PTI اورJI کے سوشل میڈیا کمانڈوزکی جنگ

ویسے تو اک گیپ تھا ہی
بظاہر اک خلیج تھی ہی ۔۔۔ فکر و نظر کے اپنے اپنے آسماں تھے
زاویہ نگاہ میں بھی اپنی اپنی سمتیں تھیں
اس کے باوجود
آس اور امید دلانے میں ایک سا تاثر
کچھ ملتی جلتی کاوشیں
اکٹھے چلنے کا تجربہ سود مند
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ صوبے میں فوائد عوام تک
الیکشن کے بعد خیبر پختونخواہ میں حکومتی اشتراک ، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو کافی قریب لانے کی اک سعی شمار تو کی جائےگی لیکن اکٹھے ہوتے ہوئے بھی ایک گیپ ضرور رہا اور شاید اس گیپ کو بریج کرنا اس قدر آسان بھی نہیں تھا ، فکر و نظر کے گیپ بریج نہیں ہوا کرتے اتنی آسانی سے ۔۔۔
لیکن گزشتہ عرصہ میں دونوں جماعتوں کے اکابرین مشاورت کے عمل میں قریب رہنے کے باعث صوبے کی حد تک بظاہر کسی تیسری پارٹی کے ایڈونچر سے دور رہے
یوں تین سال کا عرصہ بیت چلا
پھر گزشتہ ماہ خیبرپختونخواہ اضاخیل میں صوبے کی عوام کا سیلاب امڈ آیا
جماعت اسلامی کے اجتماع میں اس قدر مرد و زن کی شرکت جہاں جماعت کی صوبائی ٹیم کی محنت کا نتیجہ تھی وہیں پہ شاید کچھ لوگوں کو مستقبل کے حوالہ سے خدشات بھی محسوس ہونے لگے
اور پھر کیا تھا
ایک سرد جنگ شروع ہو گئی
اور اب کی بار دونوں اتحادی جماعتوں کے کارکنان ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے
سوشل میڈیا میدان جنگ بنا ہوا تھا
پہلے پہل اطراف سے کچھ شرارتی ، قدرے نیم سنجیدہ کارکنان ایک دوسرے پہ گولہ باری کرتے رہے اور پھر وقت کےساتھ ساتھ پورا پورا برگیڈ میدان میں آ گیا ۔
تنقید ، طنز ، طبراء اور تشکیک ہر طرح کا ہنر آزمایا جانے لگا
ابتداء میں لگ یہی رہا تھا کہ چند دن بعد معاملہ خود بخود ٹھنڈا ہو جائے گا لیکن بھلا ہو دھرنے کا ۔۔۔۔
معاملہ مزید شدت اختیار کر گیا
تحریک انصاف کے کارکنان ، جماعت اسلامی پہ طنز کرتے کہ وہ اندرون خانہ میاں برادران سے ملے ہوئے ہیں اور جماعت اسلامی تحریک انصاف کو تھرڈ ایمپائر کی انگلی اٹھنے کا طعنہ دے مارتی
اب یہ فیصلہ بھی اس قدر آسان نہیں کہ کون آغاز کرتا تھا اور کون دفاع یا واپسی جواب ؟
تحریک انصاف کو ایک دکھ یہ بھی تھا کہ صوبے میں یہ ہمارے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں اور دھرنے یا حکومت گرانے میں یہ ہماری معاونت نہیں کر رہے
جبکہ جماعت والوں کا بظاہر موقف یہ تھا کہ ہم کوئی بھی غیر آئینی اقدام نہیں کریں گے، اپنی جدوجہد کو آئین اور قانون کےد ائرے میں رہتے ہوئے جاری رکھیں گے ۔۔۔ لانگ مارچ کریں گے ٹرین مارچ کریں گے ، پیدل مارچ کریں گے ، ریلیاں ، جلسے جلوس ، اسمبلی ، سینٹ میں اپنا رول کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹائیں گے
اسی دوران دھرنا فلاپ ہو گیا
جنون کا غصہ قابل دید
طرہ یہ کہ سپریم کورٹ نے سراج الحق صاحب امیر جماعت اسلامی کی پٹیشن پہ پانامہ سیکنڈل پہ بینچ بنانے اور سماعت شروع کرنے کی حامی بھر لی
الیکٹرانک میڈیا کا اس ضمن رول ہمیشہ کی طرح انتہائی جانبدارانہ سامنے آیا اور جواباََ جماعت اسلامی کے کارکنان نے سوشل میڈیا کے ذریعے اصل حقائق عوام تک لانے کی سعی شروع کر دی اور اس سے بھی تحریک انصاف کو گزند پہنچا ۔۔۔
پہلے تو تحریک انصاف دھرنے کی سبکی کو ، سپریم کورٹ کی صورت میں کیش کرا کر مٹانا چاہ رہی تھی جبکہ اس محاذ پہ مزاحمت جماعت کے لوگ کر رہے تھے
یہاں سے مزید گیپ بڑھا اور اس پہ امیر جماعت کی میڈیا بریفنگ کے کلپ
” تیرا چور مردہ باد اور میرا چور زندہ باد کا اصول نہیں مانتے”
” پانامہ پیپرز میں شامل سب نام سامنے آنے چاہیے ”
” اپوزیشن حکومت کیلئے آئینہ ہوتی ہے آئینہ توڑنے والے ناکام ہوں گے ”
” لٹیرے حکمران ہوں یا اپوزیشن ، سب کا احتساب چاہتے ہیں ، دھرتی کو خون خرابے سے بچانے کیلئے سپریم کورٹ آئے ہیں ”
ان بیانات کو بادی النظر میں تحریک انصاف اپنے خلاف سمجھ رہی ہے
اور اسی کو بیس بنا کر کارکنان ایک دوسرے کو آڑے ہاتھوں لیے ہوئے ہیں
تحریک انصاف یہ سمجھ رہی ہے کہ جماعت اسلامی جب حکمران اور اپوزیشن سب کے احتساب کی بات کر رہی ہے تو وہ دراصل ن لیگ کی حمایت کر رہی ہے ، حالانکہ جماعت اسلامی کا یہ مطالبہ جائز اور برمحل بھی ہے اور اس سے قطعاََ مراد یہ نہیں کہ جماعت اسلامی ن لیگ کو بچانا چاہتی ہے
ہاں یہ کہنا بجا ہے کہ جماعت اسلامی کی اس ڈیمانڈ سے ن لیگ کو کچھ ری لیکس ضرور ملتا ہے اور اسی طرح جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے کارکنان کا ایک دوسرے کو کاؤنٹر کرنے کی جدوجہد میں بھی عافیت کے کچھ پل ضرور ن لیگ کی حکومت کو نصیب ہوتے ہیں
اب اگر ساری صورتحال میں مستقبل کا نقشہ کھنچا جائے تو اس جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی حالیہ دوری کے اثرات صوبہ خیبر پختونخواہ تک ضرور جائیں گے ، چہ جائیکہ اتحادی حکومت پہ اتنے اثرات مرتب نہیں بھی ہوں گے لیکن اگلے الیکشن میں شاید فضاء بہت جارحانہ ہو اور اس کے فوائد کوئی تیسرہ بھی اٹھا سکتا ہے اور اتحادی حکومت کی محنت اور کاوش ایک دوسرے کو سر اور کاؤنٹر کرنے کی نظر ہوتی لگ رہی ہے
چہ جائیکہ پچھلی بار بھی دونوں جماعتوں نے الیکشن ایک پلیٹ فارم سے اتحاد کی صورت میں نہیں لڑے تھے ، لیکن اب کی بار خاص کر کے تحریک انصاف کے لئے حالات ویسے نہیں ہون گے اس لئے کہ اس بار لوگ ووٹ دینے سے پہلے اس کی صوبائی حکومت کی پرفارمنس بھی دیکھیں گے ۔۔۔
اس صورتحال میں اگر جماعت اسلامی اور تحریک انصاف ایک دوسرے کو نشانے پہ لے کر بقیہ ڈیڑھ سال یونہی گزار دیتے ہیں تو لازماََ کسی تیسرے کو فائدہ پہنچنے کے امکانات زیادہ ہو جائیں گے
ایسے میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے قائدین اپنی اپنی جماعتوں کے سوشل میڈیا کے محاذ پہ برسرِ پیکار اگلی صفوں میں موجود کمانڈوز کو تھوڑا سا سٹپ ڈاؤن کروائیں اور شدت کو کچھ کم کروائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے