پاکستان میں گمشدہ بلاگرز کی رہائی کے لیے مظاہرے

گزشتہ ایک ہفتےکے دوران چار پاکستانی بلاگرز کی گمشدگی کے خلاف منگل کو اسلام آباد ،لاہور، فیصل آباد، کراچی اور پشاور پریس کلب کے باہر احتجاج کیا گیا۔ مظاہرین نےحکومت سے مطالبہ کیا کہ ریاست اِن افراد کی بازیابی کے لیے ٹھوس اور فوری اقدام اُٹھائے۔

اسلام آباد پریس کلب کے باہر ہونے والے احتجاج میں سول سوسائٹی کے علاوہ کچھ سینیٹروں نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اب پارلیمان میں بھی یہی آوازیں گونج رہی ہیں۔

’اس سلسلے میں ایک بل سینیٹ کی ہیومن رائٹس کمیٹی سے پاس ہو چکا ہے۔ پورے ایوان نے اسے منظوری دے کر حکومت کو بھیجا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس واقعے سے اس مہم کو تقویت ملے گی کہ ریاست کے اداروں کو پارلیمان کے اور قانون کے تحت لایا جائے۔‘

دوسری جانب جو کنوینشن ُاگینسٹ اینفورسٹ ڈساپیرنسُ ہے اس پر فی الفور دستخط کرنے چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ لوگ غائب ہو جاتے اور پتہ بھی لگ جاتا ہےکہ کہاں سے غائب ہوئے ہیں لیکن کوئی ایکشن نہیں ہوتا۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس امپیونیٹی کوبھی ختم کرنا چاہیے۔ ‘
کراچی اور فیصل آباد میں بھی بلاگرز کی گمشدگی کے خلاف احتجاج ہوا۔

پشاور میں پریس کلب کے باہر احتجاج کرتے ہوئے مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ گمشدہ افراد کے خلاف اگر کوئی مقدمہ ہے تو انہیں بازیاب کروا کے عدالت کے سامنے پیش ہونے کا موقع دیں۔

سول سوسائٹی کی کارکن ثنا اعجاز نے کہا ’انسانی حقوق کے کارکن اغوا ہوئے ہیں اگر ان پر کوئی الزام ہے تو انھیں عدالت میں لایا جائے۔ اس طرح کسی شخص کو غائب کرنا غیر انسانی ہے۔ یہ ان ساری کنوینشز کی خلاف ورزی ہے جن پر پاکستان نے دستخط کیے ہیں۔ بلکہ یہ آئین کے بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔ ‘

[pullquote]ایڈیٹرنوٹ
[/pullquote]

سماجی میڈیا پر کئی ایسے لوگ موجود ہیں جو ریاست کے اہم اداروں کے درمیان نفرتیں پھیلانے میں اپنا مذموم کردار ادا کر رہے تھے ، اسی طرح کچھ عناصر فرقہ واریت کو ہوا دیکر سماج میں جبر ، تخریب کاری اور کشیدگی کو ہوا دے رہے تھے . یہ لوگ مختلف جعلی ناموں سے سوشل میڈیا پر پیجز چلا رہے تھے جہان ریاست ، حکومت ، فوج اور مذہب کے خلاف انتہائی ناشائستہ مواد موجود ہوتا تھا .

دستیاب معلومات کے مطابق تقریبا 12 افراد کو نامعلوم افراد نے اٹھا لیا ہے . شبہ ہے کہ یہ افراد ریاستی اداروں کی تحویل میں ہیں . ممکن ہے کہ یہ افراد قصور وار ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان افراد کا کوئی قصور نہ ہو ، محض الزام یا افواہ کی بنیاد پر کسی کو مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا .آئی بی سی اردو پر شائع ہونے والے مضامین میں ہر شخص کو اپنی سوچ اور فکر کے مطابق اپنی رائے کی آزادی کا حق حاصل ہے ، ہم اس حق کا احترام کر تے ہیں تاہم کسی کی دل آزاری قابل قبول نہیں .

آئی بی سی اردو کسی ایسے تاثر کی شدید الفاظ میں نفی کرتا ہے جس سے اٹھائے گئے کسی شخص پر اس کے مجرم ہونے کا گمان ہوتا ہو . آئی بی سی اردو ایک صحافتی پلیٹ فارم ہے جہاں تمام طبقات کو تہذیب اور اخلاقی حدود کے اندر اپنی رائے کی آزادی اور اظہار کا حق حاصل ہے . ہم ریاست پاکستان اور اس میں بسنے والے تمام طبقات کے آئینی حقوق کا احترام کر تے ہیں اور ان کے اس حق کیلئے ان کے ساتھ بھی کھڑے ہیں تاہم مملکت پاکستان ، ریاستی اداروں ، حکومت ،عدلیہ اور فوج سمیت کسی بھی مذہب اور مسلک کے خلاف بے ہودگی اور یاوہ گوئی پر امن بقائے باہمی کے اصولوں کے خلاف سمجھتے ہیں .

شکریہ
ایڈیٹر
آئی بی سی اردو

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے