پاکستان سعودی تعلقات اورمسلم اتحاد

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات چودہ سو سال پرانے ہیں۔تہذیبی،ثقافتی،مذہبی،سیاسی،معاشی اور دفاعی اعتبار سے دونوں ممالک کافی حد تک مماثلت رکھتے ہیں۔دونوں کےنظریات، مفادات اورترجیحات یکساں ہیں۔دنیا میں اسلام کی نمائندگی کے لیے آج جس ملک کا نام لیا جاتاہے تو وہ یہی دو ملک ہیں۔مذہبی اعتبار سے یہی دو ملک ہیں جہاں مسلمان اپنے عقائد اور نظریات پر سختی سے کاربند ہیں۔عالم اسلام میں جب کبھی مسلمانوں پر کڑا وقت آئے تو یہی دونوں ملک آگے بڑھ کر فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔عالم اسلام میں سعودی عرب کو حرمین شریفین اور پاکستان کو ایٹمی قوت ہونے کے ناتے مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

سعودی عرب میں حرمین شریفین کی موجودگی کی وجہ سے پاکستان فطری طور پر سعودی عرب کے ساتھ ہمیشہ سے اچھے تعلقات کا خواہاں رہاہے۔سعودی عرب بھی شروع سے پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات نبھاتاآیاہے۔بھارت کے ساتھ پاکستان کی تین بڑی جنگیں ہوں یا پھربنگلہ دیش کی علیحدگی کا معاملہ ہو یا پھرکشمیر تنازعہ سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا۔پاکستان کے ایٹمی دھماکوں پرجب پاکستان امریکی دباؤ کا شکار تھا،تب سعودی عرب نے پاکستان کو سیاسی حمایت اورسپوٹ فراہم کی۔بعدازاں ایٹمی دھماکوں پر سعودی عرب ہی نے سب سبے پہلے پاکستان کو مبارکباد دی۔

شایداسی وجہ سے2013ء میں بی بی سی نے سعودی عرب پرپاکستان کے ایٹمی پروگرام میں معاونت کاالزام بھی لگایا جسے دونوں ملکوں نے مسترد کردیا۔معاشی طور پردونوں ملکوں کے تعلقات شروع دن سے مضبوط ہیں۔دنیا میں سعودی عرب واحد ایسا ملک ہے جہاں85 لاکھ اوور سیز پاکستانیوں میں سے 22 لاکھ سے زیادہ پاکستانی موجود ہیں۔جو کسی بھی ملک میں اوورسیز پاکستانیوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔سعودی عرب میں موجود یہی پاکستانی سب سے زیادہ زرِمبادلہ پاکستان بھجواتے ہیں۔گزشتہ سال 19ارب ڈالر کی رقم سعودی عرب سے انہی پاکستانیوں نےبھجوائی۔اس کے علاوہ جب بھی پاکستان مشکلات سےدوچار ہوا توسعودی عرب نے پاکستا ن کی مدد میں ہمیشہ دیگر ممالک سے بڑھ کر کردار اداکیا۔چنانچہ ایٹمی دھماکوں کے جرات مندانہ فیصلے کے بعد سعودی عرب نے یومیہ پچاس ہزار بیرل تیل پاکستان کو دیا۔

2014ء میں سعودی عرب نے پاکستان کی معاشی حالت کی بہتری کے لیے 1.5بلین ڈالرز کی امداد دی۔جب کہ پاکستان میں زلزلے سمیت دیگر آفات کے دوران سعودی عرب کے مالی مدد اس کے علاوہ ہے۔دفاعی طور پرسعودی عرب پاکستان کا سب سے بڑا حلیف پاٹنر ہے۔نہ صرف اپنی فوج کی تربیت کے سلسلے میں سعودی عرب پاکستانی فوجی اکیڈمیوں پر انحصار کرتاہے،بلکہ دفاعی آلات خریدنے میں بھی سعودی عرب پاکستان سے معاہدے کرتاہے۔

چنانچہ2014میں سعودی عرب نے پاکستان سے میزائل اور جی ایف 17تھنڈرطیارے خریدے۔سعودی عرب کے ساتھ پاکستان فوج کی مشترکہ مشقیں،سعودی فوجیوں کی ٹریننگ اور سعودی عرب پر حملے کی صورت پاکستان کا سعودی عرب کے ساتھ دینے کا معاہدہ اور اس جیسی دیگر کئی چیزیں ہیں،جن سے مغربی طاقتیں بہت نالاں ہیں۔چنانچہ ماضی میں برطانیہ،امریکا اور اسرائیل کئی بار پاکستان پر الزام لگا چکےہیں کہ وہ سعودی عرب کوایٹمی ہتھیار بنانے میں مدد کررہاہے۔

عالمی طاقتوں کی نظر میں پاکستان اور سعودی عرب کےتعلقات شروع دن سے کھٹکتے رہے ہیں۔ماضی میں کئی بار دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے خلاف ابھارا گیا۔حالیہ سعودی عرب اور یمن جنگ میں بھی دونوں ملکوں کے تعلقات خراب کرنے کے لیے مبینہ طور پر عالمی طاقتوں نے خوب زورآزمائی کی ہے۔اس کے پیچھے عالمی طاقتوں کی وہی سوچ کارفرما ہے جس کے مطابق وہ مسلمانوں کو متحدنہیں ہونے دیتیں۔

اس کے لیے کبھی وہ مسلمان ملکوں کو آپس میں فرقہ واریت اور سیاسی مفادات میں الجھا کر ایک دوسرےکا حریف بناتی ہیں،تو کبھی بردار اسلامی ملکوں میں براہ راست یا بالواسطہ دراندازی کرنے کی راہ سجھاتی ہیں۔دنیا میں جہاں کہیں مسلمان ملکوں پر ظلم ہورہاہے ۔اس کے پیچھے عالمی طاقتوں کی یہی پالیسی کارفرمارہی ہے۔چنانچہ افغانستان پر حملہ کرتے وقت پاکستان کو مجبور کرکے امریکاکے خلاف جانے سے روکا گیا۔

عراق میں ایک مفروضہ قائم کرکے خلیجی ممالک کو صدام حسین کی حمایت کرنے سے باز رکھاگیا۔لیبیا،شام اور یمن میں خانہ جنگی کی آگ بھڑکاکر دیگر اسلامی ملکوں کو اس سے دور رہنے کا مشورہ دیاگیا۔حالاں کہ نظریاتی طور پر پوری دنیا کے مسلمان ایک قوم ہیں،رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ایک مسلمان کی تکلیف دوسرے مسلمان کی تکلیف ہے۔دونوں آپس میں بھائی بھائی اور ایک جسم کی مانند ہیں۔

بدقسمتی سےعالمی طاقتوں نے اس نظریے کو” نیشن سٹیٹ” اور جمہوریت کے ذریعے مسلمانوں کے ذہنوں سے نکال کر وطنیت اور قومیت کاجاہلی نعرہ تھمادیاہے۔یہی وجہ ہے کہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت آج ہرمسلمان کی یہ سوچ بنادی گئی ہے کہ اگریمن،شام،عراق ،افغانستان اور کشمیر میں کوئی مظلوم مررہاہے تو اسے جانبدار رہ کر اپنی جان اور اپنے ملک کی فکر کرنی چاہئے۔

یہی منطق 39 ملکوں کے اسلامی اتحاد اور جنرل راحیل شریف کی اسلامی اتحاد میں شمولیت پر دہرائی جارہی ہے۔جب کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرقیمت پر مظلوم کی مدد کرنے کا حکم دیاتھا۔فرمایاکہ”مظلوم کی اور ظالم کی مدد کرو”پوچھا گیا یارسول اللہ مظلوم کی مدد تو سمجھ میں آتی ہے،ظالم کی مدد کیسے کی جائے؟ارشاد فرمایا”ظالم کو ظلم سے روک کر اس کی مدد کی جائے”(بخاری)۔

15دسمبر2015ء کوسعودی عرب کی جانب سے 58 اسلامی ممالک میں سے 39 ملکوں کے قائم ہونے والے اسلامی فوجی اتحاد پر قومیت اوروطنیت کے علمبرداروں نےخوب شور شرابہ برپاکیا تھا۔حالیہ دنوں اس اسلامی فوجی اتحاد کی سرابراہی کےسلسلے میں جنرل راحیل شریف کی تقرری پر ایک مرتبہ پھر ہنگامہ برپا کیاجارہاہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ابھی تک جنرل راحیل شریف کی اس اتحاد کی سربراہی کے سلسلے میں سعودی عرب سمیت دیگر عرب میڈیا پر کوئی خبر نہیں آئی ۔لیکن یہ پاکستانی حکمران ہیں جوقوم کو خوامخواہ الجھائے رکھتے ہیں۔

جنرل راحیل شریف کے سربراہ بننے کی خبر پاکستانی وزیردفاع خواجہ آصف نے سب سے پہلے میڈیا کو یہ کہہ کردی کہ راحیل شریف کا اسلامی فوجی اتحاد کا سربراہ بننا پاکستان کے لیے اعزاز ہے۔جب اس پرآوازیں اٹھنے لگیں تو خواجہ آصف نے اگلے دن انکار کرتے ہوئے کہا کہ راحیل شریف نے اس سلسلے میں کوئی رابطہ نہیں کیا۔یہی حکمران ہیں جنہوں نے ٹرمپ سے وزیراعظم کی مبینہ ٹیلی فونک بات چیت کو میڈیا کے حوالے کیا تھا جس پر امریکی انتظامیہ نے پاکستان کی خوب کلاس لی تھی۔

بہرحال پاکستان کے حصے میں اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی آئے یا نہ آئے،پاکستان کو سعودی عرب سے اپنے تعلقات ہرگز خراب نہیں کرنے چاہئیں۔کیوں کہ اس وقت عالم اسلام کو جس طرح تنہا کرکے لوٹا جارہاہے اس میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں معمولی سابگاڑ بھی بہت بڑی تباہی کاباعث بن سکتاہے۔مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال کو بہتر بنانے اور مظلوم مسلمانوں کی حمایت کرنے میں پاکستان ،ترکی اور سعودی عرب اس اسلامی فوجی اتحاد کے ذریعے اہم کردار اداکرسکتے ہیں،بشرطیکہ اس تحاد کو امریکا یا دیگر غیر اسلامی طاقتوں کے مفادات اور ان کی حمایت سے بالاہوکر استعمال کیا جائے۔

اس لیے پاکستان کو نہ صرف اس اتحاد میں ہر طرح کا کردار ادا کرنا چاہئے بلکہ اس کی قیادت بھی کرنی چاہئے۔اس اتحاد کے حالیہ چودرکنی ارکان کےاجلاس میں امریکا کی شرکت سے خدشات پیداہورہے ہیں کہ کہیں یہ اتحاد اپنے مقاصد میں ٹھیک طرح کامیاب نہ ہوپائے۔اللہ کرے ایسا نہ ہو، لیکن بہرحال اتحاد کو کامیاب بنانے اور باقی رکھنے کے لیے اتحاد میں شریک اسلامی ممالک کو امریکا سمیت دیگر غیرمسلم طاقتوں پر انحصار کی بجائے امت مسلمہ کے مجموعی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے بغیر کسی دباو کے آزادفیصلے کرنا ہوں گے،تاکہ مسلمانوں کو تنہا کرکے لوٹنے والوں کے خفیہ عزائم کو روکا جاسکے ۔

کتنی عجیب بات ہے کہ عیسائی یہودیوں سے ہزاروں سالہ دشمنی ختم کرکے ان سے اتحاد کرلیتے ہیں اور ہم مسلمان باوجود بھائی چارے اور اخوت کے رشتے کے ایک دوسرے سے اتحاد نہیں کرسکتے؟

حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جومسلمان بھی ایک

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے