نام کتاب…تنویرالنبراس علیٰ من انکر تحذیرالناس
مصنف… حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی
صفحات…240
تحقیق… مولانا حافظ محمد اسحاق، استاذمرکزاہل السنت، سرگودھا
قاسم العلوم والخیرات بانی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی صدیقی کی شخصیت و خدمات محتاج تعارف نہیں۔ دارالعلوم دیوبند اور دنیا کے ہر شہر، گاؤں، دیہات، قصبہ، قریہ اور چپے چپے پر قائم مدارس دینیہ ان کی نیکیوں میں تاقیام قیامت اضافے کا باعث بنتے رہیں گے۔ حضرت نانوتوی نے کئی علمی شہ پارے بھی یادگار کے طور پر چھوڑے ہیں۔ جن میں سے ایک ”تحذیرالناس” بھی ہے، جس میں حضرت نانوتوی نے مفسر قرآن حضرت سیدنا عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما کے ایک ارشادمبارک کی حکیمانہ تشریح فرمائی ہے اور مقام نبوت کو ایک انوکھے، اچھوتے اور دل نشیں مگر ادق انداز میں بیان فرمایا ہے۔ یہ ایک خوانِ یغما ہے، جس سے ہر شخص اپنے ظرف، طلب اور استعداد کے مطابق حصہ پاتا ہے۔ ”تحذیرالناس” کیا ہے؟ مولانا معین الدین اجمیری کے شاگرد معروف عالم دین مولانا پیر قمرالدین سیالوی سے سنیے، وہ فرماتے ہیں:
”میں نے تحذیرالناس کو دیکھا۔ میں مولانا محمد قاسم صاحب کو اعلیٰ درجے کا مسلمان سمجھتا ہوں، مجھے فخر ہے کہ میری حدیث کی سند میں ان کا نام موجود ہے۔” (ڈھول کی آواز صفحہ 116)
دوسری طرف کچھ بدنیت و کج فہم لوگ ایسے بھی تھے، جنھوں نے اس کتاب کی اشاعت کے بعد آسمان سَر پر اُٹھا لیا۔ ان میں مولانا عبدالقادر بدایونی سرفہرست تھے، انہوں نے ”قولِ فصیح” کے نام سے باقاعدہ ایک کتاب لکھوا کر تقسیم کی، جس میں سوائے دشنام و بہتان طرازی کے کچھ نہ تھا، میرٹھ کے ایک سفر میں کسی نے حضرت نانوتوی کو یہ رسالہ دکھایا، آپ نے اسے ملاحظہ فرمایااور جس صفحے سے ”تحذیرالناس” کے حوالے سے ختم نبوت کی بحث چھیڑی گئی تھی، اسی صفحے کے حاشیے پر اس کا جواب لکھنا شروع کیا، اس کا نام ”ردّقولِ فصیح” رکھا جو بعد میں ”تنویرالنبراس علیٰ من انکرتحذیرالناس” کے نام مشہور ہوا۔
برادرم حافظ مولانا محمد اسحاق نے تلاش بسیار کے بعد تنویرالنبراس” کے متعدد نسخے حاصل کیے، ان کا عرق ریزی سے مطالعہ کیا، ان کی تحقیق و تخریج میں اپنی توانائی صرف کی، حاشیے میں وضاحت طلب امور کی وضاحت کی، نسخوں کے متون میں موجود فرق بیان کیے، کہیں حضرت نانوتوی کی عبارت آج کل کی علمی سطح سے ماورا نظر آئی تو اسے آسان کیا، حضرت نانوتوی نے اس وقت کے مخاطبین کی سمجھ کو سامنے رکھتے ہوئے اگر کہیں صرف اشارات سے کام لیا تھا تو اس کی وضاحت و تفصیل بیان کردی۔ غرضیکہ مولانا محمد اسحاق صاحب نے علمائے دیوبند پر ”تنویرالنبراس’ کے حوالے سے اب تک جو تحریری قرض تھا، اسے حضرت مولانامحمد قاسم نانوتوی کے وصال کے تقریباً 138سال بعد ،بحسن و خوبی چکا نے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
ابتدامیںحضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کے حالاتِ زندگی پر بھی محققانہ روشنی ڈالی ہے، تاکہ کتاب کے مطالعے سے پہلے قاری کے سامنے اس عبقری کی شخصیت کا ایک ایسا تاثر ابھر کر آجائے، جو کتاب کے مندرجات کے سمجھنے میں معاون ثابت ہو۔ اس کے بعد مولانا نورالحسن راشد کاندھلوی کی کتاب ”قاسم العلوم حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی” سے ”ردقولِ فصیح” کا تعارف و پس منظر درج کردیا ہے۔ یہ سلسلہ کتاب کے صفحہ نمبر25تک چلا گیا ہے۔ ”تنویرالنبراس” کا متن اور اس پر تحقیق و تخریج کا سلسلہ صفحہ نمبر 27 سے شروع ہوتا ہے اور صفحہ 142پر پایۂ تکمیل کو پہنچتا ہے۔ صفحہ 143 سے آخر کتاب تک استاد محترم حضرت مولانا محمد سیف الرحمن قاسم مدظلہ کی کتاب ”ختم نبوت اور صاحبِ تحذیرالناس” کو بطور ضمیمہ شامل کیا گیا ہے۔ مولانا سیف الرحمن نے یہ کتاب سید بادشاہ تبسم بخاری نامی ایک بریلوی مصنف کی کتاب ”ختم نبوت اور تحذیرالناس” کے جواب میں لکھی ہے اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کی بے غبار شخصیت پر اُڑائے گئے غبار کو صاف کرکے حقیقت کو مجلیٰ و مصفّٰی کیا ہے۔
کتاب گوناگوں خوبیوں کی حامل ہے۔ کتاب کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس کے آخر میں ممتاز عالم دین ،صاحبِ ضیاء القرآن حضرت پیر جسٹس (ر) محمد کرم شاہ کے ”تحذیرالناس” کے حوالے سے لکھے جانے والے خط کا عکس ہے، جس کی ابتدا ان الفاظ سے ہوتی ہے: ”حضرت قاسم العلوم کی تصنیف لطیب مسمّٰی بہ ”تحذیرالناس” کو متعدد بار غوروتأمل سے پڑھا اور ہر بار نیا لطف و سرور حاصل ہوا… جہاں تک فکرِ انسانی کا تعلق ہے حضرت مولانا قدس سرّہ کی یہ نادر تحقیق کئی شپرہ چشموں کے لیے سرمۂ بصیرت کا کام دے سکتی ہے، رہے فریفتگانِ حسنِ مصطفوی تو ان کے بے قرار دلوں اور بے تاب نگاہوں کی وارفتگیوں میں اضافہ کا ہزار سامان اس میں موجود ہے۔” اور اختتامیہ کے طور پر فرماتے ہیں: ”ختم نبوت کا یہ ہمہ گیر مفہوم جو مبداء اور مال، ابتدا اور انتہا کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے((جو تحذیرالناس میں بیان ہوا ہے۔راقم) اگر امتِ مرزائیہ کی علمی سطح سے بلند تر ہو تو اس میں کسی کا کیا قصور؟”
بحیثیتِ مجموعی کتاب ظاہری و معنوی خوبیوں کی حامل ہے۔ اہلِ علم کے لیے گراں قدر تحفہ اور ہر کتب خانے اور لائبریری کی زینت بننے کے قابل ہے۔
(یہ کتاب مرکز اہل السنت، سرگودھا (0300-3166018)،دارالنعیم، لاہور (0301-4441805)،مولانا ابوایوب قادری، جھنگ (0301-7227373)،مفتی نجیب اﷲ عمر، کراچی (0334-4725175)سے طلب کرسکتے ہیں)