علاقائی رابطوں کا پاکستانی ویژن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کچھ اس طرح سے دنیا کے جغرافیائی منظر نامے کو اتھل پتھل کر دیا ہے کہ کئی ممالک کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ وہ کیا کریں ۔فی الوقت دنیا کی موجودہ سیاست کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس میں چینی صدر زی جن پنگ کے اس تصور کی مقبولیت بڑھی ہے جس میں وہ خطے کو سڑکوں اور ٹرین کے ذریعے منسلک کرنے کے سلسلے میں اپنے خواب کی تعبیر پر عمل پیرا ہیں ۔

ٹرانس پیسیفک پارٹنر شپ Trans-Pacific Partnership (TPP) معاہدے سے امریکہ کے اچانک انخلا سے علاقے میں نئی صف بندیوں کا عمل شروع ہو چکا ہے ۔اس معاہدے میں شریک کچھ ممالک بشمول جاپان ، بھارت ، ویتنام ،آسٹریلیا اور سنگا پور ، وسیع علاقائی سیکورٹی اور معاشی تعاون کے امکانات پر غور کر رہے ہیں ۔یہ اقوام خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے خوف زدہ ہیں ۔دوسرے خطے بشمول مشر قِ وسطیٰ ،مشرقی اور وسطی ایشیا بھی اپنی جغرافیائی ترجیحات پر غور کر تے ہوئے علاقائی تعاون کے نئے راستوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں ۔بدلتی ہوئی علاقائی سیاست چین کے منصوبے ‘‘ون بیلٹ ،ون روڈ ’’ کے لئے سود مند ثابت ہو رہی ہے ۔

‘‘ون بیلٹ ،ون روڈ ’’ منصوبہ کیا کچھ بدل ڈالے گا ؟یہ ابھرتی ہوئی معیشتوں کو چین کے تجارتی راستوں سے جغرافیائی سطح پرباہم منسلک کر دے گا ۔اس میں چین اور اس منصوبے میں شامل ممالک کے لئے تزویراتی فائدے بھی ہیں لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اس سے شریک ممالک کے درمیان ثقافت ، نسل، تاریخ اور تہذیبوں سے ماورا علاقائی تعاون کے در وا ہوئے ہیں ۔

یہ پاکستان کے لئے نادر موقع ہے کہ وہ اپنے علاقائی تصور پر نظر ثانی کرے ۔کیونکہ پاکستان بھی دوسرے کئی ممالک کی طرح دو بڑے اتحادوں کا حصہ ہے جن میں سے ایک شنگھائی تنظیم اور دوسری سارک ہے ۔شنگھائی تنظیم شدت پسندی سے لے کر منشیات تک مشترکہ خطرات کے خلاف ایک وسیع اتحاد کا نام ہے ۔مستقبل قریب میں پاکستان اس تنظیم کا محرک ممبر بن جائے گا ۔لیکن ا س کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اسے اتحاد کے اجتماعی فوائدملنا شروع ہو جائیں گے لیکن اسے شنگھائی تنظیم کے ممبر ممالک کے ساتھ قریبی معاشی اور جغرافیائی تعلقات کا موقع ضرور ملے گا ۔سارک اہم علاقائی اتحاد ہے اور نہ صرف اس کے مشترکہ سیاسی اور معاشی مفادات ہیں بلکہ یہ ممبر ممالک کے لئے جذباتی اور تہذیبی وابستگی کا بھی علمبردار ہے ۔تاہم جغرافیائی قربت کے علاوہ جنوبی ایشیائی اقوام میں بہت کم مشترکات ہیں ۔کئی مفکرین یہ سوال بھی اٹھاتے نظر آتے ہیں کہ کیا ان کے درمیان کہیں ‘‘جنوبی ایشائی ’’ کی کوئی صفت موجود بھی ہے ۔لیکن اگر باہمی سطح پر کوئی چیز مشترکہ ہو بھی تو کیا یہ مشترکہ ثقافتی اقدار اور تہذیبی روابط علاقائی سطح پر کسی جغرافیائی معاشی یا سیاسی تعاون کا راستہ ہموار کر سکتے ہیں ؟

بلاشبہ جنوبی ایشائی اقوام کے درمیان کچھ تہذیبی اور مذہبی اقدار مشترکہ ہیں لیکن ان کی جداگانہ نسلی ،لسانی ، ثقافتی اور مذہبی حیثیت ہی قوم پرستی کی ایک وجہ بھی ہے ۔جنوبی ایشیا کی ہر قوم جداگانہ اور منفرد ثقافتی ، نسلی اور مذہبی انداز لئے ہوئے ہے ۔ہو سکتا ہے کچھ قوموں کے درمیان ان معاملات میں یکسانیت بھی ہو لیکن پھر بھی دیگر رسوم و رواج میں یہ ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں ۔سارک کی ویب سائٹ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ ہر قوم کے الگ الگ ثقافتی اظہارئے ہیں جس کا اندازہ ان کے لباس ،کھانوں اور رسومات سے ہوتا ہے ۔

کوئی یہ بحث بھی کر سکتا ہے کہ ایک ہی نسل کے لوگ جنوبی ایشیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں جیسا کہ پنجابی ، بنگالی ، تامل ، پٹھان ، بلوچ وغیرہ لیکن ان تمام نسلوں نے اپنے علیحدہ ثقافتی وسماجی اظہارئے بنا لئے ہیں اور اب سرحدوں کی دوسری جانب ان کے اپنے ہی ہم نسل افراد سے مماثلتیں بہت کم رہ گئی ہیں ۔
سارک کا بحران یہ ظاہر کرتا ہے کہ جنوبی ایشیائی اقوام کو باہمی معاشی اور سیاسی مفادات کے لئے کچھ دیگر مشترکات بھی تلاش کرنے ہوں گے ۔بھارتی میڈیا اور اس کے ماہرین پہلے ہی سارک کو ایک مردہ جسم قرار دے چکے ہیں ۔علاقائی فورم کے محرکین بھی منظر سے اوجھل ہو چکے ہیں ۔بنگلہ دیش بھی آسیان Association of Southeast Asian Nations فورم میں شمولیت پر غور کر رہا ہے ۔سری لنکا کو پہلے ہی سارک میں کوئی جاذبیت نظر نہیں آتی اور وہ آسیان کو زیادہ فائدہ مند تصور کرتا ہے ۔سارک کی شکست و ریخت شروع ہے اور جنوبی ایشائی کی اصطلاح آخری دموں پر ہے ۔اور اگر سارک موجود بھی رہے تب بھی اس کے لئے مشکل ہے کہ وہ خطے میں کسی تبدیلی کا پیش خیمہ بن سکے ۔

سارک ایک غیر سیاسی فورم ہے ۔بھارت کے دباؤ پر اس میں ایک شق روشناس کرائی گئی تھی کہ باہمی سیاسی مسائل اور تنازعات پر یہاں بات نہیں ہو گی لیکن بھارت نے ازخود اس کا پاس نہیں کیا اور اس نے اس فورم کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا ۔سارک کا بنیادی مقصد جنوبی ایشیا کے لوگوں کی فلاح کے لئے کام کرنا اور ان کا معیار زندگی بلند کرنا ہے ۔لیکن اس نے یہ مقصد بہت کم پورا کیا ۔ بھارت نے کئی بار پاکستان کو جدا کرنے کے فارمولے پر عمل کیا اور اس نے پاکستان کو نکال کر دیگر علاقائی اتحادوں کے امکانات پر غور کیا جیسا کہ Bay of Bengal Initiative for Multi-Sectoral Technical and Economic Cooperation اتحاد شامل ہیں۔

سارک اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہے پاکستان کو بھی علاقائی تعاون کے نئے میدان تلاش کرنے ہوں گے ۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری جو کہ چین کے ‘‘ون بیلٹ ون روڈ ’’ منصوبے کا حصہ ہے جس نے جنوبی، وسطی ایشیا اور بحر ہند کی اقوام کے مابین معاشی اور سیاسی تعلقات کے مواقع کو اجاگر کیا ہے ۔پاکستان بحیرہ عرب کی اقوام بشمول ایران ، عمان اور یمن کے ساتھ معاشی تعلقات بڑھا تے ہوئے سمندر کے ساتھ واقع اقوام ،عرب ریاستوں اور چند جنوبی ایشائی اقوام مثلاً سری لنکا اور مالدیپ کے ساتھ بھی تعلقات استوار کر سکتا ہے ۔یہی طریقہ مغربی اور شمالی ہمسایوں بالخصوص افغانستان اور ایران کے ساتھ اختیار کیا جا سکتا ہے ۔چین پاکستان اقتصادی راہداری سے زیاہ سے زیادہ ثمرات حاصل کرنے اور اس سے معاشی اور سیاسی فائدوں کے لئے پاکستان کو محدود سوچ سے نکلنا ہو گا ۔

بدلتا ہوا جغرافیائی اور سیاسی منظر نامہ پاکستان کے لئے کئی مواقع لئے ہوئے ہے مگر اس کے لئے پاکستان کی سیاسی و سماجی اشرافیہ کو ‘‘جنوبی ایشائی ’’ حدود سے نکل کر سوچنا ہو گا ۔اس کے ساتھ ہی پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کو عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو حقیقت کے تناظر میں دیکھنا ہو گا ۔ مشرق وسطیٰ کے بارے میں از سر نو ایک مکمل جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔سعودی عرب کی زیر قیادت 39 ممالک کا اتحاد ایک غلط تصور قطعاً نہیں ہے اگر یہ ممبر ممالک کے مشترکہ مفادات کی خاطر سیکورٹی ، معاشی اور سیاسی پلیٹ فارم کی شکل اختیار نہیں کر جاتا۔تاہم یہ پاکستان کے ہمسایہ ملک ایران کے ساتھ تعلقات کی قیمت پر نہیں ہونا چاہئے جس کے ساتھ پاکستان کے معاشی تعاون کے زبردست امکانات موجود ہیں ۔علاقائی روابط کو اولیت دیتے ہوئے اچھے باہمی تعلقات امریکہ ، یورپ اور باقی دنیا کے ساتھ رکھے جائیں ۔ ‘‘ ون بیلٹ ون روڈ ’’ منصوبے میں پاکستان کےلئے یہ سبق پوشیدہ ہے کہ وہ از خود کیسے قریبی ممالک کے ساتھ اپنے لئے روابط بڑھاتا ہے ۔

(بشکریہ : ڈان ، ترجمہ ، سجاد اظہر )

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے