آپ سے دو اہم سوال

مذہبی طبقے سے کوئی اٹھا لیا جائے تو سیکولر گونگے شیطان. بن جاتے ہیں اور کسی سیکولر کو اٹھا لیا جائے تو مذہبی طبقہ بالعموم لاتعلق سا ہو جاتا ہے.

بات سیدھی سی ہے کسی کو غائب نہیں ہونا چاہیے. عدالتیں موجود ہیں اور قانون بھی. اس کا نفاذ ہونا چاہیے.

اسے آپ میری خوش گمانی کہہ لیں تاہم مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ. بنیادی انسانی اقدار کے تحفظ کے لیے سیکولر اور اہل مذہب مل. کر آواز اٹھانے کے رستے پر چل پڑے ہیں. یہ ابتداء ہے تاہم سماج کبھی انسانی قدروں پر استوار ہوا تو اس کوشش کا شمار اس کے ابتدائی نقوش میں ہو گا.

سیکولر کیمپ سے سلمان حیدر کے لاپتہ ہونے پر ان صاحبان دانش نے بھی آواز اٹھائی ہے جو مذہبی پس منظر رکھتے ہیں. امید ہے کہ اس سیلاب بلا نے دوبارہ کبھی اہل مذہب کا رخ کیا تو سیکولر احباب بھی انسانی قدروں کے تحت آواز بلند کریں گے.

جب مظلوم کے حق میں اٹھنے والی آواز عصبیت سے بالاتر ہو کر صرف انسانیت کی بنیاد پر اٹھے گی تب ایک توانا معاشرہ وجود میں آئے گا.

وہی معاشرہ ہمارا خواب ہے.

کوئی کتنا بڑا مجرم کیوں نہ ہو اس کے ساتھ معاملہ صرف قانون کے مطابق کیا جائے.

دوسری بات

کیا کسی غلط اقدام کے دفاع میں یہ کہہ دینا کافی ہوگا کہ ہم نہ کرتے تو بھارت کر دیتا؟

مثلاً

افغانستان پر حملے میں ہم فرنٹ لائن اتحادی نہ بنتے تو بھارت بن جاتا اس لیے ہم خود بن گئے.

مبینہ اسلامی فوج کی سربراہی ہم قبول نہ کرتے تو وہ یہی کام بھارت سے لے لیتے اس لیے ہم خود تیار ہو گئے.

ایک ریاست کب تک اس بات کی متحمل ہو سکتی ہے کہ وہ رد عمل کی. نفسیات میں پالیسیاں تشکیل دے.

سماج کی جس خوفناک تقسیم سے ڈر کر میں نے گذارش کی تھی کہ یہ اقدام تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے وہ تقسیم اب نمایاں ہونے لگی ہے چنانچہ ہر اس شخص پر ایرانی ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا جانے لگا ہے جو اس مبینہ اسلامی فوج کی قیادت میں چھپے مضمرات پر بات کر رہا ہے.

کچھ وہ ہیں جن کی وفاداری پاکستان سے زیادہ ایران کے ساتھ ہے اور کچھ وہ ہیں جو سعودی عرب کے دستر خواں سے اٹھنے کا تصور ہی نہیں کر سکتے. جو ایرانی لائن پر نہیں چلتا وہ آل سعود کا ایجنٹ قرار پاتا ہے اور سعودی عرب کے ساتھ اپنی اشتراک کار کی پالیسی پر سوال اٹھاتا ہے وہ ایرانی ایجنٹ قرار پاتا ہے. ضرورت ایک خالص پاکستانی بیانیے کی ہے. وہ اس لیے کہ ایران اور سعودی عرب بھی آخری تجزیے میں نیشن سٹیٹ ہی ہیں. امت کا تصور ان دونوں ممالک کے ہاں صرف ایک حکمت عملہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور دونوں کو پراکسی وار میں رضاکار مل جاتے ہیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے