انیل کپور تیرا بیڑہ غرق ہو

ہماری قوم ویسے ہی کاپی پیسٹ میں ماہر ہے، امتحانی مراکز میں بھی نقل کا رجحان ہے ۔۔ اور تو اور ایک دوسرے کو دیکھ کر اپنے آپ میں وہی تبدیلیاں لانے کی خواہش سب میں موجود ہے۔ ایسے میں جب آپ ایسی فلم دیکھیں جس میں ہیرو عملی طور پر آپ کو دکھائے کہ کیسے کرپشن ختم ہو سکتی ہے، گڈ گورننس کیا ہوتی ہے تو پھر ہر شخص میں یہ خرابیاں ختم کرنے کی خواہش انگڑائی لے سکتی ہے۔ جیسے بھارتی فلم نائیک میں انیل کپور نے بطور اینکر اپنے وزیر اعلیٰ امریش پوری کے ساتھ ایک انٹرویو کیا۔ اس میں عملی طور پر اس ولن وزیر اعلیٰ کی ایسی کی تیسی کی گئی۔

انیل کپور ایک کیمرہ مین ہوتا ہے وہ ایک مظاہرہ کی کوریج اچھی کرتا ہے تو اسے انتظامیہ خوش ہو کر اینکر بنا دیتی ہے، اس کا پہلا انٹرویو اور وہ بھی لائیو اپنی ریاست کے وزیر اعلیٰ کاہوتا ہے اور جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے امریش پوری ولن ہوں گے تو ولن وزیر اعلیٰ نے کرپشن کی ہوئی ہے باقی بھی ساری سیاسی جماعتیں کرپٹ دکھائی گئی ہیں ۔ ایسے میں اینکر صاحب نے ولن وزیر اعلیٰ کو اپنے تیکھے سوالات اور کچھ شواہد کی روشنی میں بالکل بولنے کے قابل نہ چھوڑا۔

ٹھیک اس لمحے ڈائریکٹر اور رائٹر کی مرضی کے عین مطابق ولن وزیر اعلیٰ اپنے ہیرو اینکر کو ایک روز کے لیے وزیر اعلیٰ بنانے کی پیشکش کرتے ہیں، ان کا خیال تھا ہیرو نہیں مانے گا تو ان کی بلے بلے ہو جائے گی اور اگر مان بھی گیا تو بھی ایک روز میں وہ کیا توپ چلا لے گا، اس لیے پھر بھی ان کی بلے بلے ہو جائے گی لیکن وہ بے چارہ اس بات سے بے خبر تھا کہ رائٹر ، ڈائریکٹر نے کیا سوچ رکھا ہے۔ سکرپٹ پر چلتے ہوئے انیل کپور ایک روز میں ہی ایسے کارنامے کر جاتا ہے کہ لوگ اسے اپنا مسیحا مان لیتے ہیں، سب سے اہم ہر جگہ پہنچتے ہی وہ سب سے پہلے افسران کو معطل کر دیتا تھا، بس سٹوری کی ڈیمانڈ بھی یہ تھی اور عوام بھی یہی چاہتے تھے ، اس لیے وہ مشہور ہوتا گیا۔

اگلا الیکشن بھی وہ جیت جاتا ہے اور پھر گڈ گورننس کا راج ہوتا ہے ، آخر میں وہ ہیرو وزیر اعلیٰ اپنے راستے کی رکاوٹ ولن سابق وزیر اعلیٰ کو مار دیتا ہے پھر پوری ریاست میں سکون ہو جاتا ہے اور سب ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں لیکن وہ بھارت تھا اور یہ پاکستان ہے۔ بھارت میں بھی اس طرح سے لوگ فلم سے متاثر نہیں ہوئے اور فلم نے معمولی بزنس کیا ۔ تاہم پاکستان میں ہم نے اس فلم کو بہت سنجیدگی سے لیا۔اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بطور شہری ہم اس فلم کی اچھی چیزوں کو اپنی عملی زندگی کا حصہ بنا لیتے لیکن نہیں صاحب۔۔ ہر شخص ہیرو بننے کے چکر میں ہے، اس فلم کا سب سے زیادہ اثر اپنے خادم اعلیٰ پنجاب پر ہوا ہے یا پھر ہمارے اینکرز پر۔

خادم اعلیٰ نے اس فلم سے متاثر ہو کے جو سب سے اہم چیز سیکھی ہے وہ افسران کو معطل کرنا ہے۔ جو کچھ کرتا یا نا کرتا پایا جائے اسے فوری معطل کر دیا جائے، اس فلم کو ہی فالو کرتے ہوئے ان کی گاڑی میں ان کا پی ایس ایک ٹائپ رائٹر بھی ساتھ رکھتا ہے کہ جیسے ہی صاحب نے ڈکٹیشن دی وہ فوری طور پر افسر کا معطلی کا پروانہ ٹائپ کر کے اس کے ہاتھ میں پکڑا دے۔اپنے خادم اعلیٰ صاحب بھی اسی فارمولے پر چلتے ہوئے افسران کو معطل کرتے ہیں اور اگلے روز سیکرٹریٹ میں ملاقات کرنے پر انہیں بحال بھی کر دیتے ہیں۔

اپنے لیے ٹائٹل بھی خادم اعلیٰ کا رکھا،خدمت بھی خوب کرتے ہیں مگر اپنی فیملی کی۔۔ خادم ہیں تو کم از کم اپنا پروٹوکول ہی کم کر دیں، لیکن نہیں جناب درجنوں سیکورٹی گارڈز، سینکڑوں ملازمین کے ہمراہ سخت سیکورٹی میں نکلنے والے خادم اعلیٰ آپ کی عظمت کو سلام، کاش آپ بھارتی فلم میں یہ بھی دیکھتے کہ انیل کپور نے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد سیکورٹی نہیں لی ، وہ پروٹوکول کے بغیر اپنی ہیروئن کو ملنے جاتا تھا جبکہ آپ کی سیکورٹی کو یہ پریشانی لاحق ہوتی ہے کہ آج رات آپ کس ہیروئن سے ملنے جائیں گے وہ کس ہیروئن کی گلی میں ناکے لگائیں۔۔ آپ کے یہی عاجزانہ ٹھاٹ بھاٹ دیکھ کر تو میں بھی دعائیں مانگتا ہوں یا اللہ مجھے بھی خادم اعلیٰ بنا دے نہیں تو کم از کم رانا ثنا اللہ جیسا خادم ادنیٰ ہی بنا دے۔

دوسری جانب ۔۔ کچھ رپورٹرز اور اینکرز بھی انیل کپور بننے کے چکروں میں ہیں۔ اپنے ڈاکٹر دانش بے چارے پورے پھیپڑوں کا زور لگا کر سوال کرتے ہیں ، کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ انیل کپور دکھائی دیں مگر کیا کریں ان کا چہرہ اتنا ہے جتنی اپنے انیل کی مونچھیں۔ قیامت کی خبردینے والے ڈاکٹر شاہد مسعود بھی انیل کپور سے کم نہیں، کوشش ان کی بھی یہی ہوتی ہے کہ لوگ ان سے متاثر ہو کر انہیں وزیر اعلیٰ بنا دیں لیکن ان کی دال گلتی دکھائی نہیں دیتی۔

آل ان ون۔ یعنی ایک ہی وقت میں مولوی، ہیرو، اینکر، رپورٹر کے بعد مستعد فوجی کا کردار بخوبی کرنے والے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین۔۔ آج کل کچھ خوب زور لگا کر بول رہے ہیں، سب کا نام بابا کہہ کہہ کر پکارتے ہیں کوئی چڑیا بابا ہے، کوئی رل گئے بابا تو کوئی سگریٹ بابا۔۔ ایک دوست کہتا ہے بے چارے عامر صاحب اپنے بابا کو تلاش کرنے نکلے ہیں جیسے ہی ان کی تلاش ختم ہو گی یہ پروگرام بھی ختم ہو جائے گا اور یہ روٹھا بچہ اپنے بابا کے ساتھ گھر روانہ ہو جائے گا لیکن میں نے اپنے دوست کو اس بات پر جھڑک دیا۔

یہ جتنے بھی ڈاکٹر آج کل ٹی وی سکرین پر اینکر بنے دکھائی دیتے ہیں یہ سب قابل رحم ہیں، ان پر ترس کھانا چاہئے، یہ گھر سے جو بننے نکلے تھے وہ نہ بن سکے، اب یہ سب اس بات کا انتقام پورے معاشرے سے لینا چاہتے ہیں اس لیے ان سب کو ہماری ہمدردی کی ضرورت ہے۔

باقی رہ گئی بات انیل کپور بننے کی ۔۔ تو میری دعا ہے کہ اس کی ایک فلم نے جو ہمارے ملک میں ہیجان پیدا کیا ہے، اللہ کرے اس کا بیڑہ غرق ہو جائے، اس کی تمام فلمیں فلاپ ہو جائیں۔ کم بخت کی فلم کا اثر اگر اپنے ملک میں ہوتا تو وہاں امریش پوری جیسے ولن نما اشخاص کیوں وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم بنتے۔ ایسے اینکر ان کے اپنے ملک میں کیوں نہیں تیار ہو رہے، ہمارے یہاں ایسا شوشہ چھوڑا ہے کہ اینکر اپنی خواہشات پوری نہ ہونے اور ایسے سوالات ذہن میں نہ آنے پر جذبات سے مغلوب ہو کر جھولیاں اٹھا اٹھا کر حکومت کو بددعائیں دینے لگے ہیں۔

ہمارے اینکروں کو اس راہ پر چلانے والے انیل کپور تیرا بیڑہ غرق ہو جائے، اللہ کرے تجھے بھی ایسے اینکروں سے پالا پڑے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے