کیا یہ مکافات عمل ہے ؟؟

انسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس ایک امریکی ادارہ ہے جو دنیا بھر میں دہشت گردی کے واقعات پر نظر رکھتا ہے اور اس حوالے سے سالانہ رپورٹ بھی جاری کرتا ہے ۔اسی ادارے کی جانب سے سال 2015-16کی جاری کر دہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کا ناسو رامریکہ اور یورپ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں سرایت کرتا جا رہا ہے اور گزشتہ سالوں کے مقابلے میں یہ ممالک آج زیادہ غیر محفوظ ہیں ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جہاں ایک جانب چند ممالک میں دہشت گردی کے ناسور پر قابو پایا گیا تو وہیں دوسری جانب متعدد ممالک میں دہشت گردی میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔جاری کر دہ رپورٹ جسے گلوبل ٹیرارزم انڈیکس (جی ٹی آئی)کا نام دیا گیا ہے میں دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں عراق پہلے، افغانستان دوسرے ،نائیجیریا تیسرے،پاکستان چوتھے اور شام پانچویں نمبر پر ہے۔سال 2015 کے دوران دہشت گردی کی وجہ سے ہوئی اموات کا 72فیصد صرف ان پانچ ممالک سے تعلق رکھتاہے یعنی اگر ایک سال میں دہشت گردوں نے 100لوگوں کی جان لی تو ان میں سے 72کا تعلق ان پانچ ممالک سے ہے جس میں پاکستان کا نمبر چوتھا ہے ۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2014 کے مقابلے میں 2015 کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں 8 فیصدکمی ریکارڈ کی گئی اوراس دوران دہشت گرد حملوں کے نتیجے میں ہوئی اموات بھی کم ہوئی ہیں تاہم اس کے باوجود پاکستان فہرست میں دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی صف میں چوتھے نمبر پر ہے۔گلوبل ٹیرارزم انڈیکس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ2015 کے دوران پاکستان بھر میں دہشت گردی کے 1008 واقعات ہوئے جس میں 1086 افراد جاں بحق اور 1337 زخمی ہوئے جبکہ 311 عمارتوں یا انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچا۔

اس عرصے کے دوران آگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ (او ای سی ڈی ) کے رکن ممالک یعنی ترقی یافتہ ممالک جیسے فرانس اور ترکی میں دہشت گردی میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ انسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کے مطابق سال 2006کے بعد امریکہ بھر میں دہشت گردی سے ہونے والی 98فیصد اموات ایسی تھیں جس میں حملہ آور ایک تھا اور اس طرح کے حملوں میں 156 امریکی ہلاک ہوئے ۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال اوای سی ڈی سے وابستہ 34ترقی یافتہ ممالک میں سے 21ممالک میں دہشت گردی کا کم از کم ایک واقعہ رونما ہواجن میں ترکی اور فرانس میں ہونے والے حملے سب سے زیادہ ہلاکت خیز اور جان لیوا تھے ۔جی ٹی آئی کے مطابق دہشت گردی سے متاثرہ ممالک میں فرانس 29،روس 30، برطانیہ 34 اور امریکہ 36ویں نمبر پر ہے اور عالمی سطح پر دہشت گردی کی وجہ سے صرف ایک سال کے دوران 89.6 ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔عراقی معیشت دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی معیشت تھی جس کا نقصان اس کے کل پیداوار کا 17فیصد تھا ۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال دہشت گرد ی کے مختلف واقعات میں مارے جانے والوں میں سے 74فیصد کی ذمہ دار چار تنظیمیں تھی جن میں سرفہرست داعش،بوکو حرام ،طالبان اور القاعدہ شامل ہے ۔فہرست کے مطابق داعش مہلک ترین تنظیم رہی جس نے دنیا کے مختلف ممالک کے 252شہروں میں حملے کرکے 6ہزار سے زائد افراد کو ہلاک کیا۔اسی طرح بوکو حرام کے حملوں میں مارے جانے والوں کی تعداد 5478،طالبان کے حملوں میں جان سے جانے والوں کی تعداد 4502 جبکہ القاعدہ کے حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 1662تھی ۔دہشت گردی کے خلاف آپریشنز کی وجہ سے بوکو حرام اورالقاعدہ کی کارروائیوں میں بالترتیب 18اور17فیصد کمی ہوئی جبکہ داعش اور طالبان کے حملوں میں اضافہ ہوا۔جی ٹی آئی میں مزید کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال ان چاروں تنظیموں کے خلاف فوجی کارروائیوں کی بدولت یہ تنظیمیں دیگر قریبی ممالک میں منظم ہو رہی ہیں اور ترقی یافتہ ممالک (او ای سی ڈی کے رکن ممالک ) اس کا شکار بن رہے ہیں۔ مثال کے طور پر نائیجیریامیں ہلاکتیں کم ہوئی ہیں تاہم یہ قدرے ترقی یافتہ ممالک (ترکی اور فرانس سمیت دیگر ترقی یافتہ ممالک ) میں 650فیصد بڑھی ہیں۔جس کی وجہ داعش کے وہ غیر ملکی(یورپی ممالک اور امریکہ سے تعلق رکھنے والے ) جنگجو ہیں جن کی تعلیمی سطح توبلند لیکن آمدنی کی سطح کم تھی جبکہ کئی جنگجووں نے داعش میں اس لئے شمولیت اختیار کی کیونکہ انہیں اپنے ممالک میں ناانصافی اور زیادتی کا احساس ہورہاتھا ۔

رپورٹ یہ بھی کہا گیا ہے کہ 9/11کے بعد امریکہ کی جانب سے افغانستان اور عراق پر حملے ،پاکستان اور یمن میں ڈرون حملوں کی وجہ سے دنیا محفوظ ہونے کی بجائے مزید غیر محفوظ ہوئی ہے اور دہشت گردی میں کمی ہونے کی بجائے یہ عفریت مزید شدت سے بڑھا ہے،اس دوران دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے چار ٹریلین ڈالر جیسی خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود امریکہ اور اس کے اتحاد ی دہشت گردی کے جن پر قابو پانے میں ناکامی سے دوچار ہیں۔ رپورٹ میں دہشت گردوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کے جنگجووں کی تعداد میں مسلسل اضافہ انتہائی قابل تشویش ہے اور ان تنظیموں میں ترقی یافتہ ممالک کے جوانوں کی شمولیت ان ممالک کے لئے خطرے کی ایک نئی گھنٹی ہے جس کو سنجیدگی سے لینا چاہیے ۔

دو عالمی طاقتوں امریکہ اور روس کے درمیان جاری مفادات کی جنگ اور رسہ کشی کی وجہ سے دنیا میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے ۔اگر ایک دہشت گرد گروہ امریکہ کے نزدیک دہشت گرد ہے تو روس اور اس کے اتحادی اسی گروہ کی سرپرست اور معاون ہیں ۔اسی طرح اگر روس کسی گروہ کو دہشت گرد سمجھتا ہے تو وہ امریکہ اور اسکے اتحادیوں کا ساتھی ہے جس کی سب سے بڑی مثال حالیہ دنوں میں شام میں جاری خانہ جنگی ہے۔امریکہ شامی صدر بشار الاسد کے خلاف ہے اور اس کو اقتدار سے بے دخل کرکے شام میں جمہوریت (امریکہ مارکہ جمہوریت )نافذ کرنا چاہتا ہے جبکہ روس بشار الاسد کا معاون و مددگار ہے۔ایک جانب شام میں داعش سمیت دیگر باغی گروہوں کو امریکہ کی جانب سے اسلحہ اور ڈالر دئیے جاتے ہیں تو دوسری طرف امریکہ داعش کے خلاف برسرپیکار بھی ہے ۔اسی طرح روس بھی یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ بھی شام میں داعش سمیت دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کر رہاہے تاہم شام میں جاری خانہ جنگی (دہشت گردی )دن بدن بڑھتی جا رہی ہے جس میں لاکھوں شامی باشندے مارے جا چکے ہیں جبکہ لاکھوں کی تعداد میں اپنا ملک چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں پناہ کے لئے ٹھوکریں کھا رہے ہیں (دوسرے ممالک میں پناہ حاصل کرنے کے دوران بھی درجنوں شامی پناہ گزیں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں)تاہم اب داعش میں شامل یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والے جنگجو اپنے ملک پر بھی حملہ آور ہورہے ہیں جو امریکہ سمیت دیگر یورپی ممالک کے لئے اصل پریشانی کا باعث ہیں ۔

یہی مکافات عمل ہے کہ انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے۔پاکستان تو اپنی بوئی ہوئی فصل کاٹ رہا ہے ۔اب باری امریکہ اور روس کی ہے (دونوں ممالک کے اتحادی بھی اس مکافات عمل کا شکار ہیں) جبکہ امریکہ کو تو ڈونلڈ ٹرمپ کی شکل میں ایک نئی قسم کی انتہا پسندی کا بھی سامنا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے