سیاسی بساط پر زرداری کی واپسی

آصف زرداری اینٹوں کا جواب دینے ہاتھوں میں پھول لیئے وطن لوٹ آئے، بلاول کا تخت رائیونڈ کے خلاف تحریک چلانے اور بااختیار چیئرمین بننے کا خواب پھر تشنہ رہ گیا۔ پیپلز پارٹی سندھ نے ایک بار پھر پنجاب قیادت کو مات دیدی، مفاہمت کی فتح پر ن لیگ خوش ہیں تو مولانا فضل الرحمان کے چہرے پر بھی معنی خیز مسکان ہے۔ لگتا یہی ہے کہ خورشید شاہ مفاہمتی لیڈر اور تحریک انصاف اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کرتی رہیں گے۔ پاناما لیکس پر راوی چین ہی چین لکھے گا لیکن یہ حقیقت ہے کہ زرداری صاحب کی واپسی سیاسی بساط پر مسلسل ہلچل کا باعث ضرور بنی رہی گی۔

آصف زرداری کی واپسی اور بی بی شہید کی برسی پر جس طرح کے انقلابی اعلانات کا ڈھول پیٹا جا رہا تھا اب پی پی رہنما اسی ڈھول کو پیٹ رہے ہیں۔ زرداری صاحب کی تقریر نے حکومت مخالف تحریک کے غبارے سے ہوا نکال دی، رہی بات بلاول کی انتخابی سیاست میں آمد تو اسکا سب کو ہی پتہ تھا، صرف خبر یہ تھی کہ آصف زرداری نے قومی اسمبلی کا ٹکٹ حاصل کر لیا۔ ملک کے اعلیٰ ترین عہدے صدر مملکت اورایوان زیریں کی رکنیت میں بس اتنا ہی فرق ہے جتنا لاڑکانہ اور نوابشاہ میں۔ اعتزاز احسن، قمر زمان کائرہ اور پنجاب کے لیڈر ایک بار پھر سر پکڑے بیٹھے اور خورشید شاہ پارٹی فاتحانہ مسکراہٹ کیساتھ آصف زرداری کے ساتھ کھڑی ہے۔ بلاول ویسے تو اب ماشاللہ جوشیلی تقریروں میں میاں صاحب، انکل چوہدری اور چاچا پر خوب ہوائی تیر برساتے ہیں، مگر جانے کیوں جیالوں کو زیادہ متاثر نہ کر سکے تو دوسری طرف سیاستداں انکی بلوغت تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔ سخت حیرت ہوتی ہے کہ لوگ بلاول کو راہل گاندھی کے مقابل کھڑا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، راہل کو نہرو خاندان کا وارث ہونے کے باوجود اعزازی نہرو نہیں بنایا گیا، نہ ہی اقتدار وراثت میں مل رہا ہے۔ 2007 سے سیاست میں ہیں اور اب بھی 46 سال کی عمر میں نریندر مودی کی مضبوط حکومت کے گلے کا کانٹا بنے ہوئے ہیں۔

پیپلز پارٹی کا ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو سے آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری تک کی روداد چوٹی سے ترائی کے سفر کی داستان نظر آتی ہے۔ بھٹو صاحب دائیں اور بائیں بازوئوں کی ضدین کو ساتھ لیکر چلنے کی زبردست صلاحیت رکھتے تھے، بینظیر بھٹو کے دائیں، بائیں قابل اور توانا شخصیات نظر آتی تھیں۔ میرے خیال میں ذوالفقار علی بھٹو جیسا ذھین سیاستداں پاکستان کو پھر نصیب نہیں ہو گا جس نے سیاست کو امرا کی گود چھین کر گلی محلے کا باسی بنا دیا۔ جرات مند بیٹی بینظیر بھٹو کی فوجی آمریت کے خلاف طویل جدوجہد پاکستان کی جمہوری تاریخ کا روشن ترین باب ہے۔ اس کے باوجود یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پیپلز پارٹی کی موجودہ صورتحال افسوسناک ہے۔ زبردست عوامی قوت رکھنے والی جماعت اب بھان متی کا سیاسی کنبہ بن چکی ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو نو سال ہونے کو آئے، قائم علی شاہ کی جگہ مراد علی شاہ آ گئے مگر کوئی بتا سکتا ہے کہ فریال تالپور کے اختیارات کہاں سے شروع ہو کر کہاں ختم ہوتے ہیں۔ دوسری ہمشیرہ عذرا پیچوہو بھی ماشااللہ پارلیمنٹ کا حصہ ہیں، ان کے شوہر فضل اللہ پیچوہو بفضل خدا پیپلز پارٹی کے تین وزرا تعلیم کو فارغ کرنے کے بعد بمشکل تمام سکریٹری تعلیم کے عہدے سے ہٹنے پر رضامند ہوئے ہیں۔

عوام کی بد قسمتی ہے یا پیپلز پارٹی کی خوش قسمتی سندھ میں پیپلز پارٹی کے مدمقابل کوئی نہیں، اس کے باوجود بھان متی کے کنبے کے سامنے جو مسئلہ منہ پھاڑے کھڑا ہے وہ یہ ہے کہ شہیدوں کے خون کا حوالہ بے اثر ہوتا جا رہا ہے۔ یقینی طور پر سندھ کے عوام ذوالفقار بھٹو اور بینظیر بھٹو سے عقیدت رکھتے ہیں تو پورا پاکستان محبت کے پھول نچھاور کرتا ہے مگر اب جیالے بھی بلاول سے دور نظر آتے ہیں۔ اس بار گڑھی خدا بخش میں بی بی شہید کی برسی کی تقریب آصف زرداری کی واپسی کے جشن میں تبدیل ہو گئی۔ گزشتہ نو سال میں پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا ہے۔ بینظیر بھٹو کی برسی پر ہر سال لاڑکانہ میں لوگ امڈے پڑتے تھے مگر افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس بار میدان بھی صرف ایک چوتھائی بھر سکا۔ ہیلی کاپٹر سے کم و بیش چھ چکر لگائے گئے مگر لوگ موجود نہ تھے۔ اس بار گڑھی خدا بخش کی فضا تبدیل نظر آئی آصف زرداری اوربلاول کی تقریروں کے بعد تقریب ختم ، سوال یہ ہے کہ کیا جیالے اپنے ہی گھر میں اجنبیت محسوس کر رہے ہیں ؟

آصف زرداری کی سیاست مفاہمت کی بساط پر چلتی ہے، خود بھی خوش مزاج انسان ہیں اور دوسرے کو بھی خوش رکھنے کا فن جانتے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ وزیر اعظم کھونے اور آرمی چیف کو توسیع دینے کے بعد زرداری صاحب نے تاریخ میں پہلی بار جمہوری حکومت کی مدت پوری کرنے کا کرشمہ کر دکھایا۔ زرداری صاحب بادشاہ انسان ہیں، دوستوں، حلیفوں اور درباریوں کی ایک طویل فہرست اس بات کی گواہ ہے مگر نہ سننا بادشاہی مزاج کا خاصہ نہیں ورنہ بندہ ذوالفقار مرزا، فیصل رضا عابدی، بابر اعوان، راجہ ریاض اور ناہید و صفدر عباسی بن جاتا ہے۔ فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ سیاسی بساط پر بادشاہ کے گرد گھیرا تنگ ہے۔ واپسی سے کچھ ہی پہلے انور مجید کے دفتر چھاپہ بہت کچھ کہہ رہا ہے۔ سندھ میں حکومت کے باوجود ڈاکٹر عاصم تشویشناک حالت میں قید اور نثار مورائی زیر تفتیش ہیں۔ شرجیل میمن اور اویس مظفر ٹپی بھی بار بار یقین دہانیوں کے باوجود وطن واپسی کی ہمت نہیں کر پا رہے، غلام قادر کاکا بھی بیرون ملک روپوش ہیں۔ ذوالفقار مرزا گھر کے بھیدی بننے پر تیار ہیں تو لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ اعترافی بیان ریکارڈ کروا چکے ہیں۔ شطرنج کے کھلاڑی بخوبی جانتے ہیں ایسے میں اینٹ نہیں پھولوں جیسی چال چلنی پڑتی ہے۔

تحریک انصاف کامل بے اعتباری کے باوجود پاناما لیکس پر پیپلز پارٹی کو ساتھ رکھنا چاہتی ہے، حتیٰ کہ عمران خان نے زرداری صاحب کی قیادت میں حکومت مخالف اتحاد پر رضا مندی بھی ظاہر کی ہے۔ اگرچہ تحریک انصاف کو بھی پتہ ہے کہ آصف زرداری کی واپسی کے بعد ن لیگ سے مفاہمت ہو گی یا ڈیل، پیپلز پارٹی سڑکوں پر نہیں آئیگی۔ اس کے باوجود شاید عمران خان یہ پانسہ پھینک کر پیپلز پارٹی کو سیاسی امتحان میں ڈال چکے ہیں۔ عمران خان کی سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر کرپشن کے خلاف انکے الزامات کو جھٹلانا ممکن نہیں۔ پانامہ پر عدالتی فیصلہ پہلے آئیگا یا انتخابی گہماگہمی کسی کو پتہ نہیں، بہرحال سیاسی منظر نامے کے مطابق فی الوقت راوی ن لیگ کیلئے چین ہی چین لکھتا ہے۔ انتخابات میں صرف ڈیڑھ سال باقی ہے، امریکی صدر ابراہام لنکن کا کہنا ہے کہ آپ سب کو کچھ عرصے اور کچھ لوگوں کو مستقل بیوقوف بنا سکتے ہیں مگر سب لوگوں کو ہمیشہ بیوقوف نہیں بنا سکتے، یہ سچ ہو گا مگر ن لیگ اور پیپلز پارٹی تو یہ کرشمہ ہر انتخابات میں دکھاتے ہیں۔

بقول حبیب جالب
کہاں قاتل بدلتے ہیں فقط چہرے بدلتے ہیں
عجب اپنا سفر ہے فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے