اٹوٹ انگ، شہ رگ یا پھر خودمختار؟

بیگم جلدی تیار ہو جاؤ، آج ہی فلم دیکھنی ہے ورنہ دیر ہو جائے گی، کل اتوار کو یوم یکجہتی کشمیر ہے مجھے بھارت کے خلاف مظاہرہ بھی کرنا ہے، کم بخت ہندو بنیا ہمارے مسلمان بھائیوں پر بے حد ظلم ڈھا رہا ہے، ذرا جلدی ہاتھ چلاؤ میک اپ میں بڑی مشکل سے چار بجے والی فلم کے ٹکٹ لیے ہیں رات نو بجے والا لیتے تو صبح اٹھ کر انسانی ہاتھوں کی زنجیر کیسے بنائیں گے کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے۔۔ تمہیں معلوم ہے ناں نئی فلم ہے تمہارے پسندیدہ اداکار شاہ رخ خان کی ۔۔ اس میں میری پسندیدہ اداکارہ ماہرہ خان بھی ہے۔

یہ حال ہم سب کا ہے، رات کو بھارتی فلم دیکھے بغیر ہمیں نیند بھی نہیں آتی مگر ہندو بنئے کے خلاف نعرہ بازی میں ہم سب شیر ہیں۔۔ بھارتی فلمیں جب پاکستانی ڈسٹری بیوٹر خرید کر لاتا ہے توکیا انہیں یہ نہیں معلوم اس رقم سے فائدہ بھارت کو ہو رہا ہے مگر اپنے فائدے کے لیے اگر بھارت کا فائدہ ہوتا بھی ہے تو ہو جائے ۔۔ ہمیں کیا؟۔

ہماری دشمنی تو بھارتی فوج اور حکومت کے ساتھ ہے اداکاراؤں نے کیا بگاڑا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو تمام لوگ فوراً آپ سے پوچھتے ہیں جب آپ انہیں بھارتی فلمیں دیکھنے سے منع کرتے ہیں۔ کہتے ہیں بھارتی ٹماٹر ، پیاز اور کیلے کھاتے تو برا نہیں لگتا آپ کو، جنڈو بام لگاتے ہیں، ڈابر آملہ آئل بالوں میں لگا کر بھارت کے خلاف مظاہروں میں جانے والے لوگوں۔۔ بھارتی فلموں نے کیا بگاڑا ہے؟

یہ دوہرا معیار صرف عام آدمی کا نہیں، پورے ملک میں جہاد کی افادیت پر لیکچر دینے والے علماء دین کے بارے میں جانئے ۔۔ کیا حافظ صاحب یا قاضی صاحب کے بچے کسی جہاد میں شامل ہوئے ، کیا کبھی انہوں نے گوریلا جنگ کی تربیت حاصل کی۔۔ معذرت کے ساتھ جواب نفی میں ہے کیونکہ زیادہ تر علماء کے بچے امریکہ یا برطانیہ میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور وہاں جہادسے نہیں بلکہ جدید علوم سے ہی آگاہی ممکن ہے۔

پانچ فروری کے حوالہ سے جب میرے بھائی خالد گردیزی نے کچھ لکھنے کو کہا تو میں سوچ میں پڑ گیا ایسے موضوعات پر لکھنے کا بہت نقصان ہوتا ہے، برادرم فرحان احمد خان اور محترم شکیل ترابی صاحب کے بعد ویسے بھی میرا لکھنا نہیں بنتا تھا، پھر خود گردیزی صاحب نے جو عالیہ کی کہانی بیان کی اس کے بعد میرا لکھنا بالکل ہی نہیں بنتا تھا تاہم خالد گردیزی کا کہا ٹالا بھی نہیں جا سکتا۔ ویسے یہ موضوع آسان نہیں کیونکہ کشمیر ایک حساس موضوع ہے جہاں آپ کا جھکاؤ کسی اور جانب دکھائی دے دوسرے کی جانب سے گالیاں پڑنے کا بھی خدشہ رہتا ہے۔

چلئے دیکھتے ہیں کیا ہے یہ یوم یکجہتی کشمیر؟۔۔ ایک بار پھر خبریں لگیں گی یوم یکجہتی ملک بھر میں منایا گیا، مختلف شہروں میں جلسے ہوئے، ریلیاں نکالی گئیں یا انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائی گئی، بس۔۔ پھر ہم سب ایک بار پھر کشمیر کو بھول کر اپنے کاموں میں لگ جائیں گے ۔ میں نے تو ایسا ہی دیکھا ہے۔یہاں کئی نسلیں جوان ہو گئیں یہ سنتے سنتے کہ پاکستان کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کے لیے ان کی سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھے گاوغیرہ وغیرہ، یہ بیان لکھتے لکھتے پی آئی ڈی کے کئی افسران بھی ریٹائر ہو گئے، اب تو کئی ایسی خبریں ہیں جو رپورٹر بھی خود بخود بغیر کسی ہینڈ آؤٹ کے بنا لیتے ہیں ان میں سے ایک یہ خبر بھی ہے۔

دنیا اسے متنازع مسئلہ کہتی اور سمجھتی ہے لیکن اسے حل کرانے کی فکر کسی کو بھی نہیں۔۔ خود جب فریق اول ، فریق دوم کو نہیں تو پھر کسے فکر ہو سکتی ہے؟ فریق اول بھارت جو اقوام متحدہ میں خود یہ معاملہ لے کر گیا اور فریق دوم پاکستان جس کے پاس سینتیس فی صد کشمیر کی زمین کا قبضہ ہے۔ دونوں فریقین بس اقوام متحدہ میں گونگلوؤں سے مٹی جھاڑتے ہیں تند و تیز تقریریں اور جوابی تقریریں کرتے ہیں اور فرض ختم۔

پاکستان اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کے اجلاس کے موقع پر چند افراد کو جمع کر تا ہے، وہ بھارت کے خلاف پلے کارڈ اٹھا کر کھڑے ہوتے ہیں، بھارتی وزیر اعظم اور اس کی ظالم حکومت کے خلاف نعرہ بازی کرتے ہیں۔ اندر ہمارے وزیر اعظم یا حکومتی اہلکارتقریریں کرتے ہیں، اخبار میں شہ سرخیاں لگتی ہیں، اس کام پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں لیکن نتیجہ صفر۔

ہم سب تو بہت زبردست تقریریں کر لیتے ہیں پھر آخر مسئلہ حل کیوں نہیں ہوتا، سیاستدان پاکستان کا ہو یا آزاد کشمیر کا ۔۔ مجھے تو کوئی فرق نہیں دکھائی دیتا ان سب میں، سب بہت اچھی تقریریں کرتے ہیں، اپنا حق بھی جتاتے ہیں، پھر کیا رکاوٹ ہے کیوں کشمیر آزاد نہیں ہو پاتا، جسے قائد اعظم کہتے تھے کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے ، ہماری شہ رگ پر ہندو بنئے کا پیر ہے مگر ہم سب پھر بھی آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں۔

بعض کشمیری کہتے ہیں اسے بلاوجہ دو ممالک کا تنازع قرار دیا جاتا ہے جبکہ اصل فریق کشمیری ہیں، یہ نکتہ بہت اہم بھی ہے اور درست بھی۔ ہم اقوام متحدہ ضرور جائیں لیکن سب سے زیادہ اہم ہے کہ کشمیریوں کو عالمی فورم پر لے جایا جائے اور وہ اپنا کیس دنیا کے سامنے رکھیں۔لیکن یہ بھی کیسے ہو؟ بھارتی جب غیر ممالک میں ہوتے ہیں تو وہ صرف بھارتی ہوتے ہیں اور اپنا ترنگا لے کر چلتے ہیں لیکن جب ہم کسی غیر ملک میں ہوتے ہیں تو ہم کشمیری یا پاکستانی نہیں بلکہ کوئی پیپلز پارٹی والا ہوتا تو کوئی ن لیگی یا پھر پی ٹی آئی والا۔۔ یہ سارے پاکستانی یا کشمیری پرچم نہیں اپنی جماعت کا پرچم لے کر چلنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔

کشمیری اپنا کیس لے کر جائے بھی تو وہ بھی جماعتی سیاست کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی ہوا کہ اقوام متحدہ میں نواز شریف خطاب کرنے پہنچے تو وہاں بھی ایک سیاسی جماعت نے مظاہرہ کیا مگر یہ مظاہرہ بھارت کے خلاف نہیں بلکہ اپنے وزیر اعظم کے خلاف تھا ، دنیا کو بتایا گیا کہ یہ شخص جو کشمیر کا کیس لڑنے آیا ہے یہ دھاندلی سے وزیر اعظم بنا ہے۔

سمت کا تعین کیا ہے؟ کیا بات چیت کا راستہ رکھا جائے یا مسلح جدوجہد کا؟ کیا جدوجہد کشمیری کریں یا پھر دوسرے ممالک سے جذبہ شہادت سے بھرے مجاہدین ؟معذرت کے ساتھ اتنے برس گزرنے کے باوجودآج بھی یوں لگتا ہے جیسے قدرت اللہ شہاب کا دور ہی چل رہا ہے۔ قدرت اللہ شہاب کی کتاب شہاب نامہ پڑھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے آج بھی ہمارے معاملات ویسے ہی ہیں۔
ٓ

آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے سیاستدان بھی جب کسی کشمیر کانفرنس، سیمینار یا سمپوزیم میں شرکت کے لیے بیرون ملک جاتے ہیں تو ان کی پہلی ترجیح لندن کے ہیرڈز سٹور سے شاپنگ ہوتی ہے، وہاں سے اگر وقت بچے تو کہیں خطاب بھی کر لیتے ہیں، یہ ہے ہماری سنجیدگی اور پھر ہم کہتے ہیں کشمیر کیوں آزاد نہیں ہوتا، ایک کشمیری وزیر اعظم کے حوالہ سے مشہور ہے انہوں نے ایک تقریب میں گلاس ہاتھ میں تھامے بھارتی ہائی کمشنر سے کہا آپ مادھوری ڈکشٹ ہمیں دے دیں کشمیر لے لیں۔

یہ حالات ہیں تو پھر ایسے میں ٹھیک ہی ہے یوم یکجہتی کشمیر کو بھی مدرز ڈے، فادرز ڈے اور ویلنٹائنز ڈے کی طرح منایا جانا چاہئے کیونکہ انگریز ماں اور باپ کے ساتھ سال میں ایک دن گزار کے انہیں بھی اولڈ ہوم چھوڑ آتے ہیں اگر ہم اپنی دھرتی ماں کے ساتھ کرتے ہیں تو کیا برا کرتے ہیں؟۔۔ سب مل کر نعرہ لگائیں، لے کر رہیں گے آزادی، ہم کیا چاہتے ہیں آزادی۔۔ کشمیر بنے گا پاکستان۔۔بتائیے پہلے آپ پاکستان کو تو پاکستان بنا لیں پھر کشمیر کو پاکستان بنائیے گا اور ایسا تب ہی ممکن ہے جب کشمیری عوام سے پوچھا وہ کیا چاہتے ہیں شہ رگ بننا چاہتے ہیں، اٹوٹ انگ یا پھر خود مختار۔۔ فیصلہ کشمیریوں پر چھوڑ دیا جائے تو نتیجہ بھی نکل سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے