تو ہم کہاں جائیں پھر؟

لبرل ہوں کہ کنزرویٹو،،،اسلام سب سے نیا اور روشن خیال دین ہے اس نے پہلے مذاہب کی تمام فرسودہ اور تحریف شدہ روایات کو توڑ کر سادہ اور سیدھا دین سمجھایا۔ دیگر مذاہب کے پیشوا اپنے تنگ نظر بنیاد پرست مذاہب کو اپنی عبادت گاہوں تک محدود بلکہ محصور کرکے اسلام کے راہنما اصولوں کو اپنا کر اسے لبرل ازم کا نام دے کر اس کی طرف آئے۔ کاروبار حیات میں جو اعلی روایات کردار اور اخلاق ایک مسلمان کی پہچان ہوا کرتا تھا وہ دیگر اقوام نے اپنا لیا اور ترقی کرنے لگے اور ہم کنزرویٹو ازم اور لبرل ازم کو سمجھے بنا دونوں کو مسخ کرکے اپنا رہے ہیں۔

جن کے ہاتھ دین لگ کیا انھوں نے اصل پیغام کو سمجھنے کے بجائے شخصیت پرستی اپنا لی اور اپنا اپنا بزرگ الگ کر کے اسے ہی پوجنے لگے۔ اور ان بزرگان نے انھیں ابھی تک طہارت اور ہاتھ باندھنےجیسے مسائل میں الجھا بلکہ لوگوں کو لڑا دیا۔کہیں کہیں تو کھیرا کاٹنے کیلے کو محفوظ کرنے کا مسنون طریقہ بھی سکھایا جا رہا ہے۔ میں برصغیر میں اسلام کا پیغام لانے اور پھیلانے والے اولیاءالله کی بات نہیں کر رہی جنھوں نے اپنی زندگیاں قربان کر دیں الله اور رسول کا پیغام پہنچانے کے لئے، یقیناً ان کا پیغام حق و سچ ہو گا لیکن کوئی بتائے گا پاکستان بھر میں وہ تمام مزارات جہاں دن رات دیگیں چڑھتی ہیں مرادیں مانگی جاتی ہیں ان بزرگان اور صاحب قبر نے زندگی بھر کیا تعلیم دی؟ کسی کو یاد بھی نہیں ہو گی بلکہ بتائی ہی نہیں گئی۔ ان بزرگان کے دنیا سے جانے کے بعد کی کرامات اور ان کے مزار پہ آئے لوگوں کی معجزاتی طور پہ قبول مرادوں کے علاوہ کبھی کچھ سنا نہ پڑھا۔ ایک الله اور آخری نبی(ص) کو ماننے کے باوجود سب دوسرے کو کافر کافر قرار دے کر بقول ابن انشاء دائرہ اسلام سے باہر ہی کیے جا رہے ہیں۔

ایک ہی الله ایک ہی نبی کی امت اپنےہی نبی کی ناموس کے لئے دوسرے کی جان کے در پہ، رسولِ الله (ص) کے لئے سر کٹانے کو بھی تیار لیکن ان کی سنت پہ عمل نہیں ہوتا، اور ہو بھی کیسے اپنے ڈیڈھ اینٹ کےبزرگ کی پرستش سے فرصت ملے تو اپنی آنکھوں اور دماغ سے پڑھیں اور سوچیں کہ سنتِ رسول(ص) کیا ہے۔ اپنے اپنےصحابہ بھی بانٹ لئے سنت اور حدیث بھی بانٹ لی فتاوی بھی بانٹ لئے۔ جو ان کے نظریے کے خلاف ہو اس پہ گستاخ رسول کی تہمت لگاؤ اور اپنے پیروکارو کو ریاست کا اختیار دے کر قتل ان پہ فرض کر دو۔

اس سے تنگ آکر کچھ لوگ خود کو لبرل کہنے لگے اور دوسروں کی دیکھا دیکھی مذہب کو مسجد تک محدود کرنے کی بات کرنے لگے۔ اوروں نے تو لبرل ہو کر لین دین اور معاملات میں برداشت رواداری دیانتداری سلامتی اور میانہ روی کو اپنایا لیکن ہمارے لبرل مادر پدر آزادی کو لبرل ازم کہنے لگے(حالانکہ اس جانوروں کی طرز زندگی کو جنھوں نے آزادی کا نام دیا تھا اب وہ بھی اس سے تنگ ہیں )۔ پہلے پہل بدعات پہ احتجاج کیا پھر بات بزرگوں تک آئی ہر کوئی دل میں گھٹن تو دبا کر بیٹھا ہی تھا ذرا سا راستہ ملا اور واه واه کا شور سنائی دیا داد و تحسین تو اچھے اچھوں کو فرعون بنا دیتی ہے وہ تو بس باغی تھی ماحول کی گھٹن کے ہولے ہولے حوصلے بلند ہوتے گئے اور اب بات بزرگوں کے بعد صحابہ پر آئی پھر دین پر اور پھر انبیاء پر ۔۔۔۔

اب آپ خود کو لبرل کہیں تو اسکا مطلب آپ مادر پدر آزاد ، شرم و حیا سے آپ کا کوئی تعلق نہیں، دین سے بیزار مذہب اسلام نبی اور الله کے خلاف بات آپ کو اظہار خیال کی آزادی لگے(مذہب سے نفرت بہرحال نہیں کیونکہ ایساہوتا تو مذہب تبدیل کر لیتے)، مخلوط محفل کا مطلب فحاشی اور فحش گفتگو (جسے مذاق کہا جاتا ہے) صنف مخالف کا مطلب تختہ مشق ضرور کوشش کریں (دونوں اصناف کا عالم ہے یہ) ڈگری یافتہ ضرور ہیں لیکن تربیت سے محروم کیونکہ تربیت تو تمیز لحاظ اور حدود سکھاتی ہے۔

حد تو یہ کہ تعلیم بھی بانٹ لی ایک دنیاوی تعیلم تو دوسری دینی تعلیم۔ عقل کے اندھوں کیا علم بھی الگ الگ ہوا ہے تمام مضامین جو ماڈرن کہہ کر پڑھائے جا رہے ہیں وہ قرآن سے ہی ماخذ ہیں کیا قرآن فزکس،کیمسٹری،میڈیکل،فلکیات،ستاروں ،نظام شمسی،موسموں کی تبدیلی،چاند کی منازل،کاروبار کےاصول،انسان کی پیدائش،دن اور رات کی تبدیلی، لہروں،بارش،چیونٹی،شہد کی مکھی،دریا سمندر، ہسٹری،جیوگرافی پہ غور کرنے کو نہیں کہہ رہا؟ کون سا دنیا کا علم ہے جس کی طرف قرآن نہیں بلا رہا تحقیق کرنے کو علم حاصل کرنے کو نہیں کہہ رہا؟ پھر دینی اور دنیاوی تعلیم الگ الگ کیسے ہو گئی۔ ایک نے پورے تقدس سے اسے پڑھا ازبر کر لیا لیکن بس سمجھا اتنا ہی جتنا ان کے بزرگ نے بتا دیا۔ دوسرے نے ضحیم کتابیں ایک ٹاپک پر پڑھ پڑھ ڈگریاں تو لے لیں لیکن اس کا فارمولا اور کوڈ جہاں سے تحقیق کا در کھلا اسے نظر انداز ہی کر دیا۔

صرف ایک قدر پر دونوں ازم متفق ہیں اور وہ یہ کہ دوسرے کی بات پسند نہ آئے تو غلیظ گالیاں دو۔(اسلام آباد کا ڈی چوک نے دونوں مکتبہ فکر کی گالیوں کا گواہ ہے اور یہ ریکارڈ کا حصہ ہے)

دونوں ازم کی ان انتہاؤں میں جو میانہ روی اختیار کیے ہوئے ہیں جو دین سے بھی محبت کرتے ہیں الله اور انبیاء سے بھی جو تعیلم بھی حاصل کرتے ہیں لیکن کب کیا بولنا ہے سنبھل کے بولتے ہیں مخلوط ماحول میں پڑھتے اور کام بھی کرتے ہیں لیکن اپنی نظروں کی حفاظت بھی کرتے ہیں صنف مخالف سے interactکرتے ہوئے حدود کا خیال رکھتے ہیں جو میانہ روی اور برداشت اختیار کئے ہوئے ہیں وہ شدید مخمصے کا شکار ہیں نہ وہ کنزرویٹو کہلانا چاہتے ہیں نہ لبرل جائیں تو کہاں جائیں اب ضرورت ہے کہ ان کے لئے بھی ایک ازم ایجاد کیا جائے .

کہے آپ کا کیا خیال ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے