میری لاش کی شناخت کون کرے گا

فضائی حادثوں اور خودکش حملوں کے بعد لاشوں کی شناخت کا عمل بھی انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے جو جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو کرب میں مبتلا کئے رکھتا ہے۔

ہم زندوں کی شناخت کر نہیں پاتے اور لاشوں کی شناخت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم زندوں کی شناخت کرلیتے تو یوں لاشوں کی شناخت کرنے کی نوبت نہ آتی۔ زندہ لوگوں کو منتخب کرتے جو دیگر عہدوں کے ساتھ ساتھ زندہ افراد کو قومی ائیر لائن کے اہم عہدوں پر تعینات کرتے اور زندگی کا یہ تسلسل قائم رہتا-

مگر شاید ہم اپنے نمائندوں کو منتخب کرتے وقت خود بھی مردہ ہوجاتے ہیں۔ یوں زندگی کا یہ تسلسل بار بار ٹوٹ جاتا ہے۔ کبھی دہشت گردی کی صورت میں اور کبھی حادثات کی صورت میں۔

اب یہ بات سمجھ آجانی چاہئے کہ اداروں کی مضبوطی، بہتر پالیسیوں اور گڈ گورننس کا تعلق براہ راست عوام کے ووٹوں سے ہوتا ہے۔ اگر ووٹ ڈالتے وقت سوچ کی سمت درست نہیں ہوتی تو پھر ہر چیز بے سمت ہوجاتی ہے۔ سفر بے سمت۔ رہنما بے سمت۔ کارواں بے سمت۔ ہمارے جہاز بھی اپنی سمت بھول کر پہاڑوں سے جا ٹکراتے ہیں۔

سمتوں کا تعین کرنے سے پہلے ہمیں اپنی لاشوں کی شناخت کرنی ہوگی۔ اس بات کا اندازہ کرنا ہوگا کہ ہم مرچکے یا ابھی زندہ ہیں۔ میں بھی اس مردہ معاشرے کی ایک زندہ لاش ہوں۔ میری لاش کی شناخت کون کرے گا۔

کوئی تو ہو ایسا جو یہ پہچان پائے کہ میں ایک لاش ہوں۔ چلتی پھرتی لاش۔ اپنے جیسی بہت سی لاشوں سے گفتگو کرتی لاش۔ مجھ پر جو گِدھ منڈلاتے ہیں وہ بھی مردہ ہیں۔ اُن کی نہ آواز سنائی دیتی ہے نہ وہ دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ مردہ لاشوں پر منڈلانے والے گِدھ زندہ گِدھ ہوتے ہیں۔

چیختے چلاتے گِدھ ۔ شور مچاتے گِدھ ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فضائی حادثوں میں جاں بحق ہو نے والوں کے لواحقین کو ان کا آخری دیدار تک نصیب نہیں ہوتا۔

کس قدر بدقسمتی ہے کہ جو شخص مبلغ اسلام ہو۔ دعوتِ حق کے لئے گھر سے نکلا ہو اور اس کی موت اس طرح ہو کہ نہ تو چہرے کا نور کوئی دیکھ سکے اور نہ ہی جسدِ خاکی سے خوشبو آنے کا کوئی دعوی کرسکے۔

مگر یہاں سب ممکن ہے۔ ایسے دعوے بھی کئے جاسکتے ہیں اور بہت کچھ دکھائی بھی دے سکتا ہے۔ ہمیں ہمیشہ تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ویسے یہ بات تاریخ بتاتی ہے کہ جو لوگ زندگی میں بھی زندہ رہتے ہیں وہ مر کر بھی مرا نہیں کرتے۔

اگر کوئی معاشرہ زندہ لاشوں اور مردہ زندوں کے فرق کو سمجھ جائے تو وہ معاشرہ بھی ایک زندہ معاشرہ کہلاتا ہے۔ مردہ معاشروں میں زندہ لاشیں ہوتی ہیں۔

جبکہ زندہ معاشروں میں بظاہر مردہ نظر آنے والے زندہ لوگ۔۔۔ وہ لوگ جو اپنے کاموں میں زندہ رہتے ہیں۔ جو مرکر بھی معاشروں کو زندگی کے لئے آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔ معاشرے کے افراد کو زندگی کا پیغام دیتے ہیں۔

ہر صبح کی پہلی کرن کی طرح جو سورج سے زمین کی جانب پرندوں،حشرات، جانوروں اور انسانوں کو بیدار کرنے کے لئے آتی ہے۔

مجھے ایک ایسے شخص کی تلاش ہے جو میری لاش کی شناخت کر سکے۔ بشرط یہ کہ اس کی اپنی لاش کی شناخت بھی پہلے سے کوئی کرچکا ہو۔ تاکہ میں بھی کسی کو شناخت کرنے کے قابل ہوجاؤں اور یہ سلسلہ چل نکلے۔

یہاں تک کہ ایک ایسا مرحلہ آجائے کہ جب ہمیں شناخت کرنے اور شناخت کروانے کی ضرورت نہ پڑے اور ہم شناخت کے مرحلے سے آگے بڑھ کر خود شناسی کے قابل ہوسکیں اور بار بار مردم شماری کا مطالبہ کرنے کی بجائے مردم شناسی کی تعلیم دے سکیں۔ مردہ لوگوں کی گنتی کرنے سے بہتر ہے کہ زندہ لوگوں کو پہچانا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے