جماعتِ اسلامی آزادکشمیر کامیاب حکمت کار

آزادکشمیر میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں جماعتِ اسلامی آزادکشمیر نے ن لیگ سے اتحاد کرکے دو نشستیں حاصل کیں ایک ٹیکنوکریٹ کی نشست اور دوسری خواتین کی مخصوص نشست ۔ میاں صاحب کے مشیر برائے امورِ کشمیر/ سیاسی امور ، کشمیر کے سیاہ و سفید بننے کی ناکام کوشش کرنے والے ، ڈاکٹر آصف کرمانی نے دو دن قبل ایک بیان داغا ” جماعتِ اسلامی یا تو ہماری مخالفت چھوڑ دے یا پھر بھیک میں ملی ہوئی دونوں سیٹیں واپس کردے ”

اس بیان کو لے کر جہاں سیاسی مخالفین نے جماعتِ اسلامی پر تابڑ توڑ حملے کیے ۔ کچھ صحافی حضرات اور دیگر تجزیہ کار جماعتِ اسلامی پر چڑھ دوڑے اور اسے دوغلی پالیسی کہنے لگے ۔ چھوٹے پن کی حد ، آزادکشمیر کے قائم مقام وزیرِ اعظم نے بھی اس بیان پر جماعتِ اسلامی کو ” للکارا”۔

سب سے پہلی بات یہ کہ 2 سیٹیں لینا جماعت کی مجبوری نہیں تھی ، دو سیٹیں دینا ن کی مجبوری تھی ۔ اُوپر سے آرڈر تھا ، تاکہ عبد الرشید ترابی کے 5000 سے زائد ووٹوں کو میاں نواز شریف کے قریبی ، صحافی مشتاق منہاس کو ڈلوا کر جتایا جائے ، یہ پلان کامیاب بھی ہوا ۔صحافی مشتاق منہاس منسٹر مشتاق منہاس بن گئے ۔یہ اتحاد اگر ن لیگ کی اپنی مرضی اور مجبوری سے نہ ہوتا تو اسے دارالحکومت میں بیٹھ کر باقاعدہ معاہدے کی شکل نہ دی جاتی ۔

دوسری بات یہ کہ جماعتِ اسلامی کو نشستیں بھیک میں نہیں ملیں ، امیر جماعت عبد الرشید ترابی نے اپنے حلقے سے الیکشن نہیں لڑا ، لڑتے تو کم از کم 5 ہزار ووٹ لے جاتے ، وہ ووٹ ن کی جھولی میں گئے ، پورے آزادکشمیر میں جہاں بھی جماعتِ اسلامی کا ووٹ بینک تھا وہ ن لیگ کے کھاتے میں گیا ( سوائے چند حلقوں کے ) حتیٰ کہ وزیرِ اعظم فاروق حیدر کے حلقے میں بھی جماعتِ اسلامی سے اتحاد کیا گیا ۔ یہ کسی صورت بھی بھیک میں نہیں ملیں بلکہ ووٹوں کے بدلے دی گئیں ۔

جماعتِ اسلامی آزادکشمیر مرکز کی جماعتِ اسلامی سے بلکل مختلف ہے، کشمیری جماعت نے کمال ذہانت سے دو نشستیں حاصل کیں ۔ پی ٹی آئی آزادکشمیر کو ہی دیکھ لیں ، عمران خان آئے ، نواز شریف کے خلاف تقریریں کیں ، ہیلی کاپٹروں ، پروٹوکول پر لاکھوں خرچ ہوئے ، انتخابی مہم چلی وہاں کروڑوں چلے اور آخر میں 2 ہی نشستیں ملیں ، وہ بھی صدرِ جماعت کی سیٹ کی قربانی کے ساتھ ۔ اوپر سے پارٹی بھی ٹوٹ کر کئی ” پارٹ ” بن گئے ۔

دوسری طرف جماعتِ اسلامی نے نہ ہیلی کاپٹر لائے ، نہ کسی کو کوئی لالچ دیا ، نہ کسی کی طرف انگلی کرکے اس کا وزیرِ اعظم کہا ، نہ ہی اپنی پاکستانی جماعت کی طرف سے کوئی ڈکٹیشن لی اور مزے سے دو نشستیں حاصل کیں ۔

جماعتِ اسلامی کا ن لیگ سے مرکز میں اختلاف اور آزادکشمیر میں اتحاد ۔ اس ” دوغلی ” پالیسی کو سمجھنے کے لیے دو باتیں سمجھنی ضروری ہیں ۔

1 آزادکشمیر ایک خود مختار ریاست ہے ، جس کے کرنسی ، دفاع اور خآرجہ امور کا کام پاکستان کے ذمہ ہیں ۔ آزادکشمیر کی کوئی سیاسی جماعت پاکستان کی جماعت کی ہاں میں ہاں ملانے کی پابند نہیں ، لیکن پی پی ، ن اور انصاف والے ہمیشہ اپنے آقاؤں کے آگے جھکتے رہے ، زرداری کی وڈیرن بہن آزادکشمیر کے وزیرِ اعظم کو بار بار طلب کرتی رہی گویا نوکر ہو ۔۔۔ نوکر ہی تو تھا ۔

سردار عتیق خان جو اپنی جماعت کو واحد کشمیری / ریاستی جماعت کہتے ہیں وہ بھی ڈکٹیشن لیتے رہے ، اُن کی جماعت کے ٹکٹ بھی ایک آمر نے بانٹے تھے اور اُس کے نتیجے میں ایک ایسا شخص جسے غیر معروف کہہ کر ٹکٹ نہیں ملا اُس سمیت پانچ افراد آزادانہ طور پر انتخاب جیتے تھے ۔وہ شخص ایک دفعہ وزیرِ اعظم ایک دفعہ صدر بھی بنا تھا ۔

لیکن جماعتِ اسلامی نے روایات کو پامال کرتے ہوئے ، لکیر کے فقیر بننے کی روش کو ٹھکرا کر اپنی پالیسی ترتیب دی۔

2. ساری ن لیگ کرپٹ نہیں ، ساری ن لیگ پانامہ زدہ نہیں ، ن لیگ کے سربراہ پر کرپشن کا کیس ہے تو کیا ن لیگ ساری کرپٹ ہے؟ پاکستان کی سیاسی فضاء اور ہے یہاں کا سیاسی موسم اور پاکستانی ن لیگ کے سربراہ کا نام پانامہ لیکس میں ہے جبکہ کشمیری ن لیگ کے سربراہ کا نام آج تک کسی ” پاجامہ ” کی چوری میں بھی نہیں آیا ۔

ایسے میں جماعت اسلامی کا دو نشستیں لے جانا دوغلا پن نہیں بلکہ انتہائی کامیاب حکمتِ علمی اور ذہانت کی سیاست ہے ۔

ڈاکٹر کرمانی کے بیان سے ایسا لگتا ہے کہ وہ ٹیکنوکریٹ کی سیٹ پر بھی ن لیگی معتقد اور خواتین کی سیٹ پر میاں صاحب کے کسی اور باورچی کی بیٹی کو سیٹ کروانا چاہتے تھے ، مگر راجہ فاروق حیدر کے ہوتے ہوئے یہ منصوبہ ناکام ہوگیا ۔

خیرجذباتی تقاریر انتخابات سے دو ماہ قبل اور دس دن بعد تک ہی اچھی لگتی ہیں، باقی دن سیاست کو کھیلنا پڑتا ہے ، ویلڈن جماعتِ اسلامی ، اچھا کھیلا ۔اتنا اچھا کھیلا کہ جو نشست جمعیت علماء اسلام کے سربراہ کو ملتی وہ جماعتِ اسلامی لے اُڑی اور پارلیمانی جماعت بن گئی ۔ پوچھنے والے مولانا فضل الرحمان سے کیوں نہیں پوچھتے کہ آپ پورے ملک میں اتحادی اور گلگت میں اپوزیشن لیڈر آپ کا کیوں ؟؟؟ یہ دوغلی پالیسی کیوں ؟ سوال تو بنتا ہے ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے