سوشل میڈیا اور نوجوان نسل

‌ہر چیز کا مثبت اور منفی پہلوہو تا ہے۔ اسی طرح سوشل میڈیا جہاں دنیا بھرمیں پذیرائی کے ساتھ اپنے پورے جوبن پر ہے وہاں اس سے پیداہوتے منفی اثرات بھی اُسی رفتار سے دنیا پر اثر انداز ہو رہے ہیں ۔آج دنیا بھر میں رونما ہونے والے جرائم کی ایک بڑی وجہ سوشل میڈیا کا منفی کردار بھی ہے۔ دہشت گر دی ، لڑکیوں کی بلیک میلنگ،خواتین کا قتل اور ان کے ساتھ زیادتی ،اعلیٰ شخصیات کے جعلی اکاونٹس سے قابل اعتراض پوسٹیں لگا نا اور لوگوں سے کام کے عوض پیسے بٹورنا، فیس بک اورٹوئٹر میں دوستی جیسے معاملات بھی سوشل میڈیا کے منفی پہلو کے مرہون منت ہیں ۔

ابھی حال ہی میں کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر کا واقعہ جس میں انہوں نے ایک خاتون پروفیسر کی تصاویر انٹرنیٹ پر جاری کر دی۔آج کے نوجوان کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ وہ سوشل میڈ یا کی دلدل میں پھنس کر اپنے اصل اہداف سے دور ہوتا چل جا رہا ہے۔۔!!

بچوں کے ہاتھوں میں قیمتی موبائل ،آئی پیڈ اور لیپ ٹاپ تھما کر والدین بھی اس بگاڑ کے کسی طور ذمہ دار ہیں۔پھر ان کے بے وجہ استعمال کے نتیجے میں ہم بے راہ روی کا شکار ہوتی لڑکیوں کی خبریں آئے روزاسی میڈیا پر سنتے ہیں جبکہ چھوٹے بچے بھی غیر ضروری اور غیر ا خلاقی مواد دیکھتے دیکھتے جہاں پڑھائی سے دور ہوتے ہیں وہاں ان کی معصومیت بھی چڑچڑے پن میں تبدیل ہو جاتی ہے۔۔!!

اس آن لائن معاشرے میں شناخت اور عمر کو با آسانی پوشیدہ رکھتے ہوئے، معلومات میں بڑے آرام سے ہیرا پھیری کر کے، اسے کسی بھی جرم میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔مغربی دنیا جہاں آن لائن سرگرمیاں طویل عرصے سے سماجی زندگی کی ایک قدر بن چکی ہے، وہ بھی انٹر نیٹ رابطوں کے ذریعے اغوا اور فراڈ جیسے واقعات کے بعد یہ درس حاصل کرچکی ہے۔

وطن عزیز میں تیزی سے ترقی پاتے سوشل میڈیا کو اس ان تمام مذکورہ خدشات و خطرات سے باور کرایا جانا وقت کی ایک اہم ضرورت ہے تاکہ نوجوانوں میں آگاہی اور شعوربیدار کیا جا سکے۔ دوسری جانب یہاں والدین کی بھی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی نا صرف کڑی نگرانی کریں بلکہ اپنے قیمتی وقت کا کچھ حصہ ضرور اپنے بچوں کو دیں تاکہ وہ اس سماجی بہاؤ کے منفی اثرات سے محفوط رہ سکیں۔

ایک تحقیق کے مطابق جعلی فیس بک اورٹوئٹر اکاونٹس اس وقت سکیورٹی رسک بن گئے ہیں ، اس حوالے سے ایف آئی اے سائبر کرائم کو روزانہ 6سے 8درخواستیں موصول ہونے لگی ہیں ، یکم جنوری سے اب تک ایف آئی اے کو2500سے زائد درخواستیں موصول ہوئی ہیں جن پر کارروائی کرتے ہوئے درجنوں افراد کے خلاف سائبر کرائم کے ا لزام میں مقدمات بھی درج کئے گئے ہیں۔

ذرائع کے مطابق جعلی فیس بک اکاونٹس بنا کر بلیک میل کرنا معمول بنتا جا رہا ہے اور خاص طور پر لڑکیوں کی تصاویر جاری کر نے سے معاملات طلاق تک پہنچ جاتے ہیں ، اسی طرح آئے روز کسی نہ کسی سرکاری ادارے کی ویب سائٹ کو ہیک کر لیا جاتا ہے ۔فیس بک پر بعض لڑکے شوق سے ہوائی فائرنگ کی ویڈیو اور اسلحہ کی تصاویر پوسٹ کرتے ہیں جن سے جرائم کو فروغ مل رہا ہے۔

ایف آئی اے ذرائع کے مطابق سائبر کرائم سے متعلق چند سال قبل بہت کم شکایات موصول ہوتی تھیں جو سینکڑوں میں ہوتی تھیں لیکن اب تو ان کی تعداد ہزاروں میں پہنچ گئی ہے جس میں زیادہ تر شکایات جعلی فیس بک اکاونٹس کے ذریعے لڑکیوں کو بلیک میل کرنے سے متعلق آ رہی ہیں اسی طرح برطانوی پولیس کے مطابق برطانیہ میں سوشل میڈیا خصوصاً فیس بک اور ٹوئٹر پر ہونے والے مبینہ جرائم پچھلے چار سال میں آٹھ گنا بڑھ گئے ہیں۔

انگلینڈ، ویلز اور سکاٹ لینڈ کی 29 پولیس فورسز کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2012 میں 4908 کیس درج کیے گئے جن میں سے 653 افراد کو جرم ثابت ہونے کے بعد سزا سنائی گئی جبکہ صرف بھارت میں 2012 میں 2013 ,22,060میں 71,780، 2014میں 1,49,254اور 2015 میں 3,00,000سے زائد کیسزدرج کیے گئے اور ان میں بتدریج اضافہ ہو رہاہے ۔

جبکہ یہ اعداد و شمار سیکیورٹی اداروں کیلئے مزید مشکلات پیدا کرتے ہیں۔پچھلے ہفتے اس طرح کے کیسوں کے بارے میں عبوری ہدایات جاری کی گئی تھیں کہ ان سے کیسے نمٹنا ہے۔ اس سے پہلے انگلینڈ اور ویلز میں کچھ متنازع عدالتی مقدمات سامنے آئے تھے۔2012 میں ایک شخص پال چیمبرز کی جانب سے ٹوئٹر پر مذاق پر انہیں دی گئی سزا پر شدید تنقید کی گئی جس کے بعد اسے ختم کر دیا گیا تھا۔

پال نے ٹوئٹر پر یارک شائر میں واقع رابن ہڈ ہوائی اڈہ اڑانے کے بارے میں مذاق کیا تھا۔2008 میں جب سوشل میڈیا پر بہت کم کچھ دیکھنے کو ملتا تھا اس وقت 556 مبینہ جرائم کی رپورٹ کی گئی جن کے نتیجے میں 46 افراد کو سزا دی گئی تھی۔

پیرس پر حملہ ہو ا تو اُس میں 130افراد مر ے اور میں ہی رینا لڈو گونزالیز کی بیٹی نوہیمی اُن 130لوگوں میں شامل تھی ، جو پچھلے سال ہونے والے پیرس حملوں کے دوران مارے گئے ۔ اب رینالڈو ٹوئٹر، فیس بک اور گوگل پر دہشت گردوں کی معاونت پر مقدمہ کررہاہے۔

رینا لڈوکا کہنا ہے کہ یہ سروسز دہشت گردوں کوپر وپیگنڈہ کرنے ، دہشت گردبھرتی کرنے اور ایک دوسرے تک پیغام رسانی میں معاونت فراہم کرتی ہیں ۔ رینا لڈوکامزید کہنا ہے کہ اس انفراسٹر کچر دسپورٹ کی وجہ سے دہشت گردوں کو پھلنے پھولنے کاموقع ملا اور انہوں نے 13نومبر2015کو پیرس میں حملہ کردیا،جس میں اس کی بیٹی بھی ماری گئی ۔رینا لڈونے الزام لگایا ہے کہ فیس بک ، ٹو ئٹراور یوٹیوب دہشت گردوں کے لئے پیغام رسانی کا ایک برا ذریعہ ہے جسکی روک تھام محفوط دنیا کے لئے بہت ضروری ہے۔

یہاں والدین ،لکھاری ، اساتذہ کی اولین ذمہ داری ہے کہ ا سلسلے میں اپنا فعال کردار ادا کریں اور حکومتی سطح پر بھی سوشل میڈیا کے منفی کردار کی آگاہی اور روک تھام کے لئے عوام میں شعور اُجاگر کرنے کی مہم تیز کریں۔

شکیلہ سبحان شیخ پاکستان فیڈرل کونسل آف کالسمٹ کی رکن ہو نے کے ساتھ ساتھ ایک روزنامہ اخبار سے بھی منسلک ہیں
[pullquote]اسکول آف جرنلزم میں بھی بطور معاون کام کرتی ہیں . پاکستان ہیلپ لائن ویلفئیر آرگنائزیشن میں ایجوکیشن ونگ کی ممبر ہیں ،قلم کے ساتھ بدلائو پر یقین رکھتی ہے اور معاشرے میں سدھار کا زریعہ قلم کو ہی سمجھتی ہے ۔ گھومنا پھرنا اور کتب بینی مشاغل میں شامل ہیں.
[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے