روشن خیالی یاتاریک خیالی ولادینیت

عدل و انصاف اس کائنات کا خاصہ ہے ،مالک و خالق کائنات نے کائنات اور کا ئنا ت میں موجود ہر شے کو قانون عدل پر استوار کیا ہے،اور وہ اس دنیا کے ہر انسان کوبلا تفریق مذہب و ملت،قوم و نسل ،علاقہ یا ملک اس کی ضرورت کی ہر چیز مسلسل عطا کر رہا ہے ،سورج کی روشنی سب کو یکساں مہیا کر رہا ہے ،بارش سب انسانوں کے لیئے برابر ہے،آکسیجن بھی تمام انسانوں کے لیئے یکساں مہیا کی جا رہی ہے یہ سب عدل اور مالک کائنات کے عادل ہونے کی نشانیاں ہیں۔

اسی مالک کائنات کی خصوصی عنایت یہ ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان پیدا کیا اور ہمیں اسلام جیسا مذہب عطا کیا ،اسلام ایک دین فطرت اور مکمل ضابطہ حیات ہے اور زندگی کی تمام جہتوں اور تمام پہلوؤ ں کے بارے میں مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے ،اسلام کے ظہور کا بنیادی مقصد معاشرتی نا انصافی اور قانون شکنی کا خاتمہ اور معاشرے میں عدل و انصاف کا قیام ہے،اسلام میں قانون سب کے لیئے برابر ہے ،اس میں جنس ،رنگ ،نسل کی کوئی اہمیت ہے اور نہ مخض دولت ،رشتے تعلقات،دوستی حتیٰ کی ہم مذہب یعنی مسلمان ہونے کی بنا پر کسی سے کوئی امتیاز سلوک روا رکھا جاتا ہے۔

مختصراً یہ کہ اسلام نے معاشرے کی بقا کی ضمانت عدل و انصاف بتائی ہے ،مملکتِ خداداد پاکستان کی بنیاد بھی نظریہ اسلام پر رکھی گئی،قیام پاکستان کا مقصد زمین پر مالک کائنات حاکمیت،شریعت اسلامیہ کی اور نبوت محمدﷺ کی کاملیت،جامعیت،آفاقیت اور عالمگیریت کے دعویٰ کے اثبات کے لیئے تجربہ گاہ بنا نا تھا ، اور اسی اصول کو اپناتے ہوئے نام ،،اسلامی جمہوریہ پاکستان،، رکھا گیا آئین پاکستان کہتاہے:

؛The Republic and its territories

(1)Pakistan shall be a Federal Republic to be known as the Islamic Republic of
pakistan,hereinafter referred to as Pakistan………………………………………………..

2.Islam to be State religion Islam shall be the State religion of Pakistan…………. [3]2A.The Objective Resolution to form part of substantive provisions.The principles and provisions set out in the Objectives Resolution reproduced in theAnnex are hereby made substantive part of the Constitution and shall have effect accordingly.

(۱) جمہوریہ اور اس کے علاقے؛

۱ ؛پاکستان ایک وفاقی جمہوریہ ہوگا جسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے پکارا جائے گا اور اب اس آئین میں اسکا ذکر پاکستان کے نام سے کیا جائے گا ۔۔

۲؛اسلام،سرکاری مذہب:
اسلام پاکستان کا سرکاری مذہب ہوگا۔

(الف) قراردا مقاصد میں دئیے گے اصولوں اور شقوں کو دستورکا موثر حصہ بنا دیا گیا ہے اور یہ اسی طرح لاگو ہوں گے۔

آئین کی اس عبارت سے یہ بات واضح ہوتی ہیں کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور اسلام پاکستان کا سرکا ری مذہب ہے ،اور آئینی طور پر پاکستان میں اسلام کا نفاذ ضروری تھا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والی اس ریاست میں اسلام کا نفاذ کس حد تک ہوا؟ کہاں تک اسلامی عدل وانصاف کے تقاضے پورے ہوئے؟شاید ان سوالوں کا جواب قائداعظم کے پاکستان پر حکومت کرنے والوں کے پاس نہ کل تھا اور نہ آنے والے کل میں ہوگاکیونکہ ان سوالات کا جواب صرف عادل حکمران دے سکتے ہیں ،جن کی نس نس میں دولت کی اور دنیاوی مفادات کے حصول کی ہوس کوٹ کوٹ کر بھری ہو ان کے پاس ان سوالات کے جواب نہیں ہوتے۔

اسلامی تاریخ کے اوراق کو الٹا دیکھا جائے تو حضرت عمرؓ جیسے عادل حکمران کی مثالیں سنہرے الفاظ میں ملتی ہیں اور اگر حضرت عمرؓ کے بعد کے اسلامی ادوار حکومت کی بات کی جائے تو سلطان نور الدین زنگی اور سلطان صلاح الدین ایوبی جیسے بے شمار حکمران نظر آتے ہیں جن کی مثالیں دی جاسکتی ہیں،مگر ان مثالوں کو جب ہم مملکت خداداد پاکستان میں دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنا دامن تہی دست نظر آتا ہے ،

جو کردار ہمارے اسلاف نے ہمارے لیئے چھوڑا تھا اس کا ذرا بھر بھی ہمارے حکمرانوں میں نظر نہیں آتا،جو بھی آیا اسنے جائز و ناجائز طریقے سے اپنے اقتدار کو ہی دوام دیا ،اپنے اثاثے بنائے ،اپنے مفادات پر غریبوں کو قربان کیا،کسی نے اسلام کے نام پر عوام کو بیوقوف بنایا تو کسی نے قوم پرستی کا نام لے کر پروپگنڈا کیا،کسی نے روٹی کپڑا ،مکان کا لالچ دے کر اپنا مطلب نکالا تو کسی نے ہسپتالوں ،سڑکوں اور اداروں کے نام پر آف شور کمپنیاں بنائیں،غرضیکہ ملک و قوم کو لوٹنا اور اپنے مفادات حاصل کرنا ہی اسلام کے نام پر بننے والی اس ریاست کے حکمرانوں کا مقصد زندگی ہے تو ایسے حکمران عدل و انصاف کے سوالوں کا جواب کیا دیں گے۔

قائد کے پاکستان کو مفاد پرست حکمرانوں نے ایک مثالی اسلامی ریاست بنانے کی بجائے کرپشن کا گڑھ بنا دیا ہے ،گیٹ پر کھڑے چوکیدار سے لے کر وزیر اعظم کا سیکر ٹری تک کرپشن زدہ ہے ،حضرت عمرؓ راتوں کو سڑکوں پر نکل کر لوگوں کی فریاد سنتے تھے یہاں حکمرانوں کو فریادیوں سے ملنے کا وقت تک میسر نہیں ہوتا،عادل حکمران زمین پر چلنے والی چیونٹی کی جان کی حفاظت بھی اپنا فرض سمجھتے تھے،یہاں انسانوں کی جانیں حکمرانوں کے پروٹوکول کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔

انصاف کے تقاضے اس حد تک پورے ہوتے ہیں کہ کہیں تو ایک عورت کے ساتھ اجتماعی زیادتی کرنے والے درندے ثبوت ناکافی ہونے کی وجہ سے باعزت بری ہو جاتے ہیں ،تو کہیں کرپشن زدہ حکمرانوں کے مقدمے عدالتوں میں چلتے رہتے ہیں اور وہ یکے بعد دیگرے حکومت کے ادوار گزار کر بیرون ملک عیش وعشرت کی
زندگی میں مصروف ہوجاتے ہیں اور مقدمے بند ہوجاتے ہیں۔

حکمرانوں کی اسی غیر اسلامی روش اور مغربی طور طریقوں کی تقلید کی آج اسلام کے نام پر بننے والا پاکستان دہشت گردی،معاشرتی برائیوں اور بے شمار مسائل کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے ترقی کی بجائے ملک تنزلی کی طرف جا رہا ہے اور اگر کوئی باضمیر مسلمان ان مغربی طور طریقوں کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو اسے دقیانوسی خیالات کا حامل قرار دے کر اسکی آواز دبا لی جاتی ہے ،مغربی تقلید کو روشن خیالی کا نام دیا جاتا ہے،روشن خیالی کے بارے میں ایک جرمن فلاسفر،، کانٹ،، اپنے مضمون What is Enlightenmentمیں لکھتا ہے؛

Enlightenment is man’s emergence from his self-imposedimmaturity.
Immaturity is the inability to use one’s understanding without guidance from another. This immaturity is self-imposed when its cause lies not in lack of understanding, but in lack of resolve and courage to use it without guidance from another. Sapere Aude! [dare to know] "Have courage to use your own understanding!”–that is the motto of enlightenment…………………………………

یعنی روشن خیالی سے مراد انسان کا خود پر عائد کردہ ذہنی نا پختگی سے نجات حاصل کرنا ہے۔یہ ذہنی ناپختگی اپنے عقل و فہم کو استعمال نہ کر سکنے کی کیفیت ہے مگر اس کی وجہ انسانی عقل و فہم کا عدم وجود نہیں بلکہ انسان کے اندر اس جرات اور پختہ آرادے کی کمی ہے جو اسے کسی اور کی رہنمائی کے بغیر اپنا عقل استعمال کرنے کے قابل بنا سکے اپنی عقل و فہم استعمال کرنے کی جرات کرو یہی روشن خیالی کا مقصد ہے۔

روشن خیالی کی اس تعریف کی رو سے روشن خیالی میں اللہ،رسول اور کتاب اللہ کی کوئی گنجائش نہیں انسان کے روشن خیال ہونے کے لیئے ضروری ہے کہ وہ اپنی عقل کو اس طرح استعمال کرے کہ اس پر کسی کتاب یا مذہبی شخصیت کا ہر گز تسلط نہ ہو،جبکہ اسلام کے مطابق یہ روشن خیالی نہیں ،،تاریک خیالی ،، جو جہنم کی طرف لے جاتی ہے،کیونکہ کتاب اللہ کی رہنمائی کے بغیر سیدھے رستے کا انتخاب ناممکن ہے۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سمندر کی گہرائی تک سوچنے والے دماغ سے یہ بھی سوچیں کہ کب تک ہم قائد کے اس پاکستان کو لٹتے دیکھتے رہیں گے؟ کب تک غریبوں کا استحصال ہوتا رہے گا ؟کب تک انصاف بکتا رہے گا اور طاقتور اپنی طاقت کے نشے میں کمزوروں پر ظلم کرتے رہیں گے؟اور کب تک روشن خیالی کا یہ زہریلا وائرس ہمارے اخلاقی اور اسلامی اقدار کو پامال کرکے اس ملک کو سسٹم کو دیمک کی طرح چاٹتا رہے گا؟ کب اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قانون کی بالادستی ہوگی اور کب انصاف غریب کو اس کی چوکھٹ پر ملے گا۔۔۔۔؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے