کشمیر کمیٹِی اور مسئلہ کشمیر

برھان وانی کی شہادت پر کشمیریوں کے احتجاج پر کرفیو کو مہینہ بھر ہونے کو تھا میں جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں اپنے چند غیر ملکی دوستوں کے ساتھ کھانے کی ٹیبل پر بیٹھا تھا. ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات پر بات چل رہی تھی. گفتگو کے دوران اس نے سوال کیا "What about law and order in POK” میں سمجھ نا پایا، میں نے پوچھا POK??? اس نے جواب دیا Pakistani occupied Kashmir. اک بار تو میں سناٹے میں آ گیا. پاکستانی آکوپائڈ کشمیر؟؟؟؟؟ میں نے جواب دیا It is not occupied ان کے تاثرات حیرت امیز تھے….. میں نے دلیل کے طور پر کہا کہ

If you just compare it with Kashmir in Indian occupation, they have 6 hundred thousand regular army in Indian occupied Kashmir. We have hardly few thousand and they are on borders not in settled areas. It would be enough to know that Pakistani part is not occupied and we call it independent Kashmir.

میں نے مزید کہا کہ ہندوستان کے برعکس نا صرف پاکستان کی فوجیں پاکستانی کشمیر میں جھمگھٹا نہیں لگائے ہوئیں لیکن آپ کو آزاد کشمیر میں کبھی ہندوستان کی حمایت یا پاکستان کی مخالفت میں مظاہرہ یا ریاستی قبضہ، کرفیو، شیلنگ جیسی چیز سننے کو بھی نہیں ملی ہو گی. جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ ہیں۔ ان کا اپنا صدر اور وزیر اعظم ہے، ھاں پاکستان کے ساتھ الحاق کی بناء پر اسکی سرحدوں کی حفاظت، کرنسی و دیگر چند چیزیں پاکستان کی زمہ داری ہیں. میں نے لوہا گرم دیکھ کر مزید کہا کہ شاید آپ جانتے ہوں آج پچیسواں دن ہے کشمیر میں کرفیو ہے. ہندوستانی فوج اس دوران سینکڑوں کشمیری گرفتار، درجنوں زخمی کر چُکی ہے اور کئی کشمیری اپنی جانوں سے ھاتھ دھو چکے ہیں.

پاکستانی حکومت نے اک عرصہ سے کشمیر کو سیرئس لیا ہی نہیں، خصوصا میاں نواز شریف صاحب کا دورتو ہندوستان کے لئے ہنی مون پیرئڈ ثابت ہوا۔ قطع نظر اس کے کہ نواز شریف صاحب خود کشمیری ہیں انہوں نے اپنے ہندوستان کے دورے میں کشمیری رہنماوں سے وہ رسمی ملاقات بھی نہیں کی جو کہ پاکستان کی طرف سے کشمیریوں کے لئے اک اخلاقی ڈھارس اور مقبوضہ کشمیر سے پاکستان کے آفیشل رابطے کا ایک زریعہ رہی ہے۔ حکومت پاکستان نے لے دے کر اک کشمیر کمیٹی بنا رکھی ہے، مسئلہ کشمیر کی حساسیت کے پیش نظر اتنا تو ضرور ہے کہ کشمیر کمیٹی تمام پارلیمانی کمیٹیوں میں سب سے مہنگی کمیٹی ہے. کشمیر کمیٹی کا چیئرمین سینئر وفاقی وزیر کے برابر مراعات اور پروتوکول حاصل کرتا ہے. کمیٹی کو ہیوی بجٹ اور بیرون ممالک سفر کرنے کی اسائشیں بھی حاصل ہیں. لیکن موجودہ چیئرمین کشمیر کمیٹیِ مولانا فضل الرحمن صاحب کے بہتیرے انٹرویوز اورسالہا سال کی پرفارمنس دیکھنے کے بعد بھی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں خود نہیں اندازہ کہ انہوں نے کرنا کیا ہے۔ بیرون ملک آنے جانے والے پاکستانی اس طرح کی صورتحال سے کئی بار دوچار ہوئے ہوں گے. اس میں حیران کن چیز یہ ہے کہ دیگر اقوام چاہے وہ یورپین ہوں، عرب ہوں یا ایشین وہ حالات کا درست ادراک نہیں رکھتیں. کاش وہ کنفیوز ہی ہوتے لیکن وہ کنفیوز بھی نہیں، آپ کو ان کی زبان سے ہمیشہ ہندوستانی موقف ہی سننے کو ملے گا. ایسے میں آپ کو بحیثیت پاکستانی اپنی سبکی کے ساتھ بے بسی کا احساس جکڑ لیتا ہے. یہ کشمیر کمیٹی ہی کی نا اہلی ہے کہ اقوام عالم مسئلہ کشمیرکے متعلق بھارتی موقف سے تو خوب آگاہ ہیں لیکن پاکستان کی سمت موجود کھلے حقائق ان کے علم میں نہیں۔

مولانا فضل الرحمن 2008 میں 36 ممبران پر مشتمل کمیٹی کے چیئرمین بنائے گئے جس کے چالیس سے زائد اجلاس بلائے گئے یہ اک الگ بات ہے کہ ان اجلاسوں کے بھی کوئی ماپے جا سکنے والے نتائج کسی کے سامنے نا آ سکے جبکہ 2013 میں معرض وجود میں آنے والی پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کے چیئرمین منتخب ہونے کے بعد مولانا فضل الرحمن کی جانب سے پچھلے سالوں کی طرح غیر ملکی دورے تو خوب کئے گئے لیکن اس بار اجلاس بلانے میں بھی عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا گیا۔ اس دوران کشمیر کے متعلق کئی اہم معاملات ہوئے، بھارتی جنتا پارٹی کی جانب سے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے آرٹیکل 370 کو ختم کرتے ہوئے جموں و کشمیر کو بھارت میں شامل کرنے کا پراپیگینڈا کیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے انتخابات کے بعد ٹرن آوٹ کو بنیاد بنا کر پراپیگینڈا ہوتا رہا کہ کشمیری عوام نے بھارتی الیکشن کمیشن کے تحت ہونے والے انتخابات اور آئین کو تسلیم کر لیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارتی سرکار کی جانب سے ڈیموں کی غیر قانونی تعمیر کے زریعے آبی جارحیت کا معاملہ ہو یا مقبوضہ کشمیر میں سیلاب ہوں یا وادی میں ریلیوں کے دوران کشمیری قیادت کی پاکستانی پرچم کشائی کا معاملہ اور اس کے بعد متعدد کشمیری رہنماون کی نظر بندی کا معاملہ کشمیر کمیٹی خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوئی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے