اسلام آباد: پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس نے غیرت کے نام پر قتل اور انسداد عصمت دری کے دو بِلوں کی اتفاق رائے سے منظوری دے دی۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں دونوں بلز پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے پیش کیے۔
انسداد عصمت دری سے متعلق بل پیش کرنے سے قبل ان کا کہنا تھا کہ یہ بل ملک میں عصمت دری کے واقعات میں کمی لانے کے انتہائی موثر ثابت ہوگا۔
بل پر بحث کے دوران وزیر قانون زاہد حامد نے انکشاف کیا کہ اس بل کے قانون میں تبدیل ہونے کے بعد عصمت دری کے مقدمات میں ملزم کا بھی ڈی این اے ٹیسٹ لازم ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ عصمت دری کے مقدمات کا 3 ماہ میں فیصلہ سنایا جائے گا، جبکہ فیصلے کے خلاف اپیل کا حق 6 ماہ تک ہوگا۔
زاہد حامد نے مزید کہا کہ عصمت دری کے مقدمات میں پولیس اسٹیشن متاثرہ خاتون کو ان کے قانونی حقوق سے متعلق معلومات فراہم کرنے کے پابند ہوں گے، جبکہ اس بات کو لازم بنایا گیا ہے کہ ایسے مقدمات میں مجرم کو کم از کم 25 سال کی سزا سنائی جائی۔
[pullquote]وزیر اعظم کا بل پر عملدرآمد کے عزم کا اعادہ
[/pullquote]
وزیر اعظم نواز شریف نے غیرت کے نام پر قتل کے خلاف بل منظور ہونے پر پارلیمنٹ اور قوم کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے بل پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ’میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف بل منظور ہونے پر پارلیمنٹ، این جی اوز، سول سوسائٹی، میڈیا اور ان تمام افراد کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے اس حوالے سے قانون سازی کے لیے ہماری حمایت کی۔‘
نواز شریف نے کہا کہ غیرت کے نام پر قتل ان اہم مسائل میں سے ہے جن کا ملک کو سامنا ہے، تاہم حکومت معاشرے سے اس داغ کو مٹانے کے لیے ہم ممکن اقدام اٹھانے کے لیے پرعزم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’آج ہم اپنی ان کوششوں میں کامیاب ہوئے ہیں کہ غیرت کے نام پر قتل میں کوئی غیرت نہیں۔‘
واضح رہے کہ رواں سال جولائی میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی مشترکہ قائمہ کمیٹی نے غیرت کے نام پر قتل اور انسداد عصمت دری کے دو بل اتفاق رائے سے منظور کیے تھے۔
اجلاس کے بعد زاہد حامد نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ غیرت کے نام پر قتل کے خلاف بل میں قصاص کا حق برقرار رکھا گیا ہے، تاہم قصاص کے حق کے باوجود عمر قید کی سزا ہوگی اور غیرت کے نام پر قتل کے مقدمات میں اب پہلے کی طرح صلح نہیں ہوسکے گی۔
انہوں نے بتایا کہ اب انسداد عصمت دری کا قانون متاثرہ خواتین اور مردوں دونوں کے لیے ہوگا، جبکہ انسداد عصمت دری کے واقعات میں درست تفتیش نہ کرنے والے پولیس اہلکار یا تفتیش میں رکاوٹ ڈالنے اور متاثرہ فرد کی شناخت ظاہر کرنے والوں کو 3 برس قید کی سزا ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ بچوں اور ذہنی و جسمانی معذور افراد کے ساتھ جنسی تشدد کے مجرم کو موت کی سزا ہوگی، جبکہ جیل میں عصمت دری کے مجرم کو بھی پھانسی اور جسمانی تشدد پر عمر قید کی سزا ہوگی۔
زاہد حامد نے بتایا کہ بل کے تحت زیادتی سے متاثرہ فرد کا طبی معائنہ اس کی رضامندی سے جبکہ ملزم کا طبی معائنہ لازمی قرار دیا گیا ہے، پولیس متاثرہ فرد کو قانونی حق اور تحفظ فراہم کرنے کی پابند ہوگی، جبکہ متاثرہ فرد اور ملزم دونوں کا ڈی این اے ٹیسٹ بھی ہوگا۔
خاندان کی عزت کی خاطر خواتین کے غیرت کے نام پر قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات کے باعث، حکومت کو اس حوالے سے قانون سازی کے لیے سخت دباؤ کا سامنا تھا۔
دونوں ایوانوں کی مشترکہ قائمہ کمیٹی کی جانب سے ان بِلوں کی منظوری معروف ماڈل قندیل بلوچ کے ’غیرت کے نام پر قتل‘ کے بعد دی گئی تھی۔
قندیل بلوچ کو رواں سال 16 جولائی کو ان کے بھائی وسیم نے غیرت کے نام پر قتل کردیا تھا۔
ریجنل پولیس آفیسر (آر پی او) کے مطابق قندیل بلوچ گذشتہ ایک ہفتے سے ملتان کے علاقے گرین ٹاؤن، مٖظفرآباد میں رہائش پزیر تھیں، جہاں ان کے بھائی نے انھیں مبینہ طور پر گلا دبا کر قتل کیا، تاہم ان کے جسم پر زخموں کے نشانات موجود نہیں تھے۔