مفاہمت کی غلاظت اور بیچارا خواجہ

عروس البلاد کراچی شائد دنیا کاوہ واحد شہر ہے جہاں پانی سے لے کر سونے تک سب چوری ہوتا ہے۔ یہاں ایمبولینسیں ہر وقت مصروف رہتی ہیں اور لوگوں کو نظر کم گولیاں زیادہ لگتی ہیں۔ یہ وہ بدنصیب شہر ہے جہاں لوگ ٹیکس کم اور بھتہ زیادہ اور پابندی سے ادا کرتے ہیں اور جہاں مسلم تو مسلم غیر مسلم بھی فطرہ اور زکواۃ دیتے نظر آتے ہیں۔ دوستوں کراچی ایسا نہ تھا لیکن ناانصافیوں اور ظلم کے نتیجے میں پنپنے والی سیاست کی ایک ایسی فصل گذشتہ27سالوں سے کاٹ رہا ہے جس کا خواب نہ تو اس شہرنے اور نہ اس کے باسیوں نے دیکھا تھا۔

یہ غریب پرور شہر جس نے پاکستانیوں کے لیے ہی نہیں بلکہ اس خطہ میںآباد ہر قوم کے لیے اپنی باہیں وا رکھیں آج اپنے اور غیروں کے دیے ہوئے زخموں سے چور ہے۔ کبھی کسی آمر نے عوام کی امنگوں کو اپنے بوٹوں تلے روندا تو کبھی اس شہر کے باسیوں کو مذہب کے نام پر بے وقوف بنایا گیا، کبھی زبان اور قومیت کا لالی پوپ دیا گیا اور جب کوئی اور چورن نہ ملا تو مفاہمت کی سیاست تھوپ دی گئی۔واہ رے کراچی تیری قسمت۔

انقلاب چین کے عظیم رہنما ماوزے تنگ نے ایک بار کہا تھا کہ میری قوم ایک عرصے سے مغرب کی غلام تھی،افیون کی کاشت کرتی تھی اور جہالت کے گڑھے میں گری ہوئی تھی۔ میں نے ان جاہلوں کو پڑھانے کی کوشش کی تو انھوں نے علم کو جھٹلادیا۔ میں نے ان کے ووٹ کا حق ہمیشہ کے لیے ان سے چھین لیا اور صرف علم والوں کو اختیار دے دیا اور اسی گھسی پٹی جمہوریت سے چین میں انقلاب برپا کردیا۔ آپ کی تو الہامی کتاب کہتی ہے کہ جاننے والے اور نہ جاننے والے کبھی برابر نہیں ہوسکتے پھر آپ کے آئین میں جاہلوں کو اس فیصلے کا حق کیوں دیا ہوا ہے۔ اس عظیم رہنما کے یہ الفاظ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں لیکن ہم آج بھی جمہوریت بہترین انتقام کی رٹ لگائے بیٹھے ہیں اور انتقام بھی کس سے، اس عوام سے جو ، ان کوہی ووٹ دیتی ہے۔

سالوں بعد رب العزت کے کرم سے صوبہ سندھ اوراس کی عوام کو ایک قابل اور ایماندار پولیس سربراہ ملا وہ بھی اس مفاہمت کی سیاست کی نظر ہوگیا۔ ہم کیا صرف بھارتی فلموں کے” سنگھم” کے فلمی کارناموں پر ہی تالیاں بجانا جانتے ہیں یا اصل زندگی کے اس بہادر اور ایماندار پولیس افسر کو اس کا حق دلوانے کی بھی سکت رکھتے ہیں۔اس صوبے اور اس شہر کراچی کے باشعور عوام کو اس بات کا فیصلہ کرنا ہے کہ ہم اپنے گھر کی حفاظت کے لیے اپنے دروازے پر کسی کانے، لاڈلے یا جھینگو کو دیکھنا چاہتے ہیں یا ہم کو بے خوف اور ایماندار خواجہ کی ضرورت ہے۔ سسٹم اور ملک کو گالیاں دینے کے بجائے اسی بدبودار سسٹم سے لڑنے والے اس ایماندار افسر کا ساتھ دیں جو آپ اور آپ کے بچوں کے محفوظ مستقبل کے لیے اس غلاظت کو صاف کر رہاتھا۔ابھی تو پارٹی شروع ہوئی تھی کہ کرپٹ سسٹم نے رنگ میں بھنگ ڈال کر اس کو باہر کردیا۔

صاحبو!مرنا تو سب کو ہے، لیکن ڈر کر حق کا ساتھ نہ دینا مرنے سے پہلے مرنا ہے۔ فیصلہ آپ کو کرنا ہے،
مفاہمت کی غلاظت چاہیے یا خواجہ۔ ۔ ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے