خوشامد کے شِیرے میں‌ لُتھڑی سیاست

خوشامد کیا ہے ؟دو انسانوں کے مابین ایسے الفاظ جو سننے والا سمجھے کہ سچ ہے اور کہنے والا جانتا ہو جھوٹ ہے خوشامد کہلاتا ہے ۔خوشامدی ہر دور میں موجود رہے، فرعون کسی مالیخولیا میں مبتلا نہیں تھا کہ خدا ہونے کا دعوی کر بیٹھا، کچھ درباری لوگ تھے جو اسے رزق، عزت و دولت اور موت و حیات کا مالک باور کرواتے تھے اور وہ سمجھ بیٹھا کہ مصر کی نہریں اس کے حکم سے جاری ہیں اور موسی علیہ السلام کا خدا واہمے کے سوا کچھ نہیں ۔قارون بھی بھلا چنگا انسان تھا اس کے حاشیہ نشینوں نے اس کے کان میں یہ بات ڈالی کہ حضورِ والا آپ کے پاس جو دولت کے انبار ہیں یہ آپ کی محنت و حکمت کا نتیجہ ہے آپ نے کسی کا حق نہیں مارا اور نہ ہی ملک و قوم کے خزانے پر ڈاکہ ڈالا بس پھر کیا تھا کہ قارون بول اٹھا کہ موسی علیہ السلام کا خدا مجھ سے حسد کرتا ہے ، خدا کے قہار و جبار نے قارون کو خزانے سمیت زمین میں دھنسا دیا۔

ابھی کل کی بات ہے کہ مسٹر غلام محمد اپنے وقت کا افلاطون بھی تھا، ارسطو بھی تھا ۔ایک بار وہ دو تین دوستوں کو لے کر ہوا خوری کے لیے نکلے ان دنوں غالبا پہلی آٹھ دس منزلہ عمارت ”قمر ہاوس”کے نام سے تعمیر ہو رہی تھی ۔جب وہ اس کے قریب سے گزرے تو غلام محمد نے پوچھا کہ اتنی بڑی بلڈنگ کون بنوا رہا ہے ؟ کاسہ لیسوں نے سر ادب سے جھکاکر کہا ”حضور کے اقبال سے بن رہی ہیں ”ایک مسجد سے کچھ لوگ مغرب کی نماز پڑھ کر باہر نکل رہے تھے تو ان میں سے ایک بولا حضور کے اقبال سے آج کل مسجدیں خوب آباد ہیں اتنے نمازی پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئے سب آپ کی برکت ہے ۔غلام محمد کے منہ سے ہر وقت رال اور جھاگ بہتی تھی لیکن درباری اسے کوثر و تسنیم کے چھینٹے قرار دے رہے تھے ۔تاریخ میں کہیں یہ نہیں ملتا کہ کسی نے انہیں کہا ہو کہ حضورِ والا آپ فاتر العقل شخص ہیں ۔

اس طرح یاروں نے سکندر مرزا کو نام کی مناسبت سے”سکندر اعظم” بنا دیا جو حکومتوں پر حکومتیں فتح کرتے گئے فیلڈ مارشل ایوب خان کا احوال سب سے دلچسپ ہے ، ماہرین فن خوشامد کا ریکارڈ آج بھی توشہ خانہ میں موجود ہو گا ۔جس میں انہیں باقاعدہ خاندان ایوبی کی بادشاہت قائم کرنے کا مشورہ دیا گیا اور پھر کچھ لوگ سرکاری و حکومتی زبان کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایوب خان کو”ڈیڈی” کہہ کر مخاطب کیا جاتا ۔عہد ایوب میں ڈیگال فرانس کے صدر تھے ایوب خان کے طبلچیوں نے انہیں باور کروایا کہ بلا تکلف انچ ٹیپ لے کر اپنا قد ناپ لیں اور ڈیگال کے قد کی پیمائش منگوا لیں حضورِ والا کا قد ڈیگال کے قد سے ایک آدھ انچ زیادہ ہو گا اس دن سے ایوب خان ڈیگال کی طرح خود کو پاکستانی ”ڈیگال”کہلوانے کا شوق پالنے لگے ۔انہی مالشیوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو ”قائد
عوام ”،”فخر ایشیا”کہنا شروع کیا اور جب وقت آیا تو ”وعدہ معاف گواہ” تھوک کے حساب سے نکلنا شروع ہو ئے۔

اگر خوشامدیوں کی صحبت میسر آنا خوش قسمتی ہے تو فی زمانہ عزت مآب نواز شریف ، عمران خان اور بلاول زرداری واقعی خوش قسمت ہیں ۔طبلچی میاں نواز شریف کو قائد اعظم ثانی سے صلاح الدین ایوبی ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔یہی طبلچی تھے جنہوں نے 99 میں میاں نوازشریف کو کہا تھا قدم بڑہاو ”ہم تمہارے ساتھ ہیں”پیچھے مڑ کر بادشاہ سلامت نے دیکھا تو انہیں اپنا سایہ ہی نظر آیا ۔ان کے ایک بیربل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مشرف کے جوتے تک صاف کرنے کو تیار رہتا تھا۔

پی پی کے چیئرمین بلاول جو ابھی ڈھنگ سے گفتگو بھی نہیں کر سکتے طبلچی انہیں امت مسلمہ کا لیڈر اور عہد جدید کا سقراط کہہ رہے ہیں ۔

عمران خان بھی ماشااللہ اس باب میں خوش قسمت ہیں ۔ان کے بیربل شام کو بنی گالا میں باقاعدہ محفل سجاتے ہیں کپتان کو سامنے بٹھا کر قصیدہ گوئی کا مقابلہ ہوتا ہے قصیدہ خواں اس بات پر مصر ہیں کہ وہ پاکستان کے ”نجات دہندہ ” ہیں

جنرل (ر) راحیل شریف اس حوالے سے قسمت کے دہنی ثابت ہوئے مالشی شام کو سکرین پر بیٹھ جاتے اور انہیں پاکستان کا ماوزئے تنگ کہتے وہ یہ قصیدہ گوئی کرتے کہ جنرل کے جانے کے بعد پاکستان خدانخواستہ ختم ہو جائے گا ان کے جانے کے بعد مالشیوں کی زبانیں جنرل باجوہ کی تعریف کے گن گا رہی ہیں ۔اگلے روز ایک فاضل کالم نگار نے ”بھاگو بھاگو باجوہ آگیا” کے نام سے کالم لکھ ڈالا ۔

خوشامد کی قینچی عقل و فہم کے پر کاٹ کر انسان کے ذہن کو آزادی پرواز سے محروم کر دیتی ہے ۔خوشامدیوں میں گراانسان شیرے کے قوام میں پھنسی ہوئی مکھی کی طرح بے بس اور معذور ہے ، رفتہ رفتہ اس کے حواس معطل ہو جاتے ہیں اور وہ وہی کچھ دیکھتا ، سنتا اور بولتا ہے جو خوشامدی کیڑے کون کی طرح گھس کر اس کے پیٹ میں پلتے رہتے ہیں ۔اس کے فیصلے ناقص ہوتے ہیں اور اس کی رائے خوشامدیوں کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے ۔خوشامدی تو اسی چکر میں رہتے ہیں کہ ان کی روزی روٹی لگی رہے جب برا وقت آتا ہے تو انہیں ان مینڈکوں کی طرح ادراک ہو جاتا ہے جو کنواں خشک ہونے پر نئے کنویں کی تلاش میں نکل جاتے ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے