یہ امر نہایت قابل تحسین ہے کہ مذہبی و سماجی ہم آہنگی کی کوششوں کی قیادت اب ریاست خود کر رہی ہے اور قومی جامعات میں اس کی تحقیق و تدریس کے ذریعے اسے تعلیمی نصاب اور نظام کا حصہ بنانا چاہتی ہے ۔ ورنہ ایسی کاوشیں زیادہ تر غیر سرکاری سماجی تنظیمیں کرتی رہی ہیں جنہیں عام طور پر ایک سازش اور مغربی ایجنڈے کے طور پر پیش کر کے مسترد کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے ۔ پاکستان میں موجود فطری، سماجی، ثقافتی اور سیاسی تنوع اور رنگارنگی کے تناظر میں اس کی سالمیت، تعمیر و ترقی اور استحکام اسی میں مضمر ہے کہ ہم اس تنوع و رنگا رنگی کو تسلیم کریں، اس کی تحسین کریں ، معاملات کو مکالمے اور افہام و تفہیم کے ذریعے سمجھنے اور سلجھانے کے لیے نئی نسل کو فکری اور عملی تربیت دی جائے۔
پاکستان کے ریاستی بیانیے میں ٹھوس سطح پر یہ تبدیلی اس کی وفاقیت کا تقاضا بھی ہے اور عصری عالمگیریت کے زمینی حقائق کا ادراک بھی۔ جس کی طرف بڑھنے کے لیے مختلف نسلی، لسانی، مذہبی ، سماجی اور سیاسی گروہوں اور طبقات میں مکالمے کی فضا کو پروان چڑھانا از حد ضروری ہے۔ دہشت گردی اور انتہاپسندی اس وقت دنیا بھر کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہے جسے صرف طاقت کے زور پر ختم نہیں کی جا سکتی۔ یہ مسئلہ اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتا جب تک اس کی بنیادی وجوہات کا جائزہ لے کر عالمی، ریاستی، سماجی اور سیاسی سطح پر ہمہ جہت پالیسی کے ذریعے اس سے تعمیری انداز میں نہ نمٹا جائے. سماجی اور مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے پاکستان میں حالیہ عرصے کے دوران ریاستی سطح میں کئی عملی اقدامات نظر آئے، گزشتہ دنوں بحریہ یونیورسٹی اسلام آباد میں نیکٹا کے زیر اہتمام دہشت گردی کے مقابل بیانیہ کی تشکیل کے لیے مشاورتی اجلاس، ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور پشاور یونیورسٹی کے زیر اہتمام جنوری کے شروع میں ہونے والا دو روزہ مشاورتی اجلاس، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی خاص طور پر اس کے ذیلی ادارے اقبال ادارہ برائے مکالمہ و تحقیق کے زیر اہتمام مختلف جامعات میں جاری مختلف قومی ورکشاپس اور وزارت مذہبی امور کو وسعت دے کے اس میں مذہبی ہم آہنگی کو بھی شامل کرنا اس کی چند مثالیں ہیں۔ یہ سارے اقدامات قومی رخ کو متعین کرنے اور اس کی طرف بڑھنے کے لیے خوش آئند سلسلے ہیں۔ قارئین کی خدمت میں فی الحال ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور پشاور یونیورسٹی کے باہمی تعاون سے منعقدہ ایک قومی مشاورتی اجلاس کی مختصر روداد حاضر ہے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان (ایچ ای سی) اور یونیورسٹی آف پشاور کے زیر اہتمام 6,7جنوری 2017کو اسلام آباد میں دو روزپر مبنی ایک قومی مشاورتی اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس کا عنوان Consultative Workshop on Interfaith and Communal Harmony تھا۔ بین المذاہب و سماجی ہم آہنگی کے لیے منعقدہ اس مشاورتی اجلاس میں ملک بھر کی جامعات اور اداروں کے چنیدہ عہدیداروں، اساتذہ، ماہرین اور محققین نے شرکت کی۔
اجلاس کی افتتاحی تقریب کی صدارت ایچ ای سی کے چیئرمین جناب پروفیسر ڈاکٹر مختار احمد نے کی جبکہ منصوبہ بندی اور ترقیات کے وفاقی وزیر جناب پروفیسر احسن اقبال اس تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ اجلاس کی میزبانی کرتے ہوئے اپنے افتتاحیہ کلمات میں جناب پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب نے دو روزہ مشاورتی اجلاس کا ایجنڈا اور اس کے اغراض و مقاصد بیان کیے ۔
وفاقی وزیر جناب پروفیسر احسن اقبا ل اور ایچ ای سی کے چیئرمین جناب پروفیسر ڈاکٹر مختار احمد نے اپنے پالیسی بیان میں بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے حکومتی عزم اور آئندہ پروگرام پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ ترقی کے لیے قومی وژن ۲۰۲۵ کے تحت پاکستان کی ہمہ جہت ترقی کے لیے متعدد خطوط پر کام کیا جا رہا ہے۔ اقتصادی ترقی کے ساتھ سماجی سطح پر ترقی کے لیے تعلیم و تحقیق پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ پاکستان کو امن، استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے اور عصری تقاضوں اور اسلامی تعلیمات کی تعبیر نو کے لیے ملک کی مختلف جامعات میں مختلف مسانید قائم کی جا رہی ہیں جن میں مسانید سیرت (Seerah Chairs) بھی شامل ہیں جن کا کام سیرت النبی ص کی روشنی میں عصری تقاضوں کے مطابق ہمارے سماجی مسائل کے حل تلاش کرنا ہے خاص طور پر نئی نسل کے جدید اذہان کو مطمئن کرنے کے لیے جدید خطوط پر اقدامات کرنا ہماری قومی ذمہ داری ہے ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ مذہبی و سماجی ہم آہنگی کی یہ کاوش صرف ایک مشاورتی اجلاس تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے لیے مستقل بجٹ مختص کر دیاگیا ہے۔ بین المذاہب ہم آہنگی ملکی سلامتی اور امن سے جڑی ہوئی ہےجس پر حکومت بہت توجہ دے رہی ہے۔ جس طرح وفاقی وزارت مذہبی امور کے دائرہ عمل کو وسعت دیتے ہوئے بین المذاہب ہم آہنگی کے امور کو بھی اس میں شامل کیا گیا ہے اور اب ایچ ای سی کی قیادت میں قومی جامعات میں بھی ان مسائل پر تدریس و تحقیق کے ذریعے غور و فکر کیا جائے گا، اور آئندہ کے لیے امکانات اور مواقع کا جائزہ لینے نیز مختلف ممالک کے تجربات اور تحقیقات سے استفادہ کیا جائے گا۔
افتتاحی تقریب کے بعد اجلاس کے شرکاء کو تین گروپس میں تقسیم کیا گیا اور بین المذاہب اور سماجی ہم آہنگی کے مسائل پر تین مختلف بنیادوں سماجی -ثقافتی ، سماجی -معاشی اور سماجی -سیاسی( Socio-Cultural ، Socio-Economic اور Socio-Political ) پر غورو خوض اور مشاورت کی گئی۔ مختلف النوع مسائل پر ان تین گروپس کے مشاورتی نکات کو جمع کیا گیا اور اجلاس کی اختتامی اور مشترکہ نشست میں پاکستان میں مذہبی و سماجی ہم آہنگی کے مسائل اورسیرت النبی ﷺ کی روشنی میں ان کا حل نیز قومی اور بین الاقوامی سطح پر اس حوالے سے اشتراکِ عمل کے امکانات پر تحقیق کے لیے موضوعات اور ان کے فروغ کے لیے حکمت عملی پر تجاویز اور سفارشات مرتب کر کے ایچ ای سی کے سیرت چیئرز کے عہدیداروں اور اجلاس کے منتظمین کے حوالے کر دیا ۔
ہم نے اس ضمن میں مختلف مسائل کی نشاندہی اور ان کا تجزیہ کرنے کے بعد پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لیے چند تجاویز دیں، ان میں مختلف مذاہب و مسالک کے درمیان دو سطح پر مکالمے اور تعامل شامل ہیں۔
ایک طرف سے علمی سطح پر مکالمہ اور تعامل نہایت اہم ہے۔ تقابل ادیان کے نصابی موضوعات میں طلبہ کو ایک مذہب یا مسلک کی برتری اور باقی سب کی کم تری کی تعلیم دینے کے بجائے ان کے مکمل علمی اور دیانت دارانہ تعارف پیش کیا جائے۔ مذاہب و مسالک کے بارے میں جامع اور دیانت دارانہ و غیر جانب دارانہ انداز میں پڑھایا جائے۔ تفسیر، فقہ، اصول الفقہ، حدیث ، تاریخ وغیرہ جیسے اسلامی موضوعات میں بھی مختلف مسالک کی آراء کو یکساں طور پر پیش کیا جائے ۔ کسی ایک طے شدہ رائے کو تھونپنے کے بجائے مختلف آراء کو پیش کر کے اس پر طلبہ کو تحقیق پر مبنی رائے قائم کرنے کی تربیت اور تعلیم دی جائے۔ جدید مسائل پر مختلف مذاہب و مسالک کی مستند آراء کی تلاش کے لیے ایسا ماحول فراہم کیا جائے جہاں ہر مسلک و مذہب کے علماء و دانشوروں کو اپنی تحقیقات پیش کرنے کے ایک علمی مواقع فراہم ہوں۔ اساتذہ کی تعینات، تربیتی کورسز ، سیمینارو ں اور علمی کانفرنسوں ، علمی و تحقیقاتی مجلات میں مسلکی رجحانات کو فروغ دینے کے بجائے خالصتاً معروضی اور تحقیقی معیارات کو فروغ دیا جائے۔ مختلف اداروں، جامعات، درسگاہوں اور تحقیقی مراکز نیز مختلف ممالک کے تجربات سے منظم انداز میں استفادہ کرنے اور انہیں مزید آگے بڑھانے کے لیے اقدامات کیے جائیں.
جبکہ دوسری طرف مختلف مسالک و مذاہب کے مابین سماجی تعامل کی ایسی فضا عام کی جائے جس میں پاکستان کے کسی شہری کو اس کی مسلک و مذہب سے وابستگی کی بنیاد پر تحقیر کی نگاہ سے نہ دیکھا جاتا ہو، اسے معاشی تفریق، قانونی امتیاز یا مذہب تعصب کا شکار نہ بنایا جاتا ہو۔ خاص طور پر کلاس رومز اور تعلیمی اداروں میں کسی بھی مسلک یا مذہب سے وابستہ طالب علم کو کسی قسم کی تضحیک، تحقیر اور تعصب کا نشانہ نہ بنایا جاتا ہو۔ ہر ایک کے مذہبی، سیاسی، سماجی، قانونی اور معاشی حقوق کا نہ صرف تحفظ ہو بلکہ ہر ایک کو ترقی کے یکساں مواقع میسر ہو ںاور قوم و ملک کی تعمیر اور استحکام میں اسے حصہ لینے کے لیے کسی قسم کی رکاوٹ نہ ہو۔ اس مقصد کے حصول کے لیے مختلف مسالک و مذاہب کے اداروں، درسگاہوں، مراکز، جماعتوں، عبادت گاہوں کے مابین باہمی رقابت کے بجائے باہمی تعاون کی فضا کو عام کرنے کے لیے کوشش کی جائے اور طلبہ، اساتذہ، مذہبی قائدین، اور سماجی کارکنوں کے مابین مشترکہ سرگرمیوں کے انعقاد کے ذریعے ایک دوسرے کو قریب سے سمجھنے اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلنے اور آگے بڑھنے کے لیے ماحول سازگار بنایا جائے تاکہ تعصب، تشدد، منافرت اور بد اعتمادی پر مبنی رویوں کی حوصلہ شکنی ہو اور باہمی احترام کے فروغ، قانون کی بالادستی، حقوق کے تحفظ، مراعات اور وسائل کی یکساں تقسیم اور باہمی تعامل و تعاون کے رویوں کی تربیت کے ذریعے نئی نسل کو عصری تقاضوں کے مطابق آگے بڑھنے کے مواقع ملیں۔
اس سلسلے میں دنیا کے مختلف ممالک میں سامنے آنے والے تحقیقات و مطالعات اور تجربات سے استفادہ کیا جائے نیز مختلف ممالک کے دانشوروں، علماء، اساتذہ، محققین اور طلبہ کے مابین تعلیمی و تحقیقی تعامل کو آگے بڑھانے اور پُرامن بقائے باہمی کے امکانات کو تقویت دینے کے لیے نئے سماجی رجحانات کو پروان چڑھایا جائے.
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اور ترقیات جناب پروفیسر احسن اقبال کی پالیسی بیان سے شروع ہونے والے اس اجلاس کی اختتامی تقریب میں سینٹ آف پاکستان کے رکن جناب سینیٹر عثمان کاکڑ نے خطاب کیا اور قومی اور عالمی حالات کے تناظر میں مذہبی ہم آہنگی کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالی ۔
اس اجلاس میں ملک بھر کی مختلف یونیورسٹیوں اور اداروں سے تشریف لائے ہوئے احباب سے ملاقات کا موقع ملا جن سے بہت کچھ سیکھنے اور اپنے تجربات و خیالات کا تبادلہ کرنے کا زرین موقع ملا۔ دو روزہ مشاورتی اجلاس کے انعقاد، انتظام اور اہتمام میں پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز ، محترمہ ندرت بانو اور ڈاکٹر سعید شفیق نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اس اہم قومی اجلاس میں دعوت پر آپ منتظمین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس کی بھرپور کامیابی پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اس سلسلے کی مزید قومی سطح پر پیش رفت اور پذیرائی کے لئے دعا گو ہوں۔