سول ملٹری کشمکش ختم کیسے ختم ہوگی ؟

ہمارے ایک سابق بیوروکریٹ روئیداد خان کی کتاب ”پاکستان انقلاب کے دہانے پر“ایک نہایت دلچسپ کتاب ہے۔ روئیداد خان نے چھ پاکستانی حکمرانوں کے ساتھ کام کیا۔ ایوب خان، یحییٰ خان، بھٹو صاحب، جنرل ضیاالحق ،صدرغلام اسحق خان اور صدر فاروق لغاری۔ ایوب خان سے لے کر جنرل ضیا تک بطور سول سرونٹ اور غلام اسحق خان اور فاروق لغاری کے ساتھ روئیداد خان کا مشاورت کا تعلق رہا ، وہ احتساب سیل کے سربراہ بھی رہے۔روئیداد خان کی کتاب آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے انگریزی میں شائع کی تھی، بعد میں اس کا اردو ایڈیشن بھی چھاپنا پڑا۔پاکستان کی سیاسی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کو یہ نہایت دلچسپ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔اس کی خاص بات اس میں درج سیاسی واقعات، اعلیٰ ادبی حوالے، خوبصورت دانشوروں کے اقوال اور مصنف کابولڈ بیانیہ ہے، جسے پنجابی محاورے کے مطابق کھلا ڈلا کہہ سکتے ہیں۔ روئیداد خان نے ایک اور دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے۔93کے عام انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی کی حکومت بن گئی ، بعد میں بی بی نے فاروق لغاری کو صدر بنوا لیا۔ فاروق لغاری جب صدر منتخب ہوگئے، روئیداد خان نے انہیں اس پر مبارک باد دی ۔ لغاری صاحب وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے ساتھ بیٹھے تھے، دو تین اور مرکزی رہنما بھی موجود تھے۔ گپ شپ ہوتی رہی۔ لغاری صاحب نے پھر وزیراعظم کو مخاطب کر کے کہا کہ آج شام میں(بطور صدر پاکستان) قوم سے خطاب کرنا چاہتا ہوں، اس کا انتظام کرا دیجئے گا۔محترمہ بے نظیر بھٹو نے قدرے سرد مہری سے کہا، اس کی ضرورت نہیں، میں صدر کے عہدے کو نظروں سے اوجھل(لوپروفائل) رکھنا چاہتی ہوں ۔صدر لغاری کا چہرہ یہ سن کر یقیناً متغیر ہوا ہوگا، مگر وہ بولے کچھ نہیں۔

روئیداد خان کہتے ہیں، یہ سن کر میں نے سوچا کہ پہلے دن ہی اس طرح کے مسائل آنا شروع آ گئے ہیں،بی بی نے اپنے ہی صدر کے حوالے سے ایک خاص رویہ اختیار کیا ہے، آگے اللہ خیر کرے۔ بعد میں وہی ہوا ، جس کا خدشہ تھا۔
بسا اوقات کوئی حکومت کسی خاص حوالے سے زیادہ ٹچی یا حساس ہوجاتی ہے تو پھر اس طرح کے عجلت آمیز اقدام نظر آتے ہیں۔ ویسے تو مسلم لیگ ن کی حکومت نے بھی صدرکے عہدے کو عوامی نظروں سے خاصی حد تک اوجھل ہی رکھا ہے،کئی کئی ہفتوں تک جناب صدر کے حوالے سے کوئی خبر پریس میں نہیں آتی، گورنر پنجاب کے حوالے سے تو حد ہی ہوگئی۔ یوں لگتا ہے کہ چودھری سرور کے گورنر ہاﺅس میں فعال کردار نے پنجاب حکومت کو اس قدر پریشان کر رکھا تھا کہ اس بار ایسا گورنر منتخب کیا گیا، جو اپنے گورنر ہاﺅس میں ہونے کا احساس ہی نہیں دلاتا۔ کئی مہینے ہوگئے ہیں جناب رفیق رجوانہ کو گورنر بنے، مگر اس پر شرط لگائی جا سکتی ہے کہ لاہور کے بیشتر اخبارنویس تک ان کے چہرے سے واقف نہیں ، عام عوام کو تو خیر جانے ہی دیں۔ایسا کرنے سے پہلے مگر مسلم لیگ ن نے اچھی طرح تسلی کر لی اورآئین میں ایک بھی ایسا اختیار نہیں رہنے دیا، جو آئینی اعتبار سے اہمیت رکھنے والے ان عہدوں کو طاقت بخشتا ہو۔

مسلم لیگ ن کی حکومت آج کل سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے ایک خاص قسم کی نفسیاتی کیفیت کا شکار نظر آتی ہے۔ حکومتی کیمپ میں یہ خواہش پائی جاتی ہے کہ نئی عسکری قیادت میڈیا سے کچھ فاصلہ رکھے اور لوپروفائل امیج بنائے۔ میڈیا میں مسلم لیگ ن کی پالیسیوں کو بیان اور واضح کرنے والے سینئر تجزیہ کار اور لکھاری آج کل اسی موضوع پر لکھ رہے ہیں۔ ن لیگ کے ایک بڑے سپورٹرتجزیہ کار جو پاکستانی کرکٹ کے بھی مدارالمہام سمجھتے ہیں، انہوں نے اس حوالے سے تابڑ توڑ پروگرام کئے اورنئی عسکری قیادت کے لئے ایک پورا روڈ میپ تجویز کیا۔ موصوف عدلیہ کو بھی مشورے دینے سے باز نہیں آئے اور قطری شہزادے کا خط پیش ہونے کے اگلے روز فرمانے لگے کہ اب تو یہ کیس ختم ہوگیا ہے، صرف شہزادے سے خط کی تصدیق کا پوچھنا باقی ہے، وہ ہاں کر دیں تو پھر کیس ختم ہوگیا۔ ہم نے تو یہی سنا تھا کہ زیرسماعت کیس کے بارے میں اس طرح کے تبصرے اور فاضل جج صاحبان کوایسے لوڈڈ مشورے دینا توہین عدالت ہے ۔

زیرسماعت کیسز پر ن لیگ کے خلاف تبصرہ کرنے والے اینکرحضرات بھی غلط کر رہے ہیں اوروہی غلطی کرکٹ اور سیاست کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے والے تجزیہ نگار کر رہے ہیں۔ پیمرا کے متحرک سربراہ کو اس طرز کے پروگراموں کی طرف بھی دیکھنا چاہیے ۔اگلے روز ہمارے ایک سینئر لکھنے والے نے بھی نئے چیف کو یہی مشورہ دیا ۔ دراصل جنرل راحیل شریف کے حوالے سے میڈیا کوریج کچھ زیادہ ہی ہوتی رہی، بعض اوقات یہ حد سے تجاوز کرتی محسوس ہوئی۔ تجزیہ کاروں اور اینکرز کے ایک گروپ نے وزیراعظم نواز شریف کو ہدف تنقید بنایا اور اس شوق میں وہ پیش گوئیوں پر بھی اتر آئے۔ ایسی بہت سی پیش گوئیاں باﺅنس ہوئیں، مگران کے ”حوصلے“ اور ”جرات“ کو کم نہ کر پائیں۔ کئی بار یوں معلوم ہوا جیسے یہ لوگ ہر حال میں حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں، خواہ یہ فوجی مداخلت کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو۔ ظاہر ہے یہ غلط اور غیر جمہوری رویہ تھا۔ اس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے، مگر پاکستانی تناظر میں پاور پالیٹکس کے اپنے کچھ زمینی حقائق ہیں، جنہیں نظرانداز نہیں کیا جاتا ہے نہ کرنا چاہیے ۔

ہماری سول حکومتوں کو سب سے بڑا شکوہ یہ ہے کہ انہیں اقتدار تو ملتا ہے اختیار نہیں۔ شائد ہمارے سول حکمران کئی سو ارب کا بجٹ اپنی ترجیحات(بیشتر اوقات جو ناقص اور بچکانہ ثابت ہوتی ہیں)کے مطابق خرچ کرنے کو اختیار نہیں سمجھتے۔ تباہ حال سکول سسٹم، بربادی کی حد کو چھوتے ہسپتالوں ، گندے پانی کے باعث کروڑوں ہیپاٹائٹس کے مریضوں اور خوفناک سطح تک پہنچی آلودگی کو نظرانداز کر کے ڈیڑھ ، دو ارب روپے ٹرین پراجیکٹس میں اڑانے، مختلف شہروں میں پچاس، ساٹھ ارب کی مالیت سے میٹرو بسوں کے غیر دانشمندانہ منصوبے بنانے کا پورا اختیار منتخب سول حکمرانوں کو حاصل ہے۔ اربوں روپے اپنی تشہیر پر اڑا دیں، شہر کے ہر درخت ، ہر کھمبے پر وزیراعلیٰ کی تصاویر والے بینر لگائیں، لیپ ٹاپ کے بیگس سے لے کر ہر چیز پر تصویر لگا دیں ، کوئی انہیں روکنے کی جرات نہیں کر سکتا۔ اپنے خاندان اور برادری کو تمام اہم عہدے بانٹ دئیے جائیں۔ غیر منتخب اہل خانہ کھلم کھلا اہم ترین وزارتوں کی نگرانی کریں۔اعلیٰ شخصیات کے قریبی عزیز جو صوبائی اسمبلی کے رکن تک نہ ہوں، ان کے بارے میں عام تاثر ہو کہ صوبہ وہی چلا رہے ہیں۔ ایسے وزیر جن سے استعفا لیا گیا ہو، مگر عملاً تمام وزارتی استحقاق اور سہولتیں وہ استعمال کرتے رہیں۔ یہ سب وہ چیزیں ہیں جن کی مہذب جمہوری دنیا میں قطعی اجازت نہیں۔ کوئی تصور کر سکتا ہے کہ امریکی صدر اوباما کی اہلیہ میشل اوباما وائٹ ہاﺅس میں امریکہ وزارت اطلاعات چلائیں، میڈیاسیل کھلم کھلا کام کریں ، جن کا سب سے بڑا مقصد اپوزیشن لیڈر کی تذلیل اور تضحیک کرنا ہو؟

اسی طرح برطانیہ، فرانس، جرمنی وغیرہ میں اس سب کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ حتیٰ کہ بھارت تک میں یہ ممکن نہیں۔ قوانین کی خلاف ورزی توخیر جرم ہے ہی، جن معاملات میں قوانین اجازت دیں، مگر اخلاقی طور پر درست نہ ہو،وہاں بھی رضاکارانہ طور پر گریز کیا جاتا ہے۔نئے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ صدر بننے کے بعد بھی اپنے کاروبار کو جاری رکھنا چاہتے تھے، وہ کہتے رہے کہ قوانین مجھے اس سے نہیں روکتے۔ امریکی روایات نے انہیں مجبور کر دیا،اپنے کاروبار سے الگ ہونے کا اعلان کرناہی پڑا۔ ہمارے ہاں تمام قوانین ، جمہوری روایات کو اس لئے بلڈوز کر لیا جاتا ہے کہ حکمران ان چیزوں کو دیکھنے والوں، احتساب کرنے والے اداروں کومستحکم نہیں ہونے دیتے۔ ہمارا سسٹم اس قابل بنایا ہی نہیں جاتا کہ وہ حکمرانوں کی خواہشات کے آگے بند باندھے، بیرئر کھڑے کرے۔ صرف ایک ادارہ فوج کا ایسا ہے جس کا اپنا سسٹم ہے اور جو سول کی براہ راست مداخلت سے محفوظ ہے۔ اس ادارے کے پاس ایک خاص سطح کی قوت بھی موجود ہے اور وہ کسی حد تک سویلین دباﺅ کی مزاحمت بھی کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب تمام سویلین ادارے فیل ہوجائیں، منتخب وزیراعظم عملی طور پر بادشاہ سلامت کی حیثیت اختیار کر لیں، تب تمام نگاہیں فوج کی طرف اٹھتی ہیں کہ کوئی تو ہو جو بڑھتے ہوئے ہاتھوں کو روکے اور اپوزیشن کو کچھ سپیس دلوائے ۔ یہ وہ اہم ترین فیکٹر ہے جو پاکستان میں سول ملٹری کشمکش کو جاری رکھتا ہے، جاری رکھے گا۔تجاوز خاکی والے بھی کر جاتے ہوں گے، مگر بیشتر کیسوں میں سول حکمرانوں کو آمر بننے سے روکنے کی خواہش ہی اس کشمکش کا باعث بنتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے