قومی کرکٹ ٹیم ،ایک معمہ

قومی کرکٹ ٹیم ، ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا ۔کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ قومی ٹیم کے کسی بھی کھلاڑی نے فرسٹ کلاس کرکٹ کا منہ نہیں دیکھا اور ان کو گلی میں سے پکڑ کر انٹرنیشنل سٹیڈیم میں اُتار دیاگیا ہے مگر کبھی کبھار بالکل ایک نیا نام اور چہرہ ورلڈ کلاس کارکردگی دکھا کرشائقین کرکٹ کو حیرت میں ڈال دیتا ہے ۔شاہد خان آفریدی کی تیز ترین سینچری کو پاکستانی شائقین سمیت دنیا بھر کے کرکٹ لورز کبھی بھول نہیں پائیں گے اور ان کا وہ ریکارڈ 17سال بعد جا کر ٹوٹا تاہم بعد میں ان کی کارکردگی کا گراف گرتا گیا اور بعض میچوں میں تو اُن کے کھیلے جانے والے سٹروکس کہیں سے بھی ایک ورلڈ ریکارڈ ہولڈر بیٹسمین کے نہیں لگتے ۔اسی طرح کی اور بہت سی مثالیں بھی دی جاسکتی ہیں ۔

بحیثیت مجموعی بھی قومی کرکٹ ٹیم کی بالکل یہی صورتحال ہے کبھی کبھی توُ چل ،میں آیا والی حالت ہوتی ہے بلکہ کبھی کبھی نہیں زیادہ تر یہی صورتحال ہوتی ہے تاہم پھر کسی ایک میچ میں سب کھلاڑیوں کی کارکردگی معجزاتی طورپر بہتر ہوجاتی ہے اور ہم وہ میچ جیت کر شادیانے بجانے لگتے ہیں۔انگلینڈ سیریز کا جائز ہ اگر لیا جائے تو یہی صورتحال سامنے آتی ہے ۔

پاکستان اور انگلینڈ چھ سال بعد ایک دوسرے کے مدمقابل آئے ۔دونوں ٹیموں کے درمیان کھیلی گئی سیریز کا پہلا ٹیسٹ میچ پاکستان نے 75رنز سے جیت کر دورے کافاتحانہ آغاز کیا ۔میچ کے دوران تقریبا تمام کھلاڑیوں کی کارکردگی بہتر رہی تاہم دوسرے ٹیسٹ میں قومی ٹیم کے غبارے سے ہوا نکل گئی اور انگلینڈ نے دوسرا میچ330 رنز کے بڑے مارجن سے اپنے نام کیا جبکہ قومی ٹیم کو پہلوان کا سامنا بھی کرنا پڑا۔اس میچ میں یوں لگا جیسے قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی گلی کے بچے ہیں جن کا سامنا انگلینڈ کے تجربہ کار کھلاڑیوں سے ہے اور جن کو سمجھ نہیں آرہی کہ کس طرح اپنی وکٹ بچانی ہے جبکہ بولرز کا حال تو اور بھی برا تھاجن کی لائن اور لینتھ ہی ساتھ نہیں دی رہی تھی۔اسی طرح تیسرے ٹیسٹ میں بھی انگلینڈ نے 141رنز سے قومی کرکٹ ٹیم کو شکست سے دوچار کیا ۔یونس خان میرے پسندیدہ ترین کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں تاہم سیریز کے پہلے تین ٹیسٹ میچوں میں جس طرح اچھل اچھل کر وہ بیٹنگ کرتے رہے تو یوں لگا جیسے ان کو سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ بیٹنگ کس طرح کرتے ہیں اورسابق بھارتی کپتان اظہر الدین کو فون کرکے یونس سے بات کرنی پڑی جس کے بعد ان کی فارم واپس آئی ۔

چوتھے اور آخری ٹیسٹ میچ میں یونس خان سمیت مصباح الیون میں معجزاتی طور پر عقابی روح بیدار ہوگئی ،اس میچ میں یونس خان نے ڈبل سینچری سکور کی ۔یہ میچ پاکستان دس وکٹ سے جیت گیا اور 111پوائنٹس کے ساتھ عالمی درجہ بندی میں پہلی پوزیشن بھی حاصل کرلی ۔

اب آتے ہیں سیریز کے ایک روزہ میچوں کی جانب ۔پانچواں میچ جیت کر ایسے شادیانے بجائے جا رہے ہیں جیسے ہم انگلینڈ کو کلین سویپ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں حالانکہ پانچواں میچ جیت کر ہم کلین سویپ ہونے کی بے عزتی سے بچ گئے جس پر کھلاڑی ،کرکٹ بورڈ آفیشل اور میڈیا بھی ایسے خوش ہے جیسے کوئی معرکہ سر کرلیا ہو۔ارے بھائیوں !زرا سا سانس بحال کرکے ٹھنڈے دل سے سوچو کہ ہوا کیا ہے ؟؟ اور ہم خوشی کس بات کی منا رہے ہیں؟؟ ۔کیااس بات کی کہ انگلینڈ کلین سویپ نہیں کرسکا؟؟

ون ڈے سیریز کے پہلے چار میچوں کا اگر جائزہ لیا جائے توپہلے ایک روزہ میچ میں قومی ٹیم نے ٹاس جیت کر بیٹنگ کی ۔کپتان اظہر علی 110گیندوں پر 82رنز بنا کر نمایاں بیٹسمین رہے تاہم ان کی کارکردگی ہی شکست کی بنیادی وجہ بنی اور انگلینڈ ڈک ورتھ لوئس سسٹم کے تحت یہ میچ جیت گیا۔

دوسرے میچ میں بھی ٹاس کے معاملے میں تو قسمت کی دیوی پاکستان پر مہربان رہی اور پاکستان نے پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تاہم اس میچ میں شائقین کرکٹ توُ چل، میں آیا والی صورتحال سے حقیقت میں لطف اندوز ہوئے ۔پہلی وکٹ سمیع اسلم کی گری جو ایک رن بنا کر پویلین لوٹے جن کے پیچھے پیچھے شرجیل خان بھی صفر پر چلتے بنے ۔کپتان اظہر علی بھی کہاں پیچھے رہنے والے تھے ،وہ بھی ایک غیر ذمہ دارانہ شاٹ کھیلتے ہوئے صفر پر کیچ ہوگئے ۔مجموعی طور پر قومی کرکٹ ٹیم کے چار کھلاڑی صفر پر ،ایک 1رن بنا کر اور دو 6رنز بنا کر آوٹ ہوئے ۔یہ میچ بھی انگلینڈ چار وکٹوں سے جیت گیا ۔

تیسرے میچ میں ٹاس بھی انگلینڈ کے نام رہا کیونکہ جیت توپہلے ہی سے ان کے نام تھی ۔اس میچ میں پاکستان کی شکست کی ذمہ داری بولر ز نے مل کر نبھائی ۔انگلینڈ نے پچاس اورز میں تین کھلاڑیوں کے نقصان پر 444رنز کا پہاڑ کھڑا کر دیا ۔بولرز میں سب سے کامیاب ترین بولر وہاب ریاض رہے جنہوں نے دس اورز میں 110رنزدے کر بھی کوئی وکٹ حاصل نہیں کی ،اسی طرح محمد عامر نے بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑتے ہوئے دس اورز میں 72رنز دیئے اور کسی کھلاڑی کو آوٹ نہ کرسکے جبکہ کپتان اظہرعلی کو ایک اوور میں بیس رنز کی مار پڑی جس کے بعد انہوں نے گیند کو ہاتھ لگانے کی غلطی دوبارہ نہیں کی ۔اسی طرح چوتھے میچ کا نتیجہ بھی سیریز کے پہلے تین میچوں جیسا رہا یعنی یہ میچ بھی انگلینڈ جیت گیا۔

سیریز کے پانچویں اور آخری میچ میں شاہین ایک بار پھر گہری نیند سے جاگ اٹھے ۔اس میچ میں پاکستانی بیٹنگ لائن بالکل بدلی ہوئی نظر آئی جو اس بات کا تہیہ کئے ہوئی تھی کہ ہر حال میں یہ میچ جیتنا ہے ۔اس میچ میں پاکستانی بیٹنگ لائن نے انگلینڈ کی جانب سے کھڑا کیا گیا 302رنز کا پہاڑ صرف چھ وکٹ کے نقصان پر سر کرلیا ۔

سیریز کے واحد ٹی ٹوینٹی میچ میں پاکستان نے انگلینڈ کو نو وکٹ سے شکست دی، شرجیل خان نے اس میچ میں چھتیس گیندوں پر 59رنزبنائے جس میں سات چوکے اور تین چھکے شامل تھے ۔اب ذرا ون ڈے میچوں کے سکور کارڈ نکال کر شرجیل خان کی کارکردگی دیکھ لیں ۔قومی ٹیم کی بدقسمتی کہ کوئی بھی کھلاڑی (چاہے وہ بیٹسمین ہو یا بالر )کارکردگی میں تسلسل نہیں رکھ پا رہا اور یہی پاکستان کی شکست کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

ایک ایسی ٹیم جو اس وقت ٹیسٹ کرکٹ کی درجہ بندی میں تو پہلی پوزیشن پر موجود ہے تاہم ون ڈے میں نویں پوزیشن پر ہے اور آنے والے ورلڈ کپ کے لئے اسے کوالیفائنگ راونڈ کھیلنا پڑسکتا ہے جبکہ ٹی ٹوینٹی میں نمبر سات پر موجود ہے۔انگلینڈ سیریز کا جائز لینے کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قومی کرکٹ ٹیم سمیت ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں بس خلوص نیت کی کمی ہے۔پی سی بی کو چاہیے کہ وہ نوجوان کھلاڑیوں کو موقع دیں اور ان پر اعتماد کرے۔شاہد آفریدی اور محمد حفیظ سمیت دیگر پرانے کھلاڑیوں کو اب آرام کا موقع دینا بہتر ہوگا ۔پاکستان کرکٹ کی بدقسمتی کہ یہاں ہمیشہ بورڈ کا سربراہ سیاسی بنیادوں پر لگایا گیا جس کا کرکٹ سے دور دور کابھی واسطہ نہیں ہوتا ۔اسی طرح بورڈ آفیشل بھی اپنی عمریں گزار چکے ہیں اور اب کرکٹ بورڈ کو نئے اور جوان آفیشلز کی ضرورت ہے جو آج کی کرکٹ اور اس کی ضروریات کو سمجھتے ہوں ۔انتخاب عالم سمیت دیگر آفیشلز لاکھ تجربہ کار سہی تاہم آج کی کرکٹ ان کے زمانے میں کھیلی جانے والی کرکٹ سے بالکل مختلف ہے ۔اگر ہمیں اپنی کرکٹ کو ہاکی اور سکواش کی طرح تباہ نہیں کرنا تو حکومت کو کچھ سخت اور غیر سیاسی فیصلے کرنے ہونگے ورنہ پاکستان کرکٹ کا خدا ہی حافظ ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے