عورت:ہمت، حوصلہ اور رومان کی پہچان ہے ، شاہ لطیف بھٹائی کا عرس شروع

سندھ کے صوفی بزرگ شاہ لطیف کا 273 واں عرس جاری ہے .

سندھ دھرتی کے عظیم بزرگ اور صوفی شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی کا سالانہ تین روزہ عرس بھٹ شاہ میں اسلامی سال کے دوسرے مہینے صفر کی 14 تاریخ کو شروع ہوتا ہے۔

شاہ عبدالطیف بھٹائی 1689 میں چھوٹے سے گائوں ہالا حویلی میں پیدا ہوئے جو اس وقت ضلع ٹنڈو الہہ یار میں تھا، آج یہ علاقہ ضلع مٹیاری کے تعلقہ ہالا میں موجود ہے، شاہ لطیف بھٹائی کی رحلت 1752 میں ہوئی اور انہیں بھٹ شاہ پر دفن کیا گیا جو آج سندھ کی سب سے اہم درگاہ بن چکی ہے۔

شاہ لطیف جس زمانے میں پیدا ہوئے اس زمانے میں سندھ بھر میں فارسی رائج تھی، مگر شاہ بھٹائی نے فارسی زبان سے بغاوت کرتے ہوئے سندھی زبان کو اہم سمجھا، اور اسی زبان میں شاعری کر کے سندھی زبان کو نہ صرف ایک نئی زندگی بخشی، بلکہ یہ بھی ثابت کر دکھایا کہ سندھی زبان کمتر نہیں بلکہ اظہار کے لیے ایک بہت ہی اعلیٰ زبان ہے۔

شاہ لطیف کی شاعری کا رسالہ 30 بابوں پر مشتمل ہے، شاہ لطیف کے شاعری کے کتاب کو شاہ کا رسالہ اور اس میں شامل بابوں کے شاہ کے سر کہا جاتا ہے، شاہ بھٹائی کے رسالے میں موجود شاعری کے تمام بابوں کے نام خواتین سے منسوب ہیں۔

582ad9985853b

شاہ بھٹائی کی شاعری کی سورمیاں (ہیروئن) عورتیں ہی ہیں۔ سسی، مارئی، مومل، سوہنی، نوری، یہ سب وہ کردار ہیں جن کو انہوں نے اپنی شاعری میں بیان کرکے امر کر دیا ہے۔ انہوں نے مرد کے بجائے اپنے کلام کے اظہار کے لیے عورتوں کا انتخاب کیا ہے، تاکہ معاشرے کو اس بات کا احساس دلایا جا سکے کہ عورت جسے ہم کمتر سمجھتے ہیں وہ کسی بھی طرح کمتر نہیں، بلکہ ہمت، حوصلے، رومان اور مشکلات کا سامنا کرنے کی علامت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے