کل بھارت سے ہمارے ایک دوست محمد علم اللہ صاحب نے اپنی فیس بک وال پر مطالعے کے تعلق سے کچھ سوال اپنے دوستوں سے پوچھے ۔ کئی دوستوں نے اظہار کیا اور اپنے اپنے تجربات رقم کیے ۔ میں نے بھی تبصرے کی صورت میں حصہ ڈالا ۔ اس اعتراف کے ساتھ کہ ان سوالوں کے جواب وسیع المطالعہ اور استاد قسم کے لوگ ہی بہتر دے سکتے ہیں اپنا تبصرہ بلاگ کا حصہ بنا رہا ہوں . ممکن ہے پڑھنے والے احباب سے مطالعے سے جڑے مفید تجربات معلوم ہو جائیں .
ان کے سوال یہ تھے:
مطالعہ کا سب سے آئیڈیل طریقہ کیا ہے ؟
جس سے چیزیں یاد بھی رہے اور کم وقت میں ہم زیادہ پڑھ اور سمجھ سکیں ۔
آپ مذہبی کتابوں کے علاوہ کونسی کتاب پڑھنے کا مشورہ دیں گے ؟
[pullquote]میرا تبصرہ:
[/pullquote]
1۔ پہلے سوال کا جواب سیدھا نہیں ۔ ہر شخص کا مزاج اور ذوق الگ ہے ۔ اکثر لوگ سکون میں مطالعہ کر پاتے ہیں لیکن کئی پڑھنے والے ایسے ہیں کہ انہیں سوائے کتاب کے کسی چیز کی حاجت نہیں ہوتی ۔ کتاب مل جائے تو وہ کہیں بھی (خلوت ہو یا جلوت) میں پڑھ لیتے ہیں ۔ یہ ایک خاص کیفیت ہے جو انہیں آس پاس سے بے گانہ کر دیتی ہے ۔
میں پڑھنے کے اعتبار سے اسی دوسری نوع سے تعلق رکھتا ہوں لیکن اتنا ڈوب نہیں جاتا کہ کوئی میرا موبائل اٹھا کر سٹک جائے یا سامنے رکھی چائے دھری کی دھری رہ جائے ۔ آخر انسان ہوں کوئی سنگ وخشت تو نہیں 🙂 سو ہر بندے کا آئیڈیل طریقہ الگ الگ ہو سکتا ہے ۔
2۔ پہلے سوال کا دوسرا جزو ۔ جی پہلی بات تو یہ ہے کہ سمارٹ مطالعہ کیا جائے ۔ ایسے ہی رطب ویابس میں وقت برباد کرنا حماقت ہے ۔ کسی صاحب مطالعہ کے سامنے اپنا ذوق بیان کر کے اس سے کتابوں کے بارے میں پوچھا جائے اور پھر اپنی سہولت سے پڑھا جائے ۔ یاد رہے کہ آدمی کا ذوق جن چیزوں میں لگتا ہے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی یاد رہتی ہیں ۔ یہ مستقل ممارست ہے ۔ اہم صفحات میں کاغذ کی پرچیاں لگائی جا سکتی ہیں تاکہ بوقت ضرورت حوالے کے لیے رجوع آسان ہو سکے ۔ ان پرچیوں کے کناروں پر اشارے کے طور پر مختصر نوٹ لکھے جا سکتے ہیں۔
کچھ عرصہ بعد آدمی اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ کسی کتاب کو چند منٹ میں الٹ پلٹ کر اس کے پڑھنے یا نہ پڑھنے کا فیصلہ کر سکتا ہے ۔ انگریزی کتابوں کے بیک ٹائٹل پر لکھے ری ویوز ضرور پڑھ لیا کیجیے اور اردو میں پہلے کلاسک لازمی پڑھنے چاہییں ۔ یاد رکھنے کے اچھا ہوگا کہ ڈیجیٹل ورژن کی بجائے کاغذ پر پڑھنے کو ترجیح دی جائے ۔
3 ۔ یہ سوال مشکل ہے ۔ آپ کے ذوق کا اندازہ نہیں البتہ بطور صحافی سب پڑھنا چاہیے ۔ ہمارے برصغیر میں سیاست ،حالات حاضرہ ،مذہب،ادب،شخصیات، جغرافیہ اور تاریخ کا علم ہونا ہر اچھے صحافی کے لیے ضروری ہے ، کھیلوں کے بارے میں ضروری معلومات ہونی چاہییں ۔ آج کل عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق پیش رفت کا علم ہونا چاہئے ۔ میں یہاں کتابوں کے نام تو مینشن نہیں کر سکتا البتہ کسی صاحب مطالعہ سے آپ کو بہتر رہنمائی میسر آ سکتی ہے ۔ بس صحافی ”جیک آف آل ٹریڈز ماسٹر آف نن” ہوتا ہے ۔ اس کو ہر چیز کا کچھ نہ کچھ علم ہونا چاہئے ۔
آخری بات یہ کروں گا کہ اس انتظار میں کوئی کتاب شیلف میں نہ رکھ دیں کہ فرصت ملی تو پڑھوں گا ۔ اب فرصت نام کی چیز نہیں ہوتی ۔ اس لیے جو ہاتھ لگے اسے لگے ہاتھوں چاٹ لیجیے ۔ ٹائم نہیں ملتا نکالنا پڑتا ہے ۔ ہاں! ایک کام لازمی کریں جو بھی کتاب پڑھیں اس پر تبصرہ اور اس کے ساتھ اپنا تجربہ فیس بک وغیرہ پر لازمی لکھیں اس سے دوسروں کو بھی ترغیب ملے گی اور لوگوں کے تبصروں کی صورت میں نئے زاویے سامنے آئیں گے۔ یہ دلچسپ چیز ہے ۔