پریس کلب الیکشن اورصحافت کاگریبان

آئندہ ہفتے پریس کلب کا الیکشن ہے اور اس وقت الیکشن فیس بک ، وٹس ایپ گروپس پر انتہائی سرگرم ہو گیا ہے اور آخری ہفتے میں اخباروں اور میڈیا کے دیگر دفاتر میں پرجوش تقاریر بھی عروج پر ہیں ، اس وقت کورل ڈرا الیکشن میں اہم کردار ادا کر رہا ہے ، بس امیدوار کی تصویر لگائی ، ساتھ اپنی تصویر اور تشہیر اور حمایت شروع ، امیدوار کو بھی تسلی کہ ہماری مہم بہت تیز ہو گئی ہے اور ووٹر و سپورٹر بھی مطمئن کہ اپنی ذمہ داری پوری کر دی ، جس نے سب سے زیادہ کورل ڈرا پر تشہیری پوسٹر بنا کر گروپس میں بھیجے اور سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیے اسے شام کے وقت ایک دو شاباش کے پیغامات دے دیئے جاتے ہیں.

پریس کلب کی سیاست کو میں دو ہزار چھ سے دیکھ رہا ہوں ، اس وقت ”اذکار” اخبار میں تھا. راولپنڈی پریس کلب بھی جاتا رہا ہوں ، میلوڈی میں قائم دو کمروں پر مشتمل پریس کلب میں بھی آنا جانا لگا رہا ، نئے پریس کلب میں تو شاید ہی کوئی شام ایسی ہو کہ وہاں جانا نہ ہوا ہو ، لیکن کچھ عرصہ سے پریس کلب میں جاتے ہوئے عجیب سی کیفیت ہوتی ہے ، پریس کلب کے پلاٹ کے نام پر ہم نے کئی کنال اراضی پر قبضہ کر رکھا ہے ، نالے کے اوپر پارک اور پارکنگ بنا دی اور تو اور اب سی ڈی اے کی سرکاری زمین پر قبضہ کر کے شہید صحافیوں کے لیے یادگار تعمیر کی جا رہی ہے، شہید صحافیوں کی روح کو بھی تڑپانے کا کوئی موقع ہم ضائع نہیں جانے دیتے ،

ساری زندگی صحافت کو سمجھنے میں لگ گئی ہے ، ابھی تک سمجھ نہیں آئی ، ہم صحافی قبضہ مافیا کے خلاف آواز اٹھانے والے ، جہاد کرنے والے ، سرکاری زمین پر قبضوں کی خبریں دینے والے، سپریم کورٹ سے سوموٹو نوٹس دلوانے والے ، ہم خود قبضہ مافیا بن گئے ہیں ، ہمیں نہیں چاہیے بہت بڑی پارکنگ ، ہمیں نہیں چاہیے پارک جھولے اور کرسیاں ٹیبل، نوے فیصد صحافیوں کی تنخواہ پچیس ہزار سے کم ہے ان کے لیے کچھ کرنے کی بجائے دس فیصد کے لیے پوری صحافت کو بدنام اور تباہ کیا جا رہا ہے ،

کتنے صحافیوں کے پاس گاڑیاں ہیں ؟ کتنے صحافی روز پریس کلب میں تفریح کے لیے آ سکتے ہیں ؟ پریس کلب کی اصل عمارت کی تعمیر پر کبھی کوئی توجہ نہیں دی ، زلزلہ متاثرین کی طرح پریس کلب کے نام پر کیبن بنا دیئے گئے اور اب کئی کنال اراضی پر قبضہ کیا جا رہا ہے ،میں کسی پینل کے نہ ہی خلاف ہوں نہ ہی کسی کا حامی ہوں ، شکیل انجم صاحب کی چھتری تلے جرنلسٹ پینل والے کتنہ عرصہ چھپ سکیں گے ، وہ سمجھتے ہیں کہ ایک بہترین صحافی کو اس عہدے کے لیے چن لیا تو اب ہمارے سارے داغ دھل گئے ؟ سب کالا دھن سفید ہو گیا ؟

شکیل انجم صاحب نے شکر ہے پریس کلب میں قائم شراب خانہ بند کروایا ، پریس کلب میں داخل ہوتے ہی شراب خانے کے پاس سے گزرنا کتنا تکلیف دیتا تھا یہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا ،

ہماری اپوزیشن میں مطیع اللہ صاحب ہیں اور انہوں نے نواز رضا اور دیگر گروپس سے اتحاد کیا ہوا ہے اور ”اتحاد” کے نام سے پینل سرگرم ہو گیا ہے ، مجھے اس گروپ سے صرف یہی گلہ رہا ہے کہ یہ دسمبر میں کیوں سامنے آتے ہیں ، جیسے اسلام آباد ہائی کورٹ کی بیٹ میں روزانہ معمول کے بیٹ رپورٹرز ہوتے ہیں اور جب کوئی بہت بڑا کیس مثلا میمو گیٹ وغیرہ ہو تو پینٹ کوٹ ٹائی میں سینئر صحافی اور اینکر وہاں پہنچ جاتے ہیں ، اسی طرح یہ صحافی بھی بس الیکشن کے آتے ہی سامنے آ جاتے ہیں جبکہ پورا سال دو چار ٹیویٹ اور پانچ دس فیس بک کی پوسٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا

مطیع اللہ جان کو کتنے صحافیوں کے نام پتہ ہیں ؟ شکیل انجم کے موبائل میں کتنے صحافیوں کے نمبر محفوظ ہیں ؟ یہاں سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ یہ لوگ کتنی صحافیوں کی سیاست کر رہے ہیں کیا کبھی ان لوگوں نے کوئی فہرست بنائی ہے کہ کتنے صحافیوں (سب ایڈیٹرز ، رپورٹرز ، کیمرا مین )کی تنخواہیں پندرہ ہزار یا اس سے کم ہیں وہ کیسے گزارا کرتے ہیں ،ان کے لیے کیا سہولیات ہیں اور کیا ہونی چاہیے ، وہ کیسے صحافت کر رہے ہیں ، ان کے کیا حقوق ہیں ، کیا وہ صرف الیکشن والے دن ایک سو ستر روپے کا سیور کھانے کا حق رکھتے ہیں صرف؟ اس کے علاوہ ان کی کوئی اوقات نہیں ؟ یا یہ الیکشن سے ایک ہفتہ قبل نیوز روم میں آپ سب کی تقریریں سنیں اور تالیاں بجائیں ؟ کبھی بغیر کسی وجہ کے آپ نے کسی بھی دفتر کا دورہ کیا ہو کہ کیا حالات ہیں ، سنا ہے لوگوں کو نکال رہے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے