پاکستانی کینو پر موسم کے اثرات

پاکستان کے صوبہ پنجاب کا شہر سرگودھا اپنے کینو کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ لیکن اس سال یہاں کینو کی کاشت کرنے والا کسان کچھ مشکل کا شکار ہیں اور اس کی وجہ پاکستان کے کینو کی کاشت کے علاقوں میں بروقت بارشوں کا نہ ہونا ہے، جس کی وجہ سے کینو کا معیار متاثر ہوا ہے اور چھوٹے کاشتکار کو اس کے مناسب دام نہیں مل رہے۔

مہر محمد اقبال ان ہزاروں کسانوں میں سے ایک ہیں جو پچھلی کئی دہائیوں سے سرگودھا میں کینو کی کاشت کر رہے ہیں لیکن اس سال بروقت اور ضرورت کے مطابق بارش نہ ہونے کے باعث کینو کی یہ فصل متاثر ہو رہی ہے۔کسان مہر محمد اقبال نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بارش نہیں ہوئی اس کی وجہ سے کینو کی مضبوطی کم ہوئی ہے، رنگت بھی صحیح نہیں آئی اور اب کینو سکڑ رہا ہے کیونکہ وہ اپنی ڈنڈی چھوڑ کر گر رہا ہےـ بارشیں ہوتیں تو کینو مضبوط ہوتا۔ جب پورا پانی نہیں ملتا تو وزن کم ہو جاتا ہے اور اگر زیادہ پانی لگائیں تو وائرس پڑ جاتا ہے جو سارے کینو کو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ بارشوں ہونے سے اس وائرس کے پھیلنے کے کم امکان ہوتے ہے۔‘
پاکستان میں کاشت کیے گئے کینو کی کل 95 فیصد پیداوار سرگودھا، فیصل آباد اور ساہیوال میں کی جاتی ہے۔ سرگودھا میں کینو کے باغات اور ان سے ملحقہ 360 سے زائد فیکٹریاں ہیں جہاں اس وقت پھل کی چنائی اور صفائی پورے زور و شور سے جاری ہے۔

مقامی فیکٹری مالکان کا کہنا ہے کہ کینو کی مٹھاس ضرور کم ہے لیکن موسمی تبدیلیوں کا ایکسپورٹ پر بظاہر کوئی اثر نہیں پڑا۔
مٹیلا کینو فیکٹری کے مالک انصر اقبال ہرل نے بتایا: ’کوالٹی اگر پچھلے سال سے موازنہ کریں تو اس سال بہتر ہے لیکن اس سال (پھل کی) رنگت دیر سے آئی ہے اس کی وجہ موسم ہے۔ سردی سے اس کا رنگ بڑی تیزی سے تبدیل ہوتا ہے۔ اس دفعہ سردی دیر سے آئی ہے تو یکم دسمبر سے ہونے والی چنوائی تاخیر کا شکار ہو کر 15 دسمبر سے ہوئی ہے لیکن کینو کی ظاہری حالت بہت اچھی ہے، پچھلے سال کے مقابلے میں تقریباً 30 سے 35 فیصد اے گریڈ پھل بنتا تھا جو برآمد کے قابل تھا اور اس سال یہ تناسب 60 فیصد ہو گیا ہےـ‘

اب تک کے برآمدی رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے، محکمۂ زراعت کے افسران کینو کی پیداوار سے مطمئن نظر آتے ہیں۔سرگودھا کے محکمۂ زراعت کے ہارٹیکلچر آفیسر، ڈاکٹر بشارت علی سلیم نے بی بی سی کو بتایا: ’اب تک 70 ہزار ٹن کینو برآمد ہو چکا ہے۔ درمیان میں اس میں کمی آئی تھی لیکن اب دوبارہ انڈونیشیا کی طرف برآمدات جا رہی ہیں اور جو ہماری بہت ساری مارکیٹیں پوشیدہ ہیں وہاں پر بھی اب کینو جا رہا ہےـ امید ہے کہ پچھلے سال سے ایکسپورٹ سیم ہو گی یا ہو سکتا زیادہ ہو جائے ـ‘
کینو برآمدی ہدف تو پورا کرتا نظر آ رہا ہے لیکن وہ کاشتکار جو اپنا کینو مقامی مارکیٹ میں فروخت کرتا ہے، اسے اپنی فصل کے مناسب دام نہیں مل رہے۔ اس کی ایک وجہ حکومت ہے جو کینو کی خرید کے لیے مقرر کردہ سرکاری نرخ میں خاطر خوا اضافہ نہیں کر رہیں۔

کسان مہر محمد اقبال نے بتایا کہ ’سال در سال ریٹ میں کوئی فرق نہیں پڑتا ـ بلکہ 20، 30، 40 روپے کم ہی ہو جاتا ہے ،اخراجات تو ہر سال بڑھ جاتے ہیں ـ اس سال بہت سے باغات گنے کی نظر ہو جائیں گے ـ کینو 60 یا 65ہزار روپیہ فی ایکڑ دے رہا ہے ، اس لیے کسان اب اسے نکال کر کماد لگائیں گے کیونکہ کماد دو لاکھ روپیہ بنا رہا ہے۔‘ ملک سے باہر جانے والا بیشتر کینو فیکٹری مالکان کے اپنے باغات میں تیار ہوتا ہے جس کے وہ مناسب دام بھی لے لیتے ہیں اور غیر موافق موسمی حالات کا مقابلہ کرنے کے ذرائع بھی رکھتے ہیں۔ خراب موسم کا اثر ان چھوٹے کاشکاروں پر پڑتا ہے جن کی مدد کو حکومت بھی اب تک نہیں آئی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے