کجھ شہردے لوک وی ظالم سن

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں دنیا قوم پرستی یا نسل پرستی کے نئے دور میں داخل ہو رہی ہے، ٹرمپ، نتین یاہو اور نریندر مودی کا تکون عالمی سیاست کو نسلی، قومی اور مذھبی عصبیت کیساتھ مسلم دشمنی کا طوفان اٹھانے کیلئے تیار ہے۔ امکان ہے یورپ سمیت دنیا کے بڑے ممالک قوم پرستی کی لہروں سے متاثر ہونگے۔ ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی نے واضح کر دیا کہ انتخابی وعدوں پر پوری طرح عملدرامد کیا جائیگا۔ مسلم امہ کے رد عمل کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں پر پابندی کے خلاف آواز اٹھانے والوں میں مسلمان ممالک شامل نہیں، مسلمانوں کیئلئے مسلسل احتجاج کرنیوالے بھی مسلمان نہیں بلکہ غیر مسلم ہیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سخت گیر موقف کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے پہلے ہفتے میں 17 ایگزیکٹو آرڈرز جاری کیے ہیں جس میں امیگریشن، اسقاط حمل، ہیلتھ کیئر، وفاقی بھرتیاں، تیل اور تجارتی معاہدوں کی پالیسیاں تبدیل کی گئی ہیں، ایگزیکٹو آرڈر درحقیقت امریکی صدر کے فرمان کو کانگریس سے بچانے کا ایک موثر ہتھیار ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ 1789سے اب تک امریکی صدور کی جانب سے مجموعی طور پر صرف 13 ہزار ایگزیکٹو آرڈرز جاری کیے گئے ہیں، ٹرمپ کی رفتار سے لگتا ہے کہ جلد سب سے زیادہ صدارتی فرمان جاری کرنیوالے سربراہ ثابت ہونگے۔ دنیا بھر میں یہ تاثر موجود تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ میں فرق ہوگا، وہائٹ ہائوس اور امریکی ادارے موقف میں نرمی کا باعث بنیں گے, مگر ٹرمپ ثابت کر رہے ہیں کہ انکے سخت گیر موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ خیر جناب ڈونلڈ ٹرمپ اسی انتہاپسندانہ، متعصب نظریات پر امریکی عوام کا انتخاب ہیں تو انہیں اپنی پالیسیوں پر عملدرامد کا بھی پورا حق ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک بھی اسی اعتبار سے اپنی پالیسی یا حکمت عملی تبدیل کرینگے مگر اصل سوال یہ ہے کہ مسلم دنیا کیا کر رہی ہے، پاکستان پر اسکے کیا اثرات ہو سکتے ہیں اور اسکی کیا تیاری کی جا رہی ہے؟

عراق، شام، ایران، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور یمن کے باشندوں پر امریکہ میں داخلے کی پابندی عائد کی گئی ہے، ظاہر ہے کہ یہ فہرست ابھی مکمل نہیں ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ مسلم دنیا میں ہمیشہ کی طرح گہری تقسیم موجود ہے۔ ایران اور سعودی عرب خطے میں اقتدار کی جنگ میں مصروف ہیں، اوباما کی پالیسیوں سے ناراض سعودی عرب نے ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلوں کی حمایت بھی کی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی سوچ کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ انسداد پرتشدد شدت پسندی پروگرام (Counter Violent Extremism Program) کا نام بدل کر انسداد اسلامی شدت پسندی پروگرام (Counter Islamic Extremism Program) رکھا جا رہا ہے، لہذا اب اس پروگرام کا مرکز نگاہ صرف مسلمان ہونگے۔ مسلم امہ کی جانب سے کیا رد عمل آ سکتا ہے اس سوال کا واضح جواب ہے کچھ نہیں، او آئی سی، عرب لیگ محض کاغذی تنظیمیں ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں پر پابندی کے خلاف امریکہ سمیت متعدد ممالک میں مظاہرے ہوئے مگر الحمداللہ اس میں کوئی مسلم ملک شامل نہیں، کسی مسلمان ملک نے پابندی کے خلاف کوئی آوار بھی بلند نہیں کی، بلکہ سعودی عرب کی جانب سے تو حمایت کی گئی ہے۔ بیشک یہ مسئلہ فی الوقت سات ممالک تک محدود ہے مگر یہ نہ بھولیں کہ نشانہ پوری مسلم دنیا ہے۔ 9/11 کے بعد نہ ہم نے افغانستان سے کوئی سبق سیکھا، نہ عراق پر حملے سے، نہ لیبیا کی غیر منتخب قذافی حکومت کا انجام ہمیں جگا سکا نہ ہی مصر میں منتخب مرسی حکومت کے خاتمے نے مسلم دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑا، تو اب مسلم امہ سے کوئی توقع رکھنا دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔

لگتا ہے تہذیبوں کا تصادم اب زیادہ دور نہیں، امریکہ، یورپ، ہندوستان ایک جانب اور ممکنہ طور پر مسلم اور چینی تہذیب دوسری جانب ہو گی، روس کا کردار اس حوالے سے ابھی واضح نہیں، اگرچہ 80 کی دہائی میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد ہی امریکی سیاسی و سماجی سائنسدان سیموئل پی ہنٹنگٹن نے اپنی کتاب Clash of Civilizations میں یہ نظریہ پیش کیا تھا۔ عثمانی سلطنت کے خاتمے کے بعد کم و بیش گزشتہ سو سال سے مسلم امہ بے حسی اور جمود کی دلدل میں گرتی جا رہی ہے، بد قسمتی سے بکھری مسلم قیادت دنیا کے نئے نظریات کو پڑھنے میں ناکام رہی۔ جدیدیت سے دورعروج کی داستانیں سناتے مسلم ممالک اپنی دنیا میں مگن نظر آتے ہیں جبکہ جدیدت کے اس دور میں طاقتور اقوام کو تہذیت یافتہ جبکہ کمزور قوموں کو وحشی قرار دیا جاتا ہے۔ روس کے خاتمے کے بعد یہ صورتحال اسوقت زیادہ نازک صورت اختیار کر گئی جب مسلم قیادت نے کفار کے مقابلے میں اہل کتاب کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ ترکی کی علاوہ کوئی مسلم ملک مستحکم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مسلم دنیا تیزی سے تبدیل ہوتی دنیا میں یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہے کہ قدامت سے چمٹے رہنا ہے یا جدیدیت کی راہ پر چلنا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ اپنا وزن اسرائیل اور بھارت کے پلڑے میں ڈالیں گے، گویا ٹرمپ، نتین یاہو اور نریندر مودی کا مثلث عالمی سیاست کو اپنے گرداب میں دبوچنے کیلئے تیار ہے۔ خدشہ ہے کہ ٹرمپ کی مسلمان دشمن امیگریشن پالیسی صرف امریکہ تک محدود نہیں رہے گی بلکہ یورپ یقینی طور پر اس سے متاثر ہو گا۔ یورپ میں مقیم مسلمان، مقامی آبادی کیلئے تشویش کا باعث بنتے جا رہے ہیں، وسائل پر قبضے اور اجنبی روایات پر تنقید بڑھتی جا رہی ہے۔ یورپ میں قومی، نسلی اور مذہبی انتہا پسند چھوٹے چھوٹے ممالک میں تیزی سے پھیلتی ہوئی مسلم آبادی کو خطرہ جانتے ہیں۔ اس صورتحال میں یورپی ممالک ٹرمپ، یاہو اور مودی کی سوچ سے ضرور متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ مسلم ممالک کو ایک کڑے وقت کا سامنا ہے تو مغرب میں مقیم مسلمانوں کیلئے بھی ایک مشکل دور شروع ہو رہا ہے۔ جنوبی ایشیا میں بھارت کو کھل کر چین کے مقابل لایا جائیگا۔ چین کیساتھ پاکستان کے تعلقات ہمیشہ امریکی توجہ کا مرکز رہے ہیں اور اب سی پیک منصوبے کے بعد ٹرمپ کی خصوصی توجہ کا مرکز ٹہریں گے۔ مگر شاید تاریخ میں پہلی پار پاکستان نے سارے انڈے ایک تھیلی میں نہیں رکھے، چین اور خطے کے دیگر ممالک سے اشتراک کے باعث پاکستان نسبتا کم متاثر ہو گا۔

سانحہ 9/11 کے بعد دنیا کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا تھا، مگر اب ٹرمپ دور میں نسلی، قومی اور مذھبی منافرت پر مبنی سیاست تیزی سے تقویت پائیگی۔ تہذیب اور مذہب کے درمیان تصادم کے بیانیئے کو فروغ دیا جا رہا ہے تا کہ اقوام عالم پر ثابت کیا جا سکے کہ مسلمان مہذب دنیا میں فساد کا باعث ہیں۔ آزادی اظہار کے نام پر کبھی ٹیری جونز سامنے آتا ہے تو کبھی چارلی ایبڈو اور کبھی نیکولا پاسلے اشتعال انگیزی کو ہوا دیتا ہے، جو کسر باقی رہ جاتی ہے وہ برسلز، کوپن ہیگن، پیرس اور دیگر یورپی شہروں میں ہونیوالے دہشتگرد حملے پوری کر دیتے ہیں۔ کہانی رفتہ رفتہ انجانے انجام کی جانب بڑھ رہی ہے، کیا خوب کہا ہے منیر نیازی نے

کجھ اونج وی راھواں اوکھیاں سن
کجھ گل وچ غم دا طوق وی سی
کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن
کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے