اساتذہ کسی بھی معاشرے کی آن ، شان اور پہچان ہوتے ہیں ۔ اساتذہ انسانیت کے لیے دوسری درسگاہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بنی نوع آدم سے لیکر آج تک اور پھر قیامت تک کا انسان استاد کی شفقت اور محبت کا مظہر دیکھائی دیتا ہے۔ حضرت آدم ؑ سے لیکر حضور سرور کائناتﷺ تک،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لیکر تابعین، تبع تابعین، محدیثین ، محققین ، مدرسین ، مفسرین ،اولیا کرام اور فقہا ء کرام تک ہر ایک نے ہمیشہ استادکا درجہ اعلی و عرفی بتایا ہے۔
جدیدو تحقیقی علوم اور فنی وسائنسی علوم کے ماہرین اور تاریخ کا دھارا بدلنے اور دنیا ئے افق پر تاریخ رقم کرنے والی نامور شخصیات قائد اعظم ،علامہ محمد اقبال،مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا مودودی،نیلسن میڈیلا، البرٹ آئینسٹائین، مہاتما گاندھی، امام خمینی، ارسطو، افلاطون ، شیکسپیئر، سکندر اعظم، نیپولین، صدام حسین، ماؤزے تنگ،ہٹلر، یاسر عرفات، فیڈرل کاسترو، بل گیٹس، جارج ڈبلیو بش، انجلیا جولی، اوبامہ، جنرل راحیل شریف ، ڈاکٹر عبدالقدیر، بے نظیر، مکیش امبانی ، شاہ رخ ،سلمان خان ،،اوراور غرض ہر طبقہ فکرو نسل، ہرمسلک و مذہب، ہر ذات وپات اور کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے تیس مار خان استاد کی فطری محبت، روحانی تسکین ، آفاقی رہنمائی اور گراں قدر خدمات و احسانات کے محتاج نظر آتے ہیں۔
ہم چھوٹے تھے تو ہمیں یاد ہے ہم ’’عالمی یوم اساتذہ‘‘ والے دن اپنے شفیق اور محسن استادوں کو’’استاد جی ‘‘ہم آپکو سلام پیش کرتے ہیں ، کہہ کر خراج عقیدت پیش کرتے تھے۔ اس موقع عموماََ ہماری والدین آکر پیارے اساتذہ کو سلام پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھ سے بنا ہوا کوئی گفٹ دیکر اپنے بچے کی تدریس و تربیت کے احسان کا کچھ حق ادا کرنے کی سعی وتمنا کرتے تھے اورپھر اساتذہ بھی جھولیاں پھیلا کر دعائیں دیتے تھے ۔ استاتذہ ،سکول کے محدود وسائل ،دوران تدریس بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی اور کم مشاہروں کے باوجود ہمیں اعلی تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتے تھے ۔
خیرہر دفعہ کی طرح امسال بھی قومی، بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر یوم اساتذہ منانے کا ایک رسمی سلسلہ چل نکلا ہے۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ استاد زندگی میں عافیت اور آخرت میں سکون کا پہلا زینہ ہے، ہم نے اساتذہ کرام کے رشتے کوصرف سوشل میڈیاکی حد تک محدودکر دیاہے۔ سو میں سے صرف دو لوگ اساتذہ کی توقیر و محبت میں گرفتار ہو کر صنم خانے کا بت توڑتے ہوئے موبائل فون پرمبارک باد کے پیغامات ارسال کرتے ہیں۔اب بزم ادب ، بزم شاہین ،مقابلہ جات ، مضمون نویسی وغیرہ کی فضاء جس سے استاد شاگرد کے رشتے میں مٹھاس اور خلوص جھلکتے تھے وہ اب والدین کی نظر میں وقت کا ضیاع ہے۔
اللہ تعالی نے جتنے بھی پیغمبر نازل فرمائے وہ سب معلم تھے۔ معلم کا سب سے اونچا منصب تعلیم و تعلم ہے کیونکہ اسے کتاب کی علمی تشریح اور حکمت عملی سمجھانی ہوتی ہے۔ حضورصلعم کا ارشاد ہے کہ ’’بے شک میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں‘‘۔لہذا استاد کی طبعیت بردباری، صبر و تحمل، علمیت ، نوراینت ،افادیت اور ایمان و اخلاص کا پیکر ہونی چاہیے ۔ استاد کو چند بنیادی باتوں کا خاص خیال رکھنا چاہیے تاکہ استاد کی عزت واحترام طلبہ کو ملحوظ خاطر رہے۔استاد میں غور وفکر، تحقیق، تدبر، مشن کی تکمیل ،استحکام و استقامت کی خصوصیات کا ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح وقت کو ضائع نہ کرنا ، طلبہ سے مثبت انداز میں پیش آنااور تکبر سے دور اور انکساری کا مجسمہ ہونا بھی استاد کی خوبیاں ہیں۔ اساتذہ کے رویے جتنے خوبصورت ہونگے وہ اتنا ہی شاگردوں کے محبو ب اور قریب ہونگے۔
اعتدال کا درس دینے والا، محبتوں کے پھول نچھاور کرنے والا، دوسرے کے غموں کا مداوا کرنے والا اور اپنا محاسبہ کرنے والا استاد یقیناطالب علم کی آنکھ کا تار ا ہوتا ہے۔ اچھے استاد اور فرمانبردارشاگردوں کے بغیر کوئی بھی معاشرہ ترقی کی منازل طہ نہیں کر سکتا۔ استادپیغمبروں کی میراث ہوتے ہیں اس لیے معلم انسانیت و فخر انسانیت ﷺ کے اسوہ حسنہ سے طالبعلموں کو تعلیم کے رہنما اصول لینے ہیں اورتلمیذان رشید کو بھی حکمت و دانائی کی باتیں بڑی عاجزی و انکساری سے سیکھنی ہیں۔
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اب نہ وہ استاد رہے نہ شاگرد اور نہ معاشرے کی وہ اخلاقی قدریں۔شاگر تو اب کلاس روموں میں گھس کر اساتذ ہ کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں، اپنی مرضی کے مارکس لگواتے ہیں نہیں تو خطرناک نتائج بھگتنے کی دھمکی ملتی ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ اساتذہ بھی رشوت لینے لگے ہیں، اپنے خاص شاگردوں کو امتیازی مارکس اور غریب اور محنتی طلبہ نظر انداز ہونے لگے ہیں۔
اب بیچارہ استاد ایک عدد ڈنڈا ماردے تو والدین آکر ایسی دھرگت بنانے ہیں کہ استاد تو استاد، اسکی نسلیں بھی سدھر جاتیں ہیں۔ ہم جیسی مہذب قوم کا ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ہماری ناقدری اور اخلاقی گراوٹ سے دو چار استاد کو یہ چاہ ختم ہوتی نظر آتی ہے کہ کوئی ہماری عزت کرے ۔آج’’ پرائیویٹ سیکٹر ‘‘کی بات کریں یا’’ پبلک سیکٹر‘‘ ، دونوں اطراف میں ملک و ملت اور قوموں کے معمار اساتذہ رلتے و رسوا ہوتے نظر آتے ہیں ۔
بنیادی طور پراساتذہ کے گرتے ہوئے امیج کو بچانے کے لی ہر سطح کے اداروں میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔
(1) ہر ادارے سے یونین سازی کی سیاسی فضاء کا مکمل خاتمہ ہو۔( سیاسی مقاصد کے لیے قائم کی گئی یونین سے طلبہ و اساتذہ کا مشترکہ استحصال ہو تا ہے، اگر کسی یونیورسٹی، کالج ، سکول یا دینی درسگاہ میں ’’حکومتی اتحادی استاتذہ یونین ‘‘ ہے تووہ یقیناایسی کمزور تدریسی و تعلیمی قانون سازی کریگی جس سے نقصان باالاخر طلبا ء کا ہے اور بے توقیری استاد کی)۔
(2)تعلیمی اصلاحات میں مناسب قانون سازی کے ذریعے سرکاری اساتذہ کو روزانہ حاضری کا پابند بنایا جائے تاکہ اساتذہ کا مشاہرہ بھی حلال ہو اور بچوں کی پڑھائی پر بھی مثبت سے معاشرے میں اساتذہ کی شان میں اضافہ ہو۔
(3)پرائیویٹ سکولوں والے اچھے مشاہروں پر اساتذہ کو ذمہ داری دیں تاکہ کم مشاہرے کا سوچ سوچ کر وہ اپنا دل بوجھل نہ کریں۔
(4) سرکاری سکول وقت پر مشاہرے ادا کریں تاکہ اساتذہ کی ہڑتالوں کیصورت میں علم اور تدریس کو شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑھے۔
(5)اساتذہ کی بے احترامی و بے توقیری روکنے کے لیے تادیبی سزائیں دی جائیں۔
(6) اساتذہ چونکہ عظیم سرمایہ اور قوم کا افتخار ہیں اس لیے ہر سال ٹاپ تھری اساتذہ کو تعمیری و ترقی کے کاموں پر اعلی ترین سول ایوارڈ سے نوازا جانا چاہیے۔