک اور قوم کے نمائندے ہوتے ہیں اور وہ عوام کے مجموعی اخلاقی معیار اور ملک کی مجموعی صورت حال کو ظاہر کر رہے ہوتے ہیں ۔

لیکن پاکستانی قوم کا المیہ یہ ہے پاکستانی عوام کو قائد اعظم محمد علی جناح اور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے بعد صیح معنوں میں قومی قیادت کبھی میسر ہی نہیں آئی ، قائد اعظم مسلمانوں کو عملی طور پر ایک مضبوط اور غیر متزلزل قوم بنانا چاہتے تھے تو علامہ اقبال قوم کو علمی ، فکری ، ذہنی اور قلبی طور پر ایک بے مثال اور عظیم قوم بنانے کے خواہاں تھے علامہ اقبال اور قائد اعظم کے بعد یہ قومی ذمے داری برائے راست ہمارے رہنماؤں اور سیاست دانوں پر عائد ہوتی تھی لیکن افسوس کے ہمارے سیاست دانوں کو اس قومی ذمے داری کا نہ صرف یہ کہ ذرا بھر احساس نہیں ہے بلکے اس قومی ذمے داری کے ادراک سے بھی کوسوں دور ہیں ۔ پاکستان میں اس وقت جھوٹی بڑی درجنوں بلکے شاید تعداد میں سکینڑوں سیاسی جماعتیں موجود ہوں لیکن حقیقی قومی قیادت کی تعریف پر پوری اترنے والی جماعت کوئی ایک بھی نہیں ۔ پاکستانی سیاست اپنے مروجہ سیاسی انداز اور معروف معنی میں محض ووٹ ، نعرے، دعوے اور کرسی اقتدار کے حصول کی کاوشوں تک محدود ہے۔ پاکستانی سیاست کا اگر قومی تربیت کے ضمن میں عبوری اور عمومی تجزیہ کیا جائے تو پاکستانی سیاست دان اخلاقی گراوٹ کی حدوں کو چھو رہے ہیں ، پاکستان کی سیاسی لغت میں بالغ نظری ، سنجیدہ فکر ی، اصول ا ور برداشت جیسے الفاظ سرے سے موجود ہی نہیں ہیں اور پاکستانی سیاست میں ذرا ذرا سیاسی اختلاف کی بنیاد پر ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں ، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے اور سرے عام میڈیا پر ایک دسورے کی مٹی پلید کی جاتی ہے۔ پاکستانی میں اب اکثر سیاسی جماعتوں کی سیاست ہی حریف جماعت کے گرد گھومتی ہے ۔ کسی سیاسی جماعت کااپنی حریف جماعت کی بات برداشت کرنا یا کم ازا کم کسی بھلی بات یا پالیسی کی تعریف کرنا اتنا مشکل بلکے نا ممکن نظر آتا ہے کہ جیسے یہ اس زمین کے لوگوں کا نہیں بلکے مریخ پے بسنے والوں کا خاصا ہو۔پاکستانی سیاست میں عوامی اور قومی مفاد کی خاطر نہیں بلکے اپنی ذاتی پسند اور نا پسند کی بنیاد پر سیاسی اتحاد قائم کیے جاتے ہیں ۔کوئی سیاسی جماعت جب کسی سیاسی گرداب میں پھنستی ہے یا اقتدار کے حصول کی کوئی صورت دیکھتی ہے تو عوام کی خواہشات اور قومی مفاد سے قطع نظر غیر فطری اتحاد کرنے سے بھی گریز نہیں کرتی ۔

پاکستانی سیاست دان محص جماعتی اختلافات کی بنیاد پر اپنی آخری حدوں کو پہنچ جاتے ہیں ، ایک دوسرے پر بلا سیاق و سباق جانے زبان درازی کی جاتی ہے، بے بنیاد الزام لگائے جاتے ہیں ،ایک دوسرے کو سرے عام برا بھلا کہا جاتا ہے،نام بگاڑے جاتے ہیں ، اپنی محالف جماعت کے لیڈروں کی نقلیں اتاری جاتی ہیں ،محض سیاسی اختلافات کی بنیاد پر ایک دوسرے کی ذاتیات پر حملے کیے جاتے ہیں ، ایک دوسرے کی نجی اور ذاتی زندگی پر تنقید کی جاتی ہے اور تو انداز سیاست ، پالیسز پر تنقید کرنے والوں اور اختلاف رائے رکھنے والوں کو بیرونی اور خارجی ایجنٹ کہنا تو اتنی معمولی بات ہے جس سے کوئی اور جواب نہ بن پائے وہ مخالف لیڈر کو خفیہ طاقتوں اور ملک دشمن عناصر کا آلہ کار قرار دے دیتا ہے۔ستم بالائے ستم یہ کہ حکومتی جماعت کے ارکان اور وزرا بھی اس دوڑ میں کسی سے کم نہیں حالانکہ حکومت کا کام سیاسی بیان داغنا نہیں ہوتا اور نہ حکومت کو مخالفین پر تنقید اور الزامات زیب دیتے ہیں بلکے حکومت تو عملی اقدام کرتی ہے لیکن ظاہر ہے جب اصولی سیاست کے بجائے انتقامی اور اقتدار کی سیاست کی جائے گی تو نتیجا لازما ایسا ہی ہوگا ، اخبارات کا بیشتر حصہ تنقیدی بیانات اور جوابی بیانات سے پُر ہوگا اور عوام اس سیاسی نظام سے مزید بےزار بلکے مایوس ہوں گے۔۔

ہمارے اکثر سیاست دان اگرچہ اصولی سیاست کے دعوے دار ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اصول نام کی کوئی شہ نہ ہماری سیاست میں ہے اور نہ ہمارے سیاست دانوں ۔ بلکے تلخ حقیقت یہ کہ ہمارے سیاسی نظام نے بجائے عوام کی تربیت کے اور بجائے اسکے عوام کو یکجا کیا جاتا الٹا مزید تقسیم کر دیا ہے اور یہ تقسیم جماعتی تقسیم کی صورت میں کرا دی گئی ۔ خود ہمارے سیاست دان جماعتوں میں تقسیم ہیں ، جنکی تمام تر وفاداریاں جماعت کے سرپرست کے ساتھ ہوتی ہیں اور انکا سارا دن سربراہان کی تعریفوں اور خوشآمدی میں گزر جاتا ہے اور انکی تمام تر گفتگو اپنی صفائیاں پیش کرنے اور دوسروں کی خامیوں کی نشاندہی میں گزر جاتا ہے۔ٹی وی اخبارات اور دوسرے تما ذرائع پر تنقید اور الزامات کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور اگر وہ کسی عوامی اجتماع میں بھی جاتے ہیں تو بجائے عوام کی دادرسی کے انکی گفتگو کا محور و مرکز حریف جماعتیں یا حریف سیاست دان ہی ہوتے ہیں ۔ اپنے سیاسی کارکنوں کی تربیت ، عوام کی بیداری اور عوام میں شعور پیدا کرنے کے بجائے عام عوام کو دوسرے سیاست دانوں سے بدظن اور مایوس کیا جاتا ہے اور عوام کو مزید جماعتوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جس کے بتیجے میں یہ لفظی جنگ میڈیا اور سیاست دانوں سے نکل کر عام عوام میں بھی چھڑ جاتی ہے ، جو نہ صرف سیاست دانوں کو برا بھلا کہتے ہیں بلکے آپس میں بحث و تکرار کرتے ہیں اور بعض اوقات باہم دست و گریباں بھی ہوتے ہیں ، یہی نہیں بلکے ایک دوسرے کی مخالفت میں جلسے جلوس اور احتجاجی ریلیاں بھی نکالی جاتی جہاں ایک طرف ایک دوسرے کے خلاف شدید نعرے بازی کی جاتی ، غیر مہذب انداز اپنایا جاتا ہے ، اخلاقیات کا جنازہ نکالا جاتا ہے بلکے تھوڑ پھوڑ کی شکل میں ملکی ، قومی اور عوام کی نجی و ذاتی ملکیتوں اور جائیدادوں کو بھی خوب نقصان پہنچایا جاتا ہے جو کسی بھی قوم کے حق میں قطعا قطعا سود مند نہیں بلکے قومی زوال کی راہ میں اٹھنے والے قدم ہیں۔

کسی سیاست دان کی کسی سیاسی جماعت سے وفاداری کوئی بری شہ نہیں لیکن اس بات کا احساس بہرحال موجود رہنا چاہئیے کہ اپنے اور اپنی جماعت کے دفاع میں متعین حدود سے باہر قدم نہ رکھا جائے اور دوسروں کی تذلیل اور بے بنیاد الزامات سے گریز کیا جائے۔ ہمارے سیاست دانوں کو چاہئیے کہ انکی وفادریاں پہلے اسلام پھر اپنے ملک پاکستان کے ساتھ ہوں اور پھر اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے ساتھ اور جہاں کہیں بھی اسلام اور پاکستان کی بات آئے تو جماعتوں سے بالاتر ہوکر ایک قومی مفاد کی خاطر ایک جھنڈے تلے جمع ہو جائیں ۔ اپنی جماعتوں کے ساتھ وفاداریاں نبھاتے وقت بھی انہیں یہ خیال لازما رکھنا چاہئیے کہ کسی بھی چیز سے حد سے زیادہ اور اندھی محبت اوروں کے خلاف حسد پیدا کرتی ہے لہذا انہیں کہ چاہئیے دوسری جماعتوں کے وجود کو زبان اور دل سے تسلیم کریں اور اپنی جماعت ، قائدین اور سربراہان کو فرشتہ تصور کرنے کی سوچ اور شاہ سے زیادی شاہ کی وفاداری کی روش کا مکمل خاتمہ کریں ۔سیاست دانوں کو چاہئیے کہ سیاسی بیانات دینے سے گریز کریں ، مکمل اصولی اور نظری اختلاف کریں ،بجائے ذاتی تنقید کے کسی جماعت یا لیڈر کے نظریے یا انداز سیاست پر تنقید کریں ،بے بنیاد الزامات کے بجائے کوتاہیوں اور نقائص کی نشاندہی کریں اور خود بھی اوروں کی نشاندہی پر بجائے جوابی وار کرنے کے بہتری اور اصلاح کی کوشش کریں ۔

جمہوری نظام حکومت کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کی جمہوریت میں افراد کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا اس جمہوری اصول نے ہمارے سیاسی نظام کے نقائص میں مزید اصافہ کر دیا ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کا اندازہ ووٹوں کے تھیلوں کی تعداد سے لگایا جاتا ہے اور اسی معیار سے جماعت کے جھوٹے یا بڑے ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے اگرچہ مروجہ جمعوری اصولوں کے تحت تو یہ بات ٹھیک ہے لیکن اگرجمہوریت کی اصل روح ، ایک سیاسی جماعت کے اصل اغراص ومقاصد اور خالص اصولی اور عوامی سیاست کی رو سے دیکھا جائے تو ایک حقیقی سیاسی جماعت ہار جیت کےعارصی فیصلوں سے بہت بلند مقام رکھتی ہے اور ایک حقیقی سیاسی جماعت قومی تربیت کا ادارہ ہوتی ہے۔جمہوریت بادشاہت اور آمریت کے متبادل ایک عوامی نظام حکومت ہے جس میں صاحبان اقتدار کا فیصلہ شاہی محلوں اور ایک خاندان کے بجائے عام عوام کرتی ہے ۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے قیام کا مقصد الیکشن میں ٹف ٹائم دینا نہیں ہے بلکے ایک عوامی سیاسی جماعت کا اصل مقصد دراصل عوامی اصلاح، قومی تربیت ، سیاسی بیداری اور شعوری انقلاب ہے ۔ ایک سیاسی جماعت عوام کو بہترین مستقبل کے لیے تیار کرتی ہے ، عوام کو سیاسی نظام کا حصہ بناتی ، افراد کو قومی ذمے داریوں کا احساس دلاتی ، عام آدمی کو قومی دھارے میں شامل کر کے عام عوام کو قومی ترقی میں شامل کرتی ہے غرصیکہ سیاسی جماعت عوام کو حالات اور ضروریات کے مطابق تیار کرتی ہے اور عوام کی تربیت کرتی ہے ۔اگرچہ ہمارے ہاں مختلف سیاسی جماعتوں میں مختلف عوامی طبقات کے لیے مختلف مخصوص تنظیمیں بھی قائم کی جاتی جس کا اصل مقصد عوام کے مختلف طبقات کی تربیت ہی ہے لیکن افسوس کےموجودہ دور میں صرف تنظیمی ڈھانچے موجود ہیں جن کے قیام سے مختلف طبقات کی نمائندگی کا فریب دیا جاتا ۔

اگر ایک سیاسی جماعت اپنے اس مقصد کے حصول میں ناکام ہے اور اسکی تمام تر توجہ بجائے قومی تربیت کے ووٹ اور اقتدار کی طرف ہے اور باالفرض وہ کسی الیکشن میں کامیاب بھی ہو جاتی ہے تو بھی وہ ایک نا مکمل سیاسی جماعت ہی کہلائے گی ۔اگر ہمارے اس موجودہ طرز سیاست کو بدلا نہ گیا تو پاکستانی عوام ترقی یافتہ اقوام تو دور ترقی پذیر اقوم کی فہرست میں شامل نہیں ہو سکتی ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے