دوسروں کے حق کے لیے بول!

اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا۔۔۔!

اس سال دنیا بھر میں انسانی حقوق کا عالمی دن (ہیومن رائٹس ڈے ) بھی اسی تھیم ،اسی سوچ کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق زید رعد الحسین نے اس دن کی مناسبت سے اپنے ایک پیغام میں کہا کہ عوام کو اس بات کا تعین کرنا ہوگا کہ اپنے حقوق کےاستعمال کے لیے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔انہوں نے رواں سال انسانی حقوق کے دن پر گلوبل مہم کا آغاز کیا اور اسے نام دیا ۔

دوسروں کے حقوق کے لیے کھڑے ہوجائیں، آج!

Stand up for someone’s rights today

اس وقت دنیا میں کہیں نہ کہیں انسان کرب والم سے گزررہے ہیں ، اعلی ٰ اقدار پرحملے ہورہےہیں ، عدم برداشت اور نفرت کو پھیلایا جارہا ہے، دنیا میں تقسیم کے نظریات سے خودغرضی بڑھ رہی ہے، تنہائی اور تشدد میں اضافہ ہورہاہے ، اور نفرت کی یہ زہریلی لہر ہمارے معاشروں میں بڑھ رہی ہے ، پُرامن معاشروں کے بہت گہرے اور اہم اصولوں کو سخت خطرہ لاحق ہے ، جس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے حق کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا جائے۔

اقوام متحدہ کے رکن ممالک ہر سال 10دسمبر کو انسانی حقوق کو عالمی سطح پر منارہے ہیں ۔ اس دن کو منانے کا مقصد انسان کے بنیادی حقوق کا تحفظ اوربہتر زندگی گزارنے کے لیے اچھے ماحول کو یقینی بنانا ہے۔ اس موقع پر دنیا بھر میں سیمینارز، کانفرنسز ، ورکشاپس ، مذاکروں ، مباحثوں و دیگر تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے چارٹر اور قرارداد کی رو سے دنیا بھر کے انسانوں کو ہر طرح کے حقوق جن میں جینے کا حق، امتیازسے پاک مساوات یا برابری کا حق، اظہار رائے کی آزادی، معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق جن میں روزگار، سماجی تحفظ، تعلیم، صحت، ترقی اور حق خودارادیت اور دیگر حقوق شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے رکن ممالک اور انسانی حقوق کے چارٹر پر دستخط کرنے والے ممالک پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو یہ تمام حقوق نہ صرف فراہم کریں بلکہ انہیں مقدم جانیں۔

لیکن اس کے باوجود آج دنیا کے بیش تر ممالک میں کہیں رنگ و نسل کے نام پر ، کہیں ذات پات کے نام پر ، تو کہیں مذہب کے نام پر انسانی حقوق کی خلاف
ورزیوں ، اور انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ جاری ہے۔جبکہ اپنے قانون پر عمل درآمد کروانے میں اقوام متحدہ کا کردار انتہائی کمزور ہے،

انسانی حقوق کے عالمی دن پر امریکا اور اقوام متحدہ نے چین پرسیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے دباؤ بڑھا دیا ہے ،

آج بھی ترقی یافتہ ، اور انسانی حقوق کے تحفظ کے سب سے بڑے علمبردار ملک امریکہ میں انسانی حقوق کے معاملے میں پستی کا یہ عالم ہے کہ سیاہ فام کے بچوں کے علیحدہ اسکول ، علیحدہ بسیں، اسپتال، ہوٹل، کلب، اور آبادیاں تک علیحدہ ہیں ۔

موجودہ صورتحال میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں عروج پر ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کے پر خچے کر دیئے گئے ہیں ۔ طاقتور ملک کمزور پر مظالم کی تاریخ رقم کر رہے ہیں ۔

بات کہاں سے شروع کریں اور کہاں ختم ۔ صورتحال نہایت ہی گھمبیر ہے۔

پاکستان کی بات کریں ، لاہور پاکستان کا دل ہے تو کراچی منی پاکستان ۔کراچی میں شاید پورے ملک کی نسبت زیادہ تعداد میں انسانی حقوق کی تنظیمیں کام کر رہی ہیں ۔لیکن ان کا کردار بھی معنی خیز ہی لگتا ہے۔

ہائی پروفائل کیس میں ڈآکٹر عافیہ کا اغو ا، اور اس طرح کے ہزاروں اغوا کراچی میں ہوتے رہے ، لیکن تنظیمیں خاموش رہیں۔اغوا برائے تاون ہو ، ٹارگٹ کلنگ، یا گھریلو تشدد پولیس کا کام قابل ذکر نہیں لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کا خاطر خواہ کام نہ کرنا بھی تشویش میں ڈال دیتا ہے۔

کوئٹہ سے کراچی تک پیدل سفر کر کے دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرادی جاتی ہے اور یہ کام ماما قدیر اور انکے ساتھ دیگر خواتین و خضرات اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے کرتے ہیں مگر یہ تنظیمیں خاموش رہتی ہیں۔ تنظمیں خاموشی کا روزہ اس وقت کھولتی ہیں جب ان کی ڈوری ہلائی جاتی ہے ۔انہیں جب کہا جاتا ہے کہ اب مظاہرہ بھی کریں اور سیمینا ر بھی، اب سڑک بھی بلاک کریں اور شہر کو بھی بند کریں تو یہ نام نہاد تنظیمیں لنگوٹ باندھ کر میدان میں آتی ہیں اور اپنے آقاﺅں کو خوش کرنے کیلئے وہ سب کچھ کرتی ہیں جو ان کو کہا جاتا ہے۔ کراچی سے باہر نکلیں پنجاب کا رخ کریں ، اسلام آبا د کی بات کریں تو آمنہ مسعود جنجوعہ پارلیمنٹ کے سامنے سینکڑوں لاپتہ افرا دکے لواحقین کے ساتھ دھرنا دئیے بیٹھی نظر آتی ہیں۔ وہاں بھی انسانی حقوق اور اسکے علمبر دار کہیں نظر نہیں آتے۔ وہ بچے ،بوڑھے ، جوان سبھی اپنے پیاروں کی تصاویر سینوں سے لگائے نم ناک آنکھوں کے سوالیہ نشان بنے بیٹھے ہیں اور وہ سوال یہ ہے کہ ہمارے پیارے کہاں ہیں؟ کون انہیں ڈھونڈے گا؟ کب زندگی ہمارے گھروں کو رونق بخشے گی؟

عالمی دن پرپھر کوئی سیاسی شخصیت اپنے خطاب میں عالمی برادری کو پیغام دے گی کہ ہر طرف چین ہی چین ہے۔ اسے کہاں آوازیں سنائی دیتی ہیں ڈرون حملوں میں مرنے والوں کے لواحقین کی۔ ان زخمیوں کی۔

صوبہ خیبر پحتونخواہ کی حکومت اور عوام جو اس وقت انسانی حقوق کے سب سے زیادہ متاثرین ہیں۔کہیں بم دھماکے کہیں خودکش حملے، کہیں ڈرون حملے ۔ انہی سب چیزوں سے تنگ آکر ان دنوں وہ سبھی سڑکوں پر ہیں۔ اور انسانی حقوق کے عالمی علمبرداروں کیلئے سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں۔

پڑوسی ملک افغانستان کی بات کریں یا کشمیر کی ، وہاں بھی صورتحال کوئی تسلی بخش نہیں۔ بھارتی فوج گذشتہ کئی دہائیوں سےکشمیری عوام کو اپنے ظلم
وستم کا نشانہ بنارہی ہے ۔8 جولائی کو برہان وانی کا بے دردی سے قتل اور بے حرمتی اس طرح کے کئی واقعات روز کشمیر میں جنم لیتے ہیں لیکن اقوام متحدہ کی خاموشی ٹوٹ ہی نہیں رہی۔ کیا ان کشمیریوں کو بنیادی انسانی حقوق حاصل نہیں ؟ کشمیر کے بچوں ، بوڑھوں اور خواتین پر جاری ظلم وستم کے داستانیں ریکارڈ پر موجود ہے اور کئی افراد شہید ہوچکے ہیں ۔کیا ان کشمیری معصوم بچوں اور عزت دار خواتین کو انسانی حقوق حاصل نہیں ؟

کہاں ہیں انسانی حقوق کی ملکی اور غیر ملکی تنظیمیں کیا انہیں کشمیر ، برما ،مصر ، عراق، افغانستان، اور وہ تمام ممالک نظر نہیں آتے جہاں مسلمان ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں؟؟؟

بنگلہ دیش کی ابتر صورتحال آج دنیا میں کسی کو نظر نہیں آتی جہاں حکومت ، ایک جماعت کوصرف اس لیے نشانہ بنارہی ہے کہ تقسیم سے قبل انہوں نے پاکستان کا ساتھ دیا، سیکڑوں رہنماوں کو پھانسی دے دی گئی ، ہزاروں پابند سلاسل ہیں اور کئی پر پابندی ہے۔

بہار عرب کے بعدسے مشرق وسطیٰ کے کئی ملکوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں ، اتحادی افواج اپنے اہداف حاصل کرنے کے لیے بمباری کرتی ہیں، جس میں اسکول ، اسپتال اور گھر بھی زیر اثر آتے ہیں، لاکھوں کی تعداد میں مہاجرت پر مجبور ہیں لیکن کوئی انہیں پناہ دینے کو تیار نہیں ، کبھی سردی میں کھلے آسمان تلے بھوکے سسکتے مر جاتے ہیں تو کبھی شدید گرمی میں پیاس سے نڈھال دم توڑ جاتے ہیں ۔کچھ سمندر کی بے رحم موجوں کا لقمہ بن جاتے ہیں تو کبھی سرحد پار کرتے سیکورٹی فورسز کی گولیوں اور لاٹھیوں کی زد میں آتے ہیں ۔لیکن ان میں اکثریت کا تاحال کوئی سدباب نہیں کیا گیا،

اقوام متحدہ سے نہ صرف مقبوضہ کشمیر بلکہ پور ی دنیا کے مظلوم اور محکوم جبر اور ظلم سہنے والے لاکھوں نہیں کروڑں افراد یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ انسانی حقوق کا عالمی دن منانے سے پہلے ان پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کریں اور انسانی حقوق کی ان سنگین خلاف ورزیوں کا نوٹس لیں جو پوری دنیا میں ہو رہی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے