سندھ میں کرپشن ، لوٹ مار اور بد عنوانی کا راج

پاکستان کے قومی خذانے میں سندھ بلخصوص کراچی سے نوے فیصد ریوینیو ادا کرتا ہے ،سندھ کے بڑے شہروں میں کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص، نوابشاہ، لاڑکانہ اور سکھر سرفہرست ہیں لیکن کراچی وہ واحد شہر ہے جہاں سے پاکستان کی تجارت، صنعت کو فروغ ملتا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ کراچی کی دو بندرگاہیں ہیں ایک پورٹ قاسم دوسری بن قاسم اس کے علاوہ نوری آباد کا انڈسٹریل زون بھی پاکستان کی صنعت میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ، کراچی میں سائٹ انڈسٹریل اور کورنگی انڈسٹریل ایریاز بھی صنعت و تجارت کے میدان میں اہم حیثیت کا حامل ہے جبکہ ایف بی انڈسٹریل ایریا اور نیو کراچی انڈسٹریل ایریا بھی صنعتی پروڈکشن میں پیش پیش ہیں لیکن کراچی جو پاکستان کا سب سے زیادہ گنجان شہر ہے اور اس کی آبادی دو کروڑ سے تجاوز کرگئی ہے اس کا بجٹ ایک دیہی علاقے کے مساوی رکھا جاتا ہے جبکہ بلدیاتی سطح پر کراچی کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان خلیج کا سبب بنی ہوئی ہے ،بلدیاتی وزارت پی پی پی کے پاس ہے اور بلدیاتی امور ایم کیو ایم کے پاس ہیں یہی حال واٹر بورڈ اور دیگر شہری حکومتوںکا ہے۔۔،

کراچی ان دو بڑی سیاسی جماعتوں کی لڑائی کے سبب پسا ہوا ہے، دونوں جماعتوں کو کراچی کی عوام کے بنیادی حقوق کا قطعی خیال نہیں۔۔۔۔!! ایم کیو ایم بلدیاتی اداروں میں میرٹ کا مستقل بنیادوں پر قتل کرتی چلی آرہی ہے تو دوسری جانب پی پی پی کرپشن، لوٹ مار اور بدعنوانی کے تمام ریکارڈ توڑ چکی ہے۔۔، محکمہ تعلیم ہو یا محکمہ صحت دونوں اہم ترین وزارتوں میں من پسند کرپٹ افسران کی تعیناتی نے انتظامی امور کو برباد کرکے رکھ دیا۔۔، پی پی پی کے تمام وزرا ماضی میں بھی اور اب حال میں بھی اپنی کرپشن ، لوٹ مار اور بدعنوانی کی سرش سے باز نہیں آئے۔۔۔، حالیہ نئے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بھی اپنی پارٹی کے احکامات تلے دبے ہوئے ہیں بظاہر ان کے دورے اور بیانات اپنی پارٹی کی خامیوں پر پردہ ڈھکنے کی کوشش کرتے ہیں مگر حقیقت پھر حقیقت ہوتی ہے عملی اقدامات منفی انداز میں نظر آرہے ہیں۔۔۔، مجھ سے کئی اساتذہ کرام اور صوبہ سندھ کے استذاہ کرام کی سب سے بڑی تنظیم گسٹا کے ذمہ داروں نے شکایت کی کہ محکمہ تعلیم کے وزیر اور سیکریٹری انتہائی کرپشن اور بد عنوانی میں ملوث ہیں ۔۔۔۔،

کرپٹ ڈائریکٹر عبد الوہاب عباسی کی گرفتاری کے بعد ابھی تک کوئی ڈائریکٹر آف اسکول کراچی تعینات نہیں کیا جاسکا جس کی وجہ سے اساتذہ کرام کے جائز امور رُکے ہوئے ہیں۔۔، ترقی ہو یا بقاجات یعنی ایریئرز ان سب کیلئے بھاری رشوت اور اپنے ایجنٹوں کو پھیلا کر صرف انہی کے طفیل کام کیئے جارہے ہیں۔،سینئرٹی لسٹوں سے پرموشن نہیں دیئے جارہے، بیک ڈور پروموشن اور جعلی دستاویزات کا استعمال عام ہوچکا ہے جس سے قابل، اہل اور سینئرز اساتذہ کے ساتھ کھلی حق تلفی ہورہی ہے ۔۔،

گسٹا کے عہدیدار نے فون پر بتایا کہ حکومت سندھ کو با ر بار اس حق تلفی کی طرف مبذول کرایا لیکن ان پر جوں تک نہیں رینگتی ۔۔، اساتذہ کرام کی دیگر تنظیموں نے حکومت سندھ محکمہ تعلیم کے بڑھتے ہوئے کرشن، بدعنوانی کو تعلیم کیلئے ناسور قرار دیا ہے۔۔، کراچی میں گھوسٹ ملازمین اور گھوسٹ اسکولوں کی گرفت کیلئے محکمہ جاتی کاروائی اور بائیو میٹرک سسٹم کو جہاں شہر بھر کے اساتذہ کرام اور تنظیموں نے سراہا وہیں انھوں نے اس بات کی بھی شکایت کی کہ محکمہ تعلیم کی تقرریوں کو بھی صاف و شفاف اور خالصتاً میرٹ کے اصولوں پر مروج کیا جائے اس بابت محکمہ تعلیم کے وزیر اور سیکریٹری بھاری رشوت اور شفارت کے تحت تقرر نامے جاری کرتے آرہے ہیں ۔۔،

این ٹی ایس کے نظام کو بھی بہتر بنایا جائے اس نظام کو بھی ہائی جیک کرلیا گیا ہے اور این ٹی ایس میں بھی اب دباؤ اور شفارش کیساتھ نقل کا بھی رجحان بڑھ گیا ہے، اساتذہ کرام کی تنظیموں نے حکومت سندھ سے مطالبہ کیا ہے کہ کراچی میں جونیئر اسکول ٹیچرز کی تعدادسندھ بھر سے زیادہ ہے اور یہاں پروموشن کا فارمولا بہت سست اور کم مقدار پر محیط ہوتا ہے اسی بابت کئی سینئرز اساتذہ کرام اپنے پروموشن اور حقوق سے محروم ہوجاتے ہیں جو سراسر نا انصافی کا باعث ہے، گسٹا کے مطابق پی پی پی عوامی حکومت ہوتی ہے مگر ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کے عزم اور منشور کا جس قدر قتل کیا جارہا ہے کبھی بھی پی پی پی نے نہیں کیا ہوگا، ان کے مطابق پی پی پی عوامی حکومت ہونے کے ناطے دیگر سیاسی جماعتوں سے زیادہ عوامی فلاحی امور کو پورا کرنا چاہیئے مگر حقیقت اس کے برعکس نظر آرہی ہے۔

گیسٹا کے عہدیداروں کو یہ بھی شکایت ہے کہ سندھ بھر کے اساتذہ کرام کےجائز امور پر اے جی سندھ رشوت کے بغیر کام نہیں کرتی اور چند دنوں کے کام کو مہینوں پر کرتی ہے ، گسٹا اور دیگر اساتذہ کرام کی تنظیموں نے پاک افواج سے مطالبہ کیا ہے کہ ایک یونٹ اپنا اے جی سندھ میں مستقل بنیادوں پر تعینات کردیں کیونکہ اے جی سندھ کی کرپشن کی روک تھام میں سندھ حکومت ناکام ہوچکی ہے اس کی بڑی وجہ سندھ حکومت کے کرپٹ وزرا ، سیکریٹریز و مشیر ہیں! معزز قائرین !پی پی پی کے دور اقتدار میں جہاں محکمہ تعلیم میں کرپشن و لوٹ مار کا بازار گرم رہتا ہے وہیں محکمہ صحت کو بھی نہیں بخشا جاتا، کراچی کے ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبا کیلئے جاب کے درازے بند ہوتے ہیں جبکہ جامشورو،لاڑکانہ، نوابشاہ، خیرپورمیرس اور دیگر اندرون سندھ کی میڈیکل یونیورسٹیز و کالج سے فارغ التحصیل طلبا کیلئے جاب ان کا انتظار کررہی ہوتی ہیں اس فاصلے اور نا انصافی سے طلبا میں بے چینی پائی جاتی ہے وہ پاکستان کو چھوڑ کر بیرون ملک کی جانب روانہ ہوجاتے ہیں جس سے ہمارے ملک کے ذہین و قابل ڈاکٹرز کی کمی واقع ہورہی ہے۔،

آج بھی اگر ملکی سطح پر قابل ترین اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی فہرست دیکھی جائے تو زیادہ تر کراچی کے فارغ التحصیل ہی نظر آئیں گے ، ڈاکٹروں کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بلخصوص سندھ کو اگر ترقی کی جانب گامزن کرنا ہے تو سب سے زیادہ اہلیت و قابلیت کو ترجیح دینی ہوگی ، اس قابلیت و اہلیت کا دارومدار نہ نسل ، نہ قوم اور نہ زبان پر طے کیا جائے بلکہ جو بھی میرٹ پر پورا اترے اسے اس کا حق دیدیا جائے تاکہ قابل لوگوں کی بڑھ وار سے ادارے، شعبے ترقی کرپائیں اور بہترین نتائج سے استفادہ کرسکیں،معزز قائرین سندھ کے ریوینیو اداروں میں اس قدر کرپشن ، لوٹ مار اور بدعنوانی ہے کہ جس سے کھربوں کی تعداد میں رقم قومی خذانے کے بجائے ذاتی جیبوں کی نذر ہوجاتی ہیں ، ٹول ٹیکس سے لیکر ہر وہ شعبہ اور عنصر جس سے ریوینیو حاصل کیا جاتا ہے مکمل کرپشن کی نذر ہیں۔۔!! سندھ میں محکمہ اینٹی کرپشن ہی وہ ادارہ ہے جو کرپشن کو خود پروان چڑھاتا ہے ، کرپٹ لوگوں سے بھاری رقم بٹورنے کے بعد انہیں کلین اپ کرکے دوبارہ کرپشن کرنے کا بھرپور موقع دیتا آرہا ہے ، اینٹی کرپشن ادارہ اس ملک کیلئے ناسور بن چکا ہے ،تمام افسران، وزرا اور سیکریٹریز کیس کی نسبت رشوت طلب کرتے ہیں ،

سابق جنرل راحیل شریف نے حکم دیا تھاکہ کریشن کو پکڑ کر جڑ سے خاتمہ کیا جائے توصوبائی نیب سمیت صوبائی اینٹی کرپشن نے کیسس تو پکڑے مگر انہیں بھاری رشوت کیلئے کلین کردیا اور دوبارہ اسی منصب پر کام کرنے کا اہل قرار دیدیا۔ !!دوسری جانب سندھ پولیس کا حال تو یہ ہے کہ سندھ پولیس کے تمام تر افسران سیاسی رفاقت اور سیاسی چھتری کے طفیل اپنی جاب کا سفر کرتے ہیں ۔، سندھ پولیس کا ہر افسر پی پی پی کی غلامی کا دم بھرتا ہے اسی نہ پاکستان کی پروا نہ عوام کی ، سندھ پولیس پی پی پی کے کرپٹ وزرا، سیکریٹریز اور مشیران کی ڈھال بنے ہوئے ہوتے ہیں ان کی آشیروار لیکر اپنے منصب کو مضبوط کرتے ہیں ایسے ادارے کا کیا فائدہ ۔۔؟جو کرپٹ وزرا، سیکریٹریز اور مشیران کی خدمات کرتے تھکتے نہیں پھر کس طرح سندھ عظیم صوفی بزرگ حضرت شاہ عبد الطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ کے رشد و ہدایت پر چلے گا۔۔ ، مجھ سے کئی سندھی مفکرین و دانشور وں نے کہا کہ شاہ عبد الطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ کے کلام کو سننا اور اس پر داد دینا ہی کافی نہیں بلکہ شاہ کے کلام کی روحانیت اسی وقت آپ پر وارد ہوگی جب آپ شاہ عبد الطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ کے ہدایتوں کی پیروی کریں گے۔۔۔۔ ،

شاہ صاحب نے اللہ سے محبت اور سول سے عشق کا جہاں درس دیا ہے وہیں سب سے زیادہ انسان دوستی کا سبق بھی دیا ہے، انھوں نے کہا کہ سندھ کے کرپٹ، بدعنوان اور لوٹ مار کرنے والے وزیر جب عظیم صوفی بزرگ حضرت شاہ عبد الطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ کے عرس پر چادر چڑھاتے ہیں اور شاہ صاحب کے فیض و تعلیمات پرخطاب کرتے ہیں تو انہیں ذرا سی بھی شرم نہیں آتی کہ سندھ میں بسنے والے تمام صوفی بزرگوں جن میںحضرت سچل سرمست رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شہباز قلندر رحمۃ اللہ علیہ نے راہ راست کا طریقہ سیکھایا مگر سندھ کے حکمران اسی قدر اپنے بزرگوں کے احکامات سے دور سے دور تک ہوتے جارہے ہیں اس تمام برائی کی ذمہ داری پی پی پی کے حکمرانوں پر آتی ہے جس نے سندھ کو ہر شعبہ، ہر ادارے، ہر وزرات کو کرپشن، لوٹ مار اور بدعنوانی میں پلیٹ دیا ہے، سندھ کے معتبر،دانشور و مفکرین کا کہنا ہے کہ سندھ کی بقا و سلامتی لسانیت کی جنگ میں نہیں بلکہ اسی عمل میں ہے جو ہمارے پرکھوں سے چلی آرہی ہے،ہمارے باپ دا دا اور بزرگوں کی رشد و ہدایت پر محیط تھی جس میں بھائی چارہ، اخوت، پار و محبت، ایثار و قربانی اور فراغ دلی کا عمل کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔۔ ، ان کے مطابق آج کے سندھی نام نہاد لیڈروں نے نہ صرف سندھ کی ثقافت کو برباد کرکے رکھ دیا بلکہ سندھ کے تشخص کو بھی بدل ڈالا۔۔۔،

سندھ کے معتبر،دانشور و مفکرین کے مطابق وہ لوگ جو یہاں پیدا ہوئے ہیں سندھی ہیں چاہے وہ کوئی سی بھی زبان بولتے ہوں کیونکہ ان کا بھی مرنا جینا سندھ میں ہی ہے اسی لیئے ان کا بھی حق اسی طرح ہے جس طرح ایک سندھی زبان بولنے والا کا ہونا چاہیئے، ان کے مطابق وہ سیاسی جماعتیں جو اردو بولنے والی قوم کو گمراہ کرتی رہی ہیں اب وقت آگیا ہے کہ وہ قوم بھی ایسے لوگوں کو پہچان لیں کہ کون ان کے مخلص ہے اور کون ان کے ساتھ منافقت کررہا ہے۔۔۔۔۔۔!! یقینا ً سندھی زبان بولنے اردو زبان بولنے والوں کے درمیان دونوں جانب کے سیاسی لیڈر نہ اپنی قوم کے لیئے بہتر ثابت ہونگے اور نہ سندھ دھرتی کیلئے، اب عوام کو ہی اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کیلئے بہت سمجھداری، عقلمندی، دانشمدی، دانائی، حکمت سے کام لینا ہوگا جو بھی سیاسی لیڈر قوموں کو لڑانے اور ان میں شگاف پیدا کرنے کی کوشش کرے وہ قوم خود اس کا احتساب کردے تاکہ سندھ دشمن سیاستدان اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکیں اور انتخابات میں شریف النفس ،ایماندار اور مخلص لوگوں کا انتخاب کریں بلا تعصب بلا رنگ و نسل، پھر دیکھئے گا کہ سندھ کتنی جلدی کرپشن، لوٹ مار اور بدعنوانی کے راج سے آزاد ہوجائیگا اور سندھ سمیت پاکستان کس قدر تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ہوجائیگا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے