⁠⁠⁠⁠⁠کہاں گیا نیشنل ایکشن پلان؟؟

یہ ان دنوں کی بات ہے جب پنجاب میں ریاض بسرا کا نام دہشت کی علامت تھا،، ایک ٹانگ سے معذور اور لنگڑا کر چلنے والے ریاض بسرا کی موجودگی کی اطلاعات پر پولیس افسران چھٹیوں پر جانے کا سوچا کرتے تھے، اور ریاض بسرا بھی صرف شیعہ ہونے کا کہہ کرکسی بھی شخص کو قتل کرنے کا گویا استحقاق رکھتا تھا،، اہم شخصیات کے ساتھ تصاویر بنوانے والا ریاض بسرا پنجاب میں ہر دہشتگردی کی بڑی واردات کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا تھا لیکن پھر حکومتی مشینری حرکت میں آئی اور پنجاب پولیس کے ایک سینئر افسر نے ریاض بسرا کو ایسے ہی ماردیا جیسے پنجاب پولیس مارنے کی ماہر ہے،،یہ الگ بات ہے کہ یہ پولیس افسر جو اعلیٰ سیاسی شخصیت کا قریبی عزیر تھا وہ بھی ایک ایسی ہی راہ چلتی گولی کی زد میں آکر مارا گیا،،،

اس کے مرنے پر لوگوں نے سوچا کہ شاید پنجاب سے حق نواز جھنگوی کی سوچ رکھنے والے اب ختم ہونے کو ہیں لیکن پھر ریض بسرا کا دوسرا جنم ہوا ، جی ہاں ملک اسحق نے ریاض بسرا کے انداز میں ہی صرف مسلکی اختلاف پر شیعوں کو قتل کرنے کا فریضہ سرانجام دینا شروع کردیا،،سال 1996 میں ملک اسحق نے اکرم لاہوری اور ریاض بسرا کے ساتھ ملکر لشکر جھنگوی نامی جس تنظیم کی بنیاد رکھی تھی اب اسی کی سربراہی بھی سنبھال لی،،دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام حکومتوں کے علم میں یہ بات رہی کہ ملک اسحق دہشت گردی میں ملوث ہے،،

سال 1997 میں ایک بار گرفتار ہونے پر ملک اسحق نے 102 افراد کے قتل کا خود اعتراف کیا لیکن اس کے باوجود ان کو گرفتار کرکے مقدمہ چلانے کا نہ سوچ سکا، ان کے خلاف جو بھی مقدمات بنے اس میں شواہد اس قدر کمزور رکھے گئے کہ عدالتیں ان کا سزا نہ دے سکیں اور شاید دینا بھی نہیں چاہتی تھیں،،آخر ججز بھی تو بال بچے دار ہیں ،،،لیکن حکومت کو بین الاقوامی دباؤ اور دیگر مجبوریوں کے باعث ملک اسحق کو جیلوں میں رکھنا پڑا،،،

15 سال جیل میں رہنے کے باوجود ملک اسحق کا نیٹ ورک روز اول کی طرح چلتا اور پھلتا پھولتا رہا،،جس کے بعد اکتوبر2011 میں تمام مقدمات میں ضمانت ہونے پر انہیں رہا کردیا گیا،،صرف ملتان شہر میں ان کے خلاف 32 ہائی پروفائل کیسز درج تھے لیکن ان کیسز پر حکومت کچھ نہ کرسکی،، لیکن اس رہائی میں بھی گھر پر نظر بند رہے جہاں نامعلوم افراد انہیں حفاظت فراہم کرتے رہے، اور پھر 29 جولائی کا دن آن پہنچا جب انہیں دو بیٹوں اور ساتھیوں سمیت پولیس مقابلہ میں ہلاک کردیا گیا،،،

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک اسحق کو اگر اسی انجام سے دوچار ہونا تھا تو اتنے سال تک اس کی دیکھ بھال اور حفاظت کے نام پر کروڑوں روپے کے اخراجات کس لیے؟ یہ کام تو کئی سال پہلے بھی ہوسکتا تھا،، تاہم سیکیورٹی سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ اینف از اینف،،،

اب نیشنل ایکشن پلان اور ملک کی بقا کا مسئلہ تھا جس کی وجہ سے اسے مزید وقت نہیں دیا جانا چاہیے تھا،،ملک اسحق وہ شخصیت تھا جسے ماضی میں حکومتیں جھنگ اور دیگر علاقوں میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے کبھی استعمال کرتی رہیں اور کبھی جی ایچ کیو حملہ کے بعد حملہ آوروں سے مذاکرات کے لیے،،،لیکن بلوچستان میں ہزارہ برادری پر ہونے والے حملوں کے ماسٹر مائنڈ عثمان سیف اللہ کرد اور ملک اسحق کے گٹھ جوڑ کے بعد کسی بات کی وضاحت کی ضرورت نہیں رہ گئی تھی،،

عثمان کرد اور ملک اسحق کے رابطے اس وقت کی انٹیلی جنس نے مانیٹر کیے اور تمام رپورٹس دیں لیکن نامعلوم وجوہات کی بناٗ پر ان کو کبھی ظاہر نہیں کیا جاسکا،،تاہم ڈیڑھ سال قبل عثمان کرد کی ہلاکت کے بعد بلوچستان میں شیعہ برادری پر حملوں میں کچھ کمی دیکھنے میں آئی لیکن لشکر جھنگوی کا نیٹ ورک ابھی بھی چل رہا ہے،،پنجاب حکومت نے اپنی مجبوریوں کے باعث ملک اسحق کو قومی سیاست کے دھارے میں لانے کی کوشش کی اور سابق سپاہ صحابہ پاکستان اور موجودہ اہل سنت والجماعت کے سربراہ احمد لدھیانوی نے رانا ثنااللہ کے ساتھ ملکر انہیں قائل کیا،،وہ سیاست میں آنا چاہتے تھے لیکن اپنا ٹریڈ مارک یعنی بندے مارنے والا تاثر انہیں سیاست میں قبول نہ کرسکا،اپنی جماعت کے سربراہ سمیت لوگ انہیں قبول نہ کرسکے اور نتیجتاً ملک اسحق ایک مرتبہ پھر اسی راہ پر چل پڑے،، کوئٹہ میں ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ میں ان کا نام بار بار آیا، کراچی میں بعض واقعات میں ان کا نام لیا گیا ،،چندے کے معاملے ہوئے ،،

اہل سنت والجماعت کے اندر توڑ پھوڑ ہوئی،،اور پھر وہی ہوا جو پنجاب حکومت اور پنجاب پولیس کا انداز ہے،،25 گاڑیوں کے کانوائے میں منہ پر نقاب چڑھائے کمانڈوز کے ساتھ سفر کرنے والے ملک اسحق اتنی آسانی سے مارے گئے کہ صرف چھ پولیس اہلکار معمولی زخمی ہوئے اور دوسری جانب 16 بندے پھڑکا دیے گئے،،،

ملک اسحق تو چلے گئے لیکن لشکر جھنگوی جو بین الاقوامی اور ملکی سطح پر چندے وصول کرنے والی بڑی جماعت تھی اب باقی رہے گی یا نہیں،،اس بارے میں کنفرم ہوگیا ہے کہ یہ جماعت اب بھی بڑی آزادی کے ساتھ آپریٹ کررہی ہے،،، بی کلاس کی قیادت نے ٹیک اوور کرکے اس کا روز اول کا ایجنڈا سنبھال لیا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک اسحق کا معاملہ ایپکس کمیٹی کی سطح پر طے کیا گیا ،،ملک اسحق کی ہلاکت سے ٹھیک ایک روز قبل مجلس وحدت المسلمین پوری پارٹی لیکر جس طرح وزیرداخلہ چوہدری نثار سے ملے وہ بھی سخت فیصلوں کی نشاندہی کرتے ہیں،،

لیکن اس کے بعد اچانک سے پی پی 78 میں مسرور نواز جھنگوی کا الیکشن جیت جانا اس بات کی نشاندہی ہے کہ ملک میں انتہاپسندی کی سوچ اپنی جگہ موجود ہے،کالعدم تنظیموں کے خلاف سوچ کیا ہوگی اس حوالے سے نیشنل ایکشن پلان کی واضح ڈائریکشن کے بعد بھی خاموشی ہے،،،کیا اس ملک کی قسمت میں ایسے ہی یروقت کا سیکیورٹی تھریٹ لکھا گیا ہے؟؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے