تبدیلی کا عمل تنے سے۔۔۔

کافی دن گزرے کہ کبھی کسی آرٹیکل کو ٹھیک سے نہیں پڑھا جا سکا اس کی وجہ وقت کا کم میسر
آنا ہوتا تھا۔

آج صبح نماز فجر کے بعد حسب روایت جب فیس بک کو چیک کیا تو عمار مسعود صاحب کا ایک کالم کسی ویب سائیٹ پر پڑھنے کو ملا۔۔۔ جس پر انھوں نے کمنٹس میں لکھا ہوا تھا کہ پڑھ کر کمنٹس کرنا۔۔۔

واقعی انھوں نے جس موضع پر لکھا ہمیں اس پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔

انھوں نے صفائی کی حوالے سے اسلام آباد کے کسی ٹریک کا ذکر کیا تھا۔۔۔

اسلام آباد دنیا کا دوسرا خوبصورت ترین دارالحکومت ہے۔۔۔ اور یہ بات میں نہیں "گوگل ” کہہ رہا ہے۔ دنیا کے دس خوبصورت ترین دارالحکومتوں میں اسلام آباد کا دوسرا نمبر ہے۔

گزشتہ برس جب میں نے یہ بات اپنی ایک لینگوئیج کی پروفیسر کو کہی تو وہ اس بات کو ماننے سے انکار کر رہی تھی کیونکہ ان کی نظر میں یا ذہن پر پاکستان کا نقشہ کسی اور طرح سے ڈیزائن تھا۔۔۔

میں نے ان کو کہا کہ پاکستان بہت خوبصورت ملک ہے۔ اور اسلام آباد واقعی طور خوبصورت ہے، تو کہنے لگیں آپ نے” روم "ہمارے دارالحکومت کی سیر نہیں کی۔۔۔۔!!!

مجھے لگتا ہے کہ دنیا کا پہلا خوبصورت ترین دارلحکومت "روم” ہی ہو گا۔

مجھے معلوم تھا کہ "روم” چھٹے نمبر پر آتا ہے۔ پر میں نے پروفیسر کو شرمندہ نہیں ہونے دیا اور موضوع بدل دیا۔

ایک نظر اب صفائی کی جانب :-

اس میں کوئی شک و شبے والی بات نہیں کہ پاکستان کے کسی بھی شہر میں صفائی کا کوئی موثر نظام موجود نہیں ہے۔ ہر جگہ گندگی کے ڈھیر ابلتے نظر آتے ہیں۔۔۔

بچے سے لیکر بوڑھے تک استعمال کے بعد کاغذ من پسند جگہ پر پھینک کر آگے چلے جاتے ہیں۔۔۔۔سکول ہو ، ہوٹل ، یا ہسپتال، یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ کو گندگی کے ڈھیر اردگرد نظر نہ آئیں۔۔۔ ہماری زمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کی پرورش اس انداز میں کریں کہ انھوں نے آگے چل کر تبدیلی لانی ہے۔۔۔ اب جو جوان ہو گے یا بوڑھے، ان کو نہیں بدلا جا سکتا کیونکہ وہ تربیت کی عمر سے آگے گزر چکے ہیں۔ اب وہ عملی میدان میں ہیں اور کچھ میدان کی "آخری” حد کو چھونے والے ہیں۔

ہمارے ملک میں کوئی ایسا شعبہ موجود نہیں جہاں کوئی بھی کام معیار پر ہو رہا ہو۔۔۔ اور اسی وجہ سے جگ ہنسائی بھی ہوتی ہے۔۔۔۔ دو سال قبل پی آئی اے کی ائیرہوسٹس کو برطانیہ کے ایک ہوٹل سے بیڈ شیٹ اور تولیے چراتے ہوئے پکڑا گیا اور پھر اس ہوٹل میں کسی بھی پی آئی اے کے سٹاف ممبر کو داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔۔۔

گزشتہ دنوں پھر پی آئی اے کی ائیرہوسٹس کو کینیڈا کے شہر ٹورنٹو کے کسی ڈیپارٹمنٹل سٹور سے چوری کرتے ہوئے سی سی ٹی وی کیمرہ کی مدد سے پکڑا گیا اور پولیس کے حوالے کیا گیا۔۔۔۔ پولیس اب اس پی آئی اے کے اس ممبر کے ساتھ ساتھ جہاز کے کیپٹن کو بھی شامل تفتیش کر رہی ہے۔۔۔۔

یہ سب کیا ہے ؟؟؟

اس کی بنیادی وجہ تربیت کی کمی ہے۔۔۔

گزشتہ دنوں مجھے زیوریچ / سویٹزرلینڈ جانے کا موقع ملا۔۔ اٹلی کے شہر میلان سے پندرہ منٹ کی دوری سے سوئس بارڈر شروع ہو جاتا ہے۔۔۔۔ چار گھنٹے بعد جب میں زیوریچ پہنچا تو حیران رہ گیا وہاں کا نظام دیکھ کر۔۔۔ میں نے بہت گہرے انداز میں مشاہدہ کیا کہ کوئی ایسی چیز نظر آ جائے۔۔۔۔ مگر کچھ دیکھائی ہی نہ دیا۔۔۔ اس خزاں میں بھی وہاں سڑکوں کے اردگرد سبزہ ہی نظر آئے گا۔۔۔۔ جگہ جگہ کوڑے دان لگے ہوئے ہیں۔۔ بجھی سگریٹ نظر آئی گی زمین پر نہ ہی کوئی کاغذ کا چھوٹے سے چھوٹا پرزہ۔۔۔۔۔

صفائی والے رات کے پچھلے پہر آتے ہیں اور سڑکوں کو دھو کر چلے جاتے ہیں۔۔۔ دن بھر دنیا سے آئے ہوئے سیاح گھومتے رہتے ہیں۔۔۔۔ کسی بھی ریلوے اسٹیشن پر کوئی بیرئیر نہیں کہ ٹکٹ ڈالو گے تو ریل میں داخل ہو سکو گے۔۔ ریلوے کا ایسا نظام تو لندن میں بھی نہیں ہے جیسا سویٹزرلینڈ میں ہے۔۔۔۔ بس ریل کے اندر دروازوں پر اتنا سا لکھا ہوا ہوتا ہے” بغیر ٹکٹ سفر نہ کریں”۔ اپنی ٹکٹ خرید کر سفر کریں۔ اگر بغیر ٹکٹ سفر کے دوران پکڑے گے تو آپ کی تمام ڈیٹیلز لکھ لی جائیں گی۔ اور اگر دوسری بار پکڑے گے تو 100 فرانک جرمانہ کیا جائے گا۔

نیو ائیر نائٹ کو سنٹرل زیوریچ میں پروگرام تھا اور ہر کوئی بوتل اٹھائے ہوئے تھا تو کسی نے دو دو بوتلیں بغلگیر کی ہوئی تھیں۔۔ بارہ بجکر بیس منٹ پر جب سنٹرل زیوریچ کی لائٹ آف ہوئی تو مجھے جھٹ سے پاکستان یاد آیا کہ دیکھو آخر آج بجلی آف ہو گئی ناں یورپ میں بھی ایسے موقع پر۔!!!!

مگر اگلے ہی لمحے پورا زیوریچ آتش بازی سے جگمگا اٹھا تھا اور آسمان سات رنگوں سےسنور چکا تھا۔۔۔
بجلی کا جانا ان کے پروگرام کا حصہ تھا ورنہ اس روشنی میں کیسے آتش بازی کا نظارہ ہوتا۔۔۔ !!!!

شراب کی بوتلیں جگہ جگہ پڑی ہوئی تھیں مگر صبح جب میں وہاں سے گزرا تو وہاں کا منظر دیکھ کر لگ ہی نہیں رہا تھا کہ رات یہاں لاکھوں کا مجمع تھا۔۔۔
وہاں کے لوگ اتنے ملنسار اور ہمدرد ہیں کہ جب رات مجھے بہت زیادہ ٹھنڈ لگنے لگی تو وہاں زیوریچ دریا کے پل پر ایک سوئس نے مجھے اپنے بار بی کیو کے سٹال ہر بیٹھنے کے لئے جگہ دی اور ہر پندرہ سے بیس منٹ کے بعد کافی پیش کرتا تھا۔۔۔

( یہ شخص پاکستان اور کشمیر سمیت بنگلہ دیش اور افغانستان کے کئی بار چکر لگا چکا تھا۔۔۔۔ اسے پاکستان کی وادی ہنزہ بہت پسند ہے۔۔۔

جب میں نے اپنا تعارف کروایا تو اس نے نہ صرف مجھے وہاں بیٹھنے کو جگہ دی بلکہ مفت میں ہی کافی پیش کرتا رہا۔۔)

میں بھی ان ہزاروں افراد میں شامل تھا جو آتش بازی دیکھنے یورپ اور امریکہ سے آئے ہوئے تھے۔

ریل میں دوران سفر میں نے دیکھا کہ اگر کوئی بچہ ٹافی، یا کوئی دوسری چیز کھاتا ہے تو اس کا ریپر اپنی جیب میں یا بیگ میں ڈال لیتا ہے اور جب وہ کوڑے والی بن/ باسکٹ کے قریب پہنچتا ہے تو وہ کاغذ اس میں ڈال دیتا ہے۔۔۔۔

ہمارے ہاں نام نہاد مذہبی لوگ جو مغرب کی ثقافت سے نفرت کرتے ہیں، کریں ان کی بری عادات کو مت اپناؤ۔۔۔ مگر اچھی چیز برے آدمی سے بھی اگر سیکھنے کو ملتی ہے تو سیکھو۔۔

اسلام ہی نے صفائی کو نصف ایمان کا درجہ دیا ہے۔

ماحول میں آلودگی ہو یا معاشرے میں بے راہروی۔۔۔ جوان ہی یہ کام کرتے ہیں۔۔۔۔ بوڑھوں کے بس کا کام نہیں کہ وہ اس عمر میں ایسے کام کریں۔۔۔۔ یا ان کی عادات کو تبدیل کیا جا سکے۔۔۔

"انھوں کچھ کیا تو ہم بھی ایک پہچان بنے۔ ”

جب ہم ایک ایسی نسل تیار کر لیں گے کہ جن کو بچپن سے ہی ایک اچھے انداز میں ڈھالا گیا ہو، اچھی اور بری بات میں فرق کی پہچان ہو گی۔۔۔ تو پھر معاشرے میں تبدیلی کو آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔۔۔ پھر کوئی دھرنا ہو گا نہ ہی میوزیکل چیئر کا پروگرام۔۔۔۔ وہی اوپر آئے گا جس کے اندر قابلیت ہو گی۔۔۔

موجودہ نظام بھی بدلے گا۔۔۔ پر کیا ہم ایسی نسل تیار کر چکے ہیں جو واقعی” تنے” سے تبدیل ہوئی تھی ، یا پھر تناور ہونے کے بعد۔۔۔۔۔ تبدیلی کے منتظر ہیں۔۔۔۔

"تنے کو درست سمت میں موڑو۔۔۔۔جب تناور بنے، گا تو پہچان بنے گا”۔
” درخت ٹوٹ جاتے ہیں پر مڑتے نہیں۔”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے