NFC ایوارڈ، کشمیر اوربلتستان

گزشتہ کل یہ خبر بریک ہوئی کہ مشترکہ مفادات کونسل نے این ایف سی ایوارڈ میں کشمیر کی شمولیت کے ضمن تین صوبوں نے مخالفت کر دی اور صرف صوبہ پنجاب نے حمایت کی ۔۔۔۔
اس پہ کل سے تبصرے چل رہے ہیں
میرے مطابق وزیراعظم آزادکشمیر نے صوبائی وزرا اعلی سے اپنی ملاقاتوں میں اس اہم ایشو کو سرفہرست رکھا اور نیم رضامندی بھی حاصل ہوئی ، جو وزیراعظم آزادکشمیر کی اس ضمن دلچسپی اور کوشش کا بین ثبوت ہے

یہ قضیہ آج کا نہیں !

جون 2010ء میں بھی فاروق حیدر وزیراعظم آزادکشمیر تھے انہوں نے اس وقت بھی مطالبہ کیا تھا کہ آزاد کشمیر‘گلگت بلتستان اور فاٹا کو بھی این ایف سی ایوارڈ سے حصہ دیا جائے ، آزاد کشمیر کے لوگوں کے حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتا ۔ ہمارے مفادات کا بھی تحفظ ہونا چاہیے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا تھا کہ آزادکشمیر کے لوگوں کے حقوق پر سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔ جب تک اس کرسی پر ہوں ریاست کے حقوق کا تحفظ کرنامیری ذمہ داری ہے۔

لیکن ستم یہ ہے کہ جب اسلام آباد اور مظفر آباد میں ایک ہی پارٹی برسراقتدار نہ ہو تو ایسا مطالبہ کسی طور منظور نہیں ہوتا ۔۔۔

آزادکشمیر میں جب مسلم کانفرنس کی حکومت تھی تو پاکستان میں پیپلزپارٹی برسراقتدار تھی پھر جب آزادکشمیر میں چوہدری عبدالمجید کی حکومت بنی تو پاکستان میں ڈیڑھ سال بعد مسلم لیگ ن کی حکومت آ گئی ۔ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے آواز اٹھائی لیکن کوئی خاص شنوائی نہ ہوئی ۔۔۔

2015ء میں جب صوبے ایک بار پھر این ایف سی ایوارڈ کے ضمن اختلافات کا شکار تھے تو اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے مل بیٹھے ، اجلاس میں دیگر معاملات زیربحث لائے جانے کے بعد مرکزی حکومت نے تجویز پیش کی کہ آزادکشمیر کو بھی این ایف سی ایوارڈ کیلئے باضابطہ ممبر بنایا جائے اس تجویز کو چاروں صوبوں نے مسترد کر دیا صوبوں کا کہنا تھا کہ محاصل سے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کو فنڈز نہیں دیئے جا سکتے ۔

یاد رہے آزادکشمیر این ایف سی ایوارڈ میں باضابطہ رکن ننہیں لیکن 2.7 فیصد فنڈز وصول کرتا ہے

ستمبر 2016 ء میں سینٹر سراج الحق امیر جماعت اسلامی پاکستان نے پرزور مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ آزاد کشمیر اور جی بی کو سی پیک سمیت این ایف سی میں حصہ دیا جائے، سراج الحق
آزاد کشمیر اور جی بی کو سی پیک سمیت این ایف سی میں حصہ دیا جائے.
جماعت اسلامی نے آزاد کشمیراور گلگت بلتستان کو چین پاک اقتصادی راہداری اوراین ایف سی ایوارڈ میں حصہ دینے کامطالبہ کردیا.
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر پاکستان کے دفاع کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ حکمران اسلام آباد کے بند کمروں کی بجائے آزاد کشمیراور گلگت بلتستان کی عوام کو پالیسیوں میں شامل کریں۔ انکا کہنا تھا کہ حکومتی غلط پالسیوں کی وجہ سے ملک میں شورش ہے، کراچی، بلوچستان، فاٹا اور کے پی میں صورتحال خراب ہے، جبکہ جو علاقے پر امن ہیں ان کو شورش کی طرف دھکیلا جارہاہے۔
امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا سی پیک میں آزاد کشمیر کو شامل اور گلگت بلتستان کے خدشات دور کئے جائیں۔ اس کے علاوہ ان علاقوں میں بلدیاتی الیکشن کروا کر اقتدار عوام کے سپرد کیا جائے ۔

گزشتہ دنوں وزیراعظم آزادکشمیر نے وزیراعلیٰ سندھ سے ملاقات کے بعد وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے یقین دلایا تھا کہ وہ آزاد کشمیر حکومت کے این ایف سی فنڈز میں اضافے کے مطالبے کی حمایت کریں گے۔ واضح رہے کہ آزاد کشمیر حکومت کی این ایف سی میں باقاعدہ ممبر شپ نہیں ہے۔ اس بات کی یقین دہانی وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے وزیر اعظم آزاد جموں و کشمیر راجہ فاروق حیدر سے بات چیت کرتے ہوئے کیا تھا جنہوں نے پختونخوا ہاؤس اسلام آباد میں ان سے ملاقات کی تھی ۔ دونوں رہنماؤں نے باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہء خیال کیا وزیر اعلیٰ نے کہا کہ وہ مناسب فورم پر آزاد کشمیر حکومت کے مطالبے کی حمایت کریں گے۔

اب کی بار اسلام آباد اور مظفر آباد دونوں جگہوں پہ ایک ہی پارٹی برسراقتدار ہے لیکن اس ایشو پہ دیگر صوبے رضامندی ظاہر نہیں کر رہے ۔
وزیراعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر نے اس مسئلہ کو بہت سنجیدگی سے لیا ہوا ہے ایسے میں اگر وہ سندھ اور خیبر پختونخواہ کی حکومتوں سے اتفاق حاصل کرنے کیلئے آزادکشمیر میں موجود پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی قیادت کو ایک ٹیبل پہ بٹھائیں . جماعت اسلامی پاکستان پہلے سے ہی حکومت آزادکشمیر کیلئے ہر فورم پہ آواز اٹھا رہی ہے ۔ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی کشمیری قیادت کو یہ ٹاسک دیا جائے کہ وہ اپنی اپنی پارٹی کی صوبائی حکومتوں سے باضابطہ رابطہ کر کہ انہیں اس پہ قائل کریں تاکہ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان بھی این ایف سی ایوارڈ میں ممبر شپ دی جائے۔

خداراہ کریڈٹ لینے اور دینے کی روایتی دوڑ سے بالا ہو کر اس مسئلہ کو حل کروایا جائے وگرنہ ریاستی عوام تک اس کا مسیج اچھا نہیں جا رہا

صوبائی اور مرکزی حکومت کو بھی اس ایشو کو سنجیدگی سے لینا چاہئے وگرنہ اس سے اہل کشمیر میں بد دلی ، بد اعتمادی اور احساس محرومی میں مزید اضافہ ہوگا جو کسی صورت مظفر آباد اور اسلام آباد کے مفاد میں نہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے