کشمیرکاسفراورمیری بے ربط دھڑکنیں

لاہور سے کشمیر اور پھر کشمیر سے لا ہور تک کے سفر کا سوچ کر ہی طبیعت ناساز ہوجاتی ہے۔ایک ہفتہ قبل کشمیر سے واپس پہنچاتو ہوش و حواس بحال کرنے میں کافی وقت کام آیا۔پہلے سفری تھکاوٹ دور کی ، پھر حسین یادوں کو رفتہ رفتہ دماغ سے نکالاتب جا کر کہیں ذہنی یکسوئی نصیب ہوئی۔ لاہور سے اسلام آباد، اسلام آبادسے مظفرآباد اور پھر مظفر آباد سے وا دی نیلم کا سفرانتہائی مشکل بلکہ جان جوکھوں کا کا م ہے ۔ سفر کے دوران مظفرآبا د میں کچھ وقت کا قیام بھی ضروری ہوتا ہے ورنہ حکمت، ادب،عمل سب کچھ روٹھ سا جاتا ہے۔

کشمیر کا حالیہ سفر پاک بھارت کشیدگی کی نذر ہوا ۔ مظفرآباد میں کزن کی شادی میں شر کت کے بعد جب گھر کے لیے رخت سفر با ندھا توپر جو ش تھا .گاڑی میں فیصل آباد سے تعلق رکھنے وا لے تین نوجوان عبدالرحمان ندیم ،جنید جمشید اور عبدالرحمان عارف بھی ہمرا ہ ہولیے ۔تینوں دوست غلام اسحاق خان یونیورسٹی صوابی کے طالبعلم ہیں اور سمسٹر سسٹم کےدباو سے نکلنے کےلئے تین دن وادی نیلم کے پر فضاء مقامات پر گزارنے کی آرزو دل میں لئے ہو ئے تھے ۔

گاڑی میں ساتھ والی نشت پربراجمان عبدالرحمان ندیم تھوڑا سا باتونی نکلا اور مجھ جیسے گم گو کو بھی با تو ں میں مشغول کرگیا ۔اس کے ساتھ بیٹھا عبدالرحمان عارف پورے سفر میں خاموش رہایا پھروقفے وقفے سے موسیقی کے راگوں پر سر کو جنبش دیکر اپنے سلامت ہونے کی گواہی دیتا رہا۔اگر فوجی چیک پوسٹو ں پر اپنااور اپنے دوستوں کا اندراج نہ کرانا تو شاید اسے میں نیم مدہوش قرار دیتا ۔

جسامت میں پہلوان نظر آنے وا لے جنید جمشید کودو کمزور دوستوں نے کیمرے سمیت گاڑی کی سب سے آخری سیٹ پر بٹھا دیا تھا جس سے سفر کے دوران کوئی بھی بات نہیں ہوئی ۔عبدالر حمان ندیم کے وا دی بارے تجسس اور سوالا ت کی بوچھاڑ پر اسے عا م فہم انداز میں وادی نیلم کی جغر افیائی صورتحال سے آگاہ کیا ۔

مظفر آباد سے تھو ڑا سا فا صلہ طے کر نے کے بعد ہی پہلی چیک پو سٹ پر گن تانے فو جی اہلکارنے مسا فر و ںسے شا ختی کا ر ڈ طلب کیے تو فیصل آباد ی منڈے سٹپٹا سے گئے مگرمیں خامو ش بیٹھا ان کے چہر ے پر نمودا ر ہو نے وا لے تا ثرا ت پڑھتا رہا۔ چارو چار انہو ں نے شناختی کا رڈ فو جی کو پکڑ وا دیے جنہیں دیکھتے ہی فوجی اہلکار نے تینو ں کو چیک پوسٹ پر جا کر رجسٹر یشن کرانے کا حکم بھی صادر کر دیا۔

گا ڑی کے د روازے کی جا نب بیٹھا کم گو عبدر الر حمان حکم سنتے ہی چت سے چھلانگ لگاکر اترا اور چیک پو سٹ پر جا کر انٹر ی کر وا آیا ۔تمام مسافرو ں کے شنا ختی کا ر ڈ چیک کر نے کے بعد گن بردا ر میرے پا س بیٹھے نگدر(وادی نیلم کا گاوں) سے تعلق رکھنے وا لے ایک بچے کی جا نب متوجہ ہو ا جس کی عمر ابھی شنا ختی کارڈ کیلئے پو ری نہیں تھی ۔شنا ختی کا رڈ نہ ملنے پر تابر تو ڑ سوالا ت کی پو چھا ڑشر و ع ہو گئی ۔سہما ہوا نو جو ان صر ف اتنا بتاسکا کہ میں طا لبعلم ہوں، مظفر آبادمیں پڑھتا ہوں اور اب واپس اپنے گھرجا ر ہو ں ۔

نو جوان کی گفتگو سن کر عرق گلاب، شہد اور دودھ سے دھلے پاک صاف فوجی اہلکار نے رعونت آمیز لہجے میں حکم صادر کیا کہ ہم ابھی تمہارا شناختی کارڈ بنا دیتے ہیں۔ ہم نے چیک پوسٹ کے نیچے زیر زمین شناختی کارڈ بنانے کی سہولت رکھی ہوئی ہے ۔اب اتاروں تمہیں نیچے؟اس طرح کے مزید شیریں جملے سننے کے بعد نوجوان نے جان کی امان پائی اور یوں گاڑی بھی آگے کی جانب چل پڑی۔

مجھے بندوق بردار پاکستانی فوجیوں کے تلاشی کے اس ذلت آمیز رویے سے بے انتہا خوشی ہوتی ہے ۔ان کے اس طرح کے اقدام آزادی کی جدوجہد کو جلا بخشتے ہیں۔اگلی چیک پوسٹ پر دوبارہ سے چیکنگ ہوئی۔ فیصل آبادی نوجوانوں کے شناختی کارڈ دیکھتے ہی گن بردار فوجی نے اعلان صادر فرمادیا کہ آپ لوگ ویک اینڈ منانے جا رہے ہو؟جس پر میرے انتہائی بائیں جانب بیٹھا عبدالرحمان ندیم یکدم بول اٹھا کہ نہیں ہم ایک سمسٹر گزر جانے کا جشن منانے آئے ہیں اور ہماری منزل شاہدرہ(شاردہ) ہے ۔گن بردار شاید پنجاب ہی کے کسی کونے کھدرے سے تعلق رکھتا تھا اسی لیے زیادہ سوال جواب کی نوبت پیش نہیں آئی بس تھوڑی سی فیس ریڈنگ کے بعد انٹری کرانے کا حکم صادر فرما دیا۔حکم سنتے ہی عبدالرحمان عارف نے ایک بار پھر پھرتی دکھا دی۔

فوجی چیک پوسٹ سے آگے نکلتے ہی سیز فائر لائن شروع ہو گئی ۔اقوام متحدہ کی قراردادوں کی دن رات رٹ لگانے والے پاکستان اور بھارت نے اقوام متحدہ کی جانب سے سیز فائر لائن قرار دی گئی . سرحدکو معائدہ شملہ میں ” لائن آف کنٹرول“ میں بدل دیا ہے۔آزادی کی تڑپ رکھنے والے کشمیر اسے آج بھی سیز فائر لائن ہی کہتے ہیں۔

دریا کی دوسری جانب بے آب نالے کے ساتھ ساتھ پاکستانی و ہندوستانی چیک پوسٹیں قائم ہیں جو پہاڑ کی آخری بلندی تک جاتی ہیں۔قریب بیٹھے عبدالرحمان کو سیزفائر لائن دکھائی تو وہ چیک پوسٹوں پر پاکستانی و ہندستانی پرچم کی تلاش میں جٹ گیا مگر گاڑی کی رفتار نے تمام امیدیں خاک میں ملا کر رکھ دیں ۔ٹیٹوال کا علاقہ نظر آنے پرسعادت حسن منٹو کا ” ٹیٹوال کا کتا“یاد آگیاجس کا تذکرہ پنجابی بھائیوں سے بھی کیا گیا مگر ان کی دلچسپی خال ہی رہی ۔تاثرات سے ایسا لگا کہ سعادت حسن منٹو کا نام انہوں نے پہلی بار سنا ہو،ان کی تمام توجہ سیز فائر لائن پر ہی مرکوز رہی۔

کیرن چیک پوسٹ پر جامع تلاشی کے بعد وہ لمحہ بھی آن پہنچا جب دریا نیلم کی دوسری جانب گھنے جنگل میں بنے فوجی ٹریک دیکھائے گئے جہاں اکثر اوقات بھارتی فوجی اسلحہ و بارود کیساتھ پیدل مارچ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ تھوڑا سا مزید آگے جائیں تو کیرن کا اجڑ جانے والے گاوں نظر آتا ہے ۔یہ گاوں دواطراف سے بارڈر میں گھرا ہوا ہے شاید اسی وجہ سے یہاں کے مکین ہجرت کر کے مظفرآباد کے کیمپوں میں قیام پذیر ہو گئے ہیں۔

اجڑے گاوں کے دامن میں پاکستانی و ہندوستانی فوجی چیک پوسٹوں پر لہراتے پرچم دیکھ کر فیصل آبادی منڈے ایک دم سے پرجوش ہو گئے۔ اس سے آگے کا سفر شام کے منڈلاتے سائے ، تا حد نظر بکھری خزاں اور ہوا کے جھونکوں سے خزاں رسیدہ پتوں کو ٹوٹتے، بکھرتے اور کرتے دیکھنے میں گزر گیا۔ سیز فائر لائن نظروں سے اوجھل ہو کر پہاڑ کی چوٹیوں پر محو رقص تھی۔

فوج اور فوجی چیک پوسٹ پر تلاشی دیتے دیتے ہم سر شام شاردہ وارد ہوئے۔شاردہ سے کیل تک تقریباً 18کلو میٹر کا مزید سفر درپیش تھا۔پنجابی بھائیوں نے رات شاردہ ہی قیام کرنا تھا سو ان کے قیام کا بندوبست کرنے کے بعد کیل سے مجھے لینے کیلئے آنے والے دوست اور کزن مشتاق حسین کے ساتھ اندھیری راہ پر چل پڑا۔تاریک شپ کے ٹھنڈے اور پر لطف لمحات میں یہ سفر بھی اختتام پذیر ہوا۔

پروگرام کے مطابق فیصل آبادی منڈے شاردہ کے تا ریخی آثار کی سیاحت کے بعد اڑنگ کیل بھی جانا چاہتے تھے ۔ رات کو مکمل آرام کے بعد دوسرے دن کیل کیلئے روانہ ہو نا تھا ۔ اوردن وہاں گزارنے کے بعد شام کو واپس راولپنڈی کی جانب کوچ کرنا تھا۔عبد الر حمان ندیم نے رہنمائی اور کیل میں ملا قات کی غرض سے میرا موبائل نمبر بھی لے لیا مگر دوسرے روز پاکستا ن اور بھارتی فو جیوں کا موڈ خراب ہو گیا ۔ گولہ باری شروع ہونے سے قبل موبائل سروس معطل کردی یوں ہمارا مواصلا تی رابطہ قائم نہ ہو سکا ۔

طے شدہ پروگرام کے مطابق تینوں نوجوان شاردہ میں فوٹو سیشن کے بعد کیل روانہ ہوئے ۔یونہی انکی گاڑی کیل پہنچی اسی لمحے گولہ باری شروع ہو گئی ۔اڑنگ کیل کی سیاحت کے خواہش مند کیل کوبھی سکون کی نظر سے نہ دیکھ سکے حا لا ت کو مد نظر رکھتے ہوئے تینوں نوجوانوں کو واپسی کی راہ لینا پڑی ۔

کشمیر میں پاکستان اور بھارت کی جانب سے بارڈر بارڈر کھیل جاری ہے ۔ بارودی گولہ سیز فائر لائن کے اُس پار گرے یا اس پار گرے نشانہ ہمیشہ سے ہی بے گناہ کشمیر ی عوام بنتے آئے ہیں ۔ اب تک اس کھیل میں 31سے زائد کشمیر ی شہید اور درجنوں زخمی ہو چکے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے فائر کیے جانے والے بموں کا نشانہ بھی سیز فائر لا ئن کے اس پار مسلمان آبادی ہی بن رہی ہے۔ کشمیر یوں کے قتل عام کو مقدس جنگ قرار دینے والے نام نہاو مذہبی لیڈر ” دف “ بجارہے ہیں۔

گھر میں دو روز قیام کے بعد خزاں رسیدہ پتوں کی طرح مجھے بھی گھر والوں کو الوداع کہنا پڑا اور واپسی کی راہ لی لیکن واپس آنے سے قبل والد محترم نے ایک بار پھر گھر آنے کی تاریخ بھی دے دی ۔یوں تمام سفر واپس لوٹ کر جانے کی ا ذیت کی یاد میں کٹ گیا ۔ ایک بار پھر سے سفر درپیش ہے مگر میں سفر سے بالکل بھی خوش نہیں ہوں ۔بلکہ سفر کا سنتے ہی میرا موڈ خراب ہو جاتا ہے ۔جسم کا کوئی حصہ ٹھیک سے کام نہیں کرتا۔ صرف ایک دل ہے جو ہولے ہولے دھڑکتا ہے ۔ اسی دھڑکن کے سہارے زندگی کے سفر کاٹے جا رہے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے