جنگ بندی لائن: آزادی پسندوں اور مسلم کانفرنس کا کردار

دیوار برلن کی طرح مادر وطن کے سینے پر جبری طور پرکھینچی گئی خونی لکیر سیز فائر لائن گزشتہ70برس سے عظیم انسانی المیے کا باعث ہے۔ کشمیری عوام انفرادی اور اجتماعی طور پر اس خونی لکیر کو روندکر وطن کر وحدت اور سالمیت کی بحالی کیلئے جدوجہد کرتے رہے ہیں۔

1958میں مسلم کانفرنس کے سربراہ چوہدری غلام عباس پہلی بار سیز فائر لائن توڑنے کا اعلان کرتے ہوئے راولپنڈی سے روانہ ہوئے تو حکومت پاکستان نے انہیں کوہالہ پل پر گرفتار کر کے کوشش ناکام بنا دی . چوہدری غلام عباس کے ساتھیوں نے 1958میں ان کا ساتھ چھوڑ کر اسلام آباد کے ایوانوں سے اپنے تعلق استوار کر لیے جس پر غلام عباس کو سیاست سے ہی علیحدگی اختیار کرنا پڑگئی۔

1958میں سیز فائر لائن توڑنے اور مارچ کرنے والے بعد ازاں اقتدار ملنے پر ایسی کسی بھی سرگرمی کے خلاف ہو گئے۔

1990میں نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف)کے قائد گل نواز بٹ نے سیز فائر لائن کی جانب مارچ کیا اور سیز فائر لائن کو توڑتے ہوئے بھارتی مقبوضہ

انیس سو نوے میں میں نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف)کے قائد گل نواز بٹ نے ساتھیوں سمیت سیز فائر لائن  توڑی
انیس سو نوے میں میں نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف)کے قائد گل نواز بٹ نے ساتھیوں سمیت سیز فائر لائن توڑی

حصے میں داخل ہو گئے۔ قابض افواج کی فائرنگ سے تین فرزندان حریت لیاقت اعوان‘فرحت قریشی اور سجاد انجم مرزا نے جام شہادت نوش کیا .

دو برس بعد 11فروری 1992کو جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ امان اللہ خان مرحوم لاکھوں افراد کے ہمراہ سیز فائر لائن توڑنے کیلئے نکلے اور متعدد کارکنان نے سیز فائر لائن توڑ کربھارتی مقبوضہ حصے میں پارٹی پرچم گاڑ دیے مگر چکوٹھی کے مقام پر ایف سی اورپی سی کی جانب سے مارچ کے شرکاء پر فائرنگ اور شیلنگ سے لبریشن فرنٹ اور سٹوڈنٹس لبریشن فرنٹ کے راجہ سجاد‘اشیاق راٹھور‘مشتاق احمد‘خانی زمان‘فرید احمد سمیت 6فرزندان حریت کو شہید کر دیا گیا ۔

آزادکشمیر بھر سے آنے والے ہزاروں افراد کو گرفتار کر کے پابند سلاسل کر دیا گرفتاریوں، پکڑ دھکڑ کا سلسلہ کافی عرصہ تک جاری رہا اور2ماہ تک مظفرآباد عملاً عقوبت خانے کا منظر پیش کرتا رہا۔

اس کے بعد لبریشن فرنٹ نے24مارچ1992کو ایک بار پھر سیز فائر لائن کو روندنے کی کال دی مگر ریاستی جبر کے باعث اسے عملی جامعہ نہ پہنایا جا سکا ۔یوں یہ کال ملتوی کر دی گئی . بعد ازاں آزادی پسند جماعتوں نے24اکتوبر 1992کو چکوٹھی کی جانب مارچ کیا مگر حکومت آزادکشمیر نے دوبارہ ایف سی اورپی سی کو طلب کر کے تعینات کر دیااور چناری مقام پر حریت پسندوں پر گولیاں برسائی گئیں۔

فائرنگ سے ایس ایل ایف کے آزادعلی کھوکھر مادروطن کی وحدت پر قربان ہو گئے۔ سینکڑوں افراد گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے کئی رہنماؤں کو گرفتار کر کے سیز فائر لائن توڑنے کی کوشش کو ناکام بنا دیا ۔جنگ بندی لائن توڑنے کی ان تمام کوششوں کے دوران آزادکشمیر میں مسلم کانفرنس کی حکومت تھی اور سردار عبدالقیوم اقتدار پر براجمان تھے ۔جن کی جماعت نے خود 1958میں ایسی ہی کوشش بھی کی تھی.

1990کے بعد جب وہ حکومت میں تھے تو آزادی کے متوالوں کو بھارتی ایجنٹ قرار دیکر انتہائی لغو قسم کی زبان استعمال کی گئی جو کہ قابل تحریر نہیں . بیانات سے ہٹ کر عملی طرز پر ہزاروں افراد کے خلاف بے بنیاد مقدمات قائم کر کے آزادی پسندوں کے ساتھ ساتھ ان کے عزیزواقارب پر بھی عرصہ حیات تنگ کیا گیا . تھانوں میں بلا کر کے ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا مگر ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود جذبہ آزادی میں فرق نہیں آیا۔

اب سردار عبدالقیوم کے فرزندسردار عتیق نے سیز فائر لائن توڑنے کی دھمکی دے دی ہےلیکن سردار عتیق کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے والد محترم اقتدار کے دوران سیز فائر لائن توڑنے والوں کو بھارتی ایجنٹ قرار دے چکے ہیں اور جنگ بندی لائن کو توڑنے کو کشمیر دشمنی سے تعبیر کرتے رہے ہیں . کیا سردار عتیق احمد’’ راولپنڈی‘‘ کی خوشنودی کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں ؟کیاموجودہ مسلم لیگ ن کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر اب سردار عتیق کے خلاف بھی پنجاب کانسٹیبلری (پی ایس)فرنٹیئر کونسٹیبلری (ایف سی)کا استعمال کریں تو کیایہ تحریک آزادی اور مسئلہ کشمیر کی خدمت ہو گی؟

1992کی سردار عبدالقیوم کی حکومت پر 7بے گناہ شہیدوں کا خون بھی ہے اس کا حساب کون دے گا؟سردار عتیق احمد خان کے کالعدم تنظیموں کے ساتھ مل کر سیز فائر لائن توڑنے کے اعلان سے یہ بات واضع ہو رہی ہے کہ قومی آزادی کی تحریک کو سبوتاژ کرنے اور سرینگر کے حالات سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے اور ’’راولپنڈی ‘‘کو اپنی وفاداری کا ثبوت دے کر اقتدار کے حصول کی ناکام کوشش کی جارہی ہے.

اگر مسلم کانفرنس واقعی ریاست کی وحدت کی بحالی کیلئے جنگ بندی لائن توڑنا چاہتی ہے تو اسے سب سے پہلے 1992ءکے بحیثیت جماعت اپنے کردارکو مدنظر رکھتے ہوئے کشمیری قوم اور شہیدوں سے معافی مانگنی ہو گی اور مظفرآباد میں شہدائے چکوٹھی کے مزارات پر حاضری دے کر ماضی کی داغ دار سیاست سے لاتعلقی اختیار کرتے ہوئے 90,92اور96 میں آزادی پسندوں کر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم کی بھی مذمت کرتے ہوئے اس پر ندامت کا بھی اظہار کر نا ہوگا . اس کے بعد ہی کشمیری قوم جنگ بندی لائن توڑنے کی ان کی حالیہ کال کو سنجیدگی سے دیکھے گی ورنہ یہ ایڈونچر مادروطن کی وحدت کی بحالی کے بجائے مسلم کانفرنس کے سیاسی احیاء کے لیے اٹھایاگیا ایک ناکام سیاسی ایشو تصور ہو گا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے