فلسطین پر خاموشی

اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں ’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات ہی رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی، جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے۔ اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں۔ یقیناًاللہ تعالیٰ ہی خوب سننے والا دیکھنے والا ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل :1)

سبحان اللہ! یہ عظیم الشان واقعہ معراج ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب حضرت محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کو راتوں رات ہی مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ اور پھر ساتوں آسمانوں کی سیر کرائی، عجائبات اور آیات کبریٰ دکھائیں، انبیاء علیہم السلام سے ملاقاتیں، سدرۃ المنتہیٰ تک جو ساتویں آسمان پر عرش کے نیچے ہے لے جایا گیا۔

اس آیت میں مسجد اقصیٰ کا تذکرہ ہے کہ جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انبیاء کی امامت کروائی اور یہ مسجد فلسطین میں واقع ہے جس کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ’’ہم نے اس کے آس پاس برکت دے رکھی ہے‘‘ اس لحاظ سے یہ علاقہ قدرتی نہروں اور پھلوں کی کثرت اور انبیاء کا مسکن و مدفن ہونے کے حوالے سے ممتاز ہے اس لئے اسے بابرکت قرار دیا گیا ہے۔

بچپن سے سنتے آئے ہیں، مسجد اقصیٰ میں مسلمانوں کو نماز ادا کرنے نہیں دی جارہی، بچوں بوڑھوں اور خواتین پر مظالم ڈھائے جارہےہیں، گھروں کو مسمار اور مساجد کو شہید کیا جارہا ہے، آئے روز بیت المقدس میں بے حرمتی کے واقعات سننے کو ملتے رہے، کبھی کسی کو کھانا نہیں ملا، کوئی فریاد کر رہا ہے، مدد کو پکار رہا ہے، کبھی آواز پر شنوائی ہوئی تو ہمسایہ ملک اور سماجی کارکن فورا کھڑے ہوگئے۔ فلسطین عالمی میڈیا کا مرکز بن جاتا اور ظلم وستم کچھ عرصے کو تھم جاتا کبھی دباؤ سے کبھی ساکھ خرابی کے ڈر سے کبھی تھک ہار کے، بہرحال کچھ سکوت ہوتا، لیکن اب فلسطین کی خبریں آنا ہی کم ہوگئ ہیں، وجہ یہ نہیں کہ وہاں امن ہے، سکون ہے، سب اچھا ہے۔ اگر ایسا ہے بھی تو وہ بھی بتائیں سب کو دکھائیں۔

گزشتہ کچھ عرصے سے تو جیسے مکمل خاموشی چھائی ہوئی ہے، سن 2010 میں ترکی کے تعاون سے فلوٹیلا بھیجے جانے اور اس پر حملے کے بعد سے بھائی چارہ ،ہمدردی کا رجحان معدوم ہوگیا، مصر کی جانب سے کبھی رفاح سرحد کھول دی جاتی ہے تو کبھی بند، عجیب سراسیمگی کی کیفیت ہے۔ شاید اس کی اہم وجہ عرب ملکوں میں شروع ہونے والی "عرب اسپرنگ” تھی، جس میں اتحادی افواج اور مغربی ملکوں نے بھی خوب حصہ ڈالا،

گزشتہ دو برسوں میں طویل عرصے جاری رہنے والی جنگ میں اسرائیل کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا تھا، تقریبا 35 فوجی مارے گئے تھے، جبکہ فلسطینیوں کی شہادت پر اعدادو شمار چھپا لیے جاتے یا آئے روز مختلف انداز سے اتنی شہادتیں ہوتیں کہ ان کا ذکر ضرروری نہیں سمجھا جاتا، انفرااسٹرکچر تباہ و برباد ہوگیا،جبکہ اسرائیل اپنے راکٹ داغ کراونچی پہاڑیوں پر بیٹھ ان نظاروں سے لطف اندوز ہوتے تھے، جس کی ایک تصویر عالمی میڈیا میں خوب مشہور بھی ہوئی تھی،

اقوام متحدہ کے تحت 29 نومبر کو فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کا دن منایا جاتا ہے جس کی منظوری جنرل اسمبلی نے 1977 میں دی تھی، اور اعلامیے کی رو سے نیویارک ، جنیوا اور ویانا میں یواین ہیڈ کوارٹرز میں اس سلسلے میں تقاریب بھی منعقد کی جاتی ہیں، جس میں اسرائیلی مظالم کی مذمت اور فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیا جاتا ہے،

افسوسناک بات یہ ہے کہ یہی جنرل اسمبلی ہے جس میں سن 47 میں 29 نومبر کو ہی فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کی قرارداد پیش کی گئی تھی اور مضبوط یہودی لابی نے ووٹنگ کے ذریعے اسے منظور کرالیا، قرارداد کے حق میں 33 اور مخالفت میں 13 ووٹ آئے 10 ارکان نے ووٹنگ میں حصہ ہی نہیں لیا۔
پیغمبروں کی سرزمین کہلائے جانے والا فلسطین دنیا کے قدیم ترین ممالک میں سے ایک ہے۔محل وقوع کے اعتبار سے فلسطین براعظم ایشیاء کے مغرب میں بحر متوسط کے جنوبی کنارے پر واقع ہے اس علاقے کو آج کل مشرق وسطیٰ بھی کہا جاتا ہے، شمال میں لبنان اور جنوب میں خلیج عقبہ واقع ہے،جنوب مغرب میں مصر اور مشرق میں شام اور اردن سے اس کی سرحدیں ملی ہوئی ہیں۔ جبکہ مغرب میں بحرمتوسط کا طویل ساحل ہے، فلسطین کا رقبہ حنفہ اور غزہ سمیت ۲۷ ہزار کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ اس کے بیشتر حصے پر اب اسرائیل کی نام نہاد ریاست قائم ہے، مزید تعمیرات اور یہودی آبادکاریوں کے لیے فلسطینیوں پر ظلم وستم کرنا، زمین پر گھروں پر قبضہ کرنا معمول بنتا جارہا ہے، فرانس میں چارلی ایبڈو حملوں کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے دنیا کے تمام یہودیوں کو اسرائیل میں بسنے کی دعوت دی تاکہ مزید علاقے پر قبضہ کرکے حکومت کی جاسکے، اور فلسطین پر تسلط قائم کیا جاسکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے