وادی لیپا میں‌گزرے حسین لمحات

غالباً ۲۰۰۱ ؁ء کی بات ہے میرے بہنوئی ساجد محمود اعوان کی ایک تصویر نظر سے گزری۔ تصویر کے پس منظر میں دھان کے لہلہاتے کھیت عجب دل فریب منظر پیش کر رہے تھے۔قدرت کی اس تصویر کَشی نے ایسا مدہوش کیا کہ اس وادی کو دیکھنے کی خواہش نے یک دم جنم لیااور بے اختیار ساجد بھائی سے سوال کر بیٹھا۔ یہ کون سی جگہ ہے؟ ’’لیپا‘‘۔ یہ ’’لیپا‘‘ہے ساجد بھا ئی کا جواب پا کر مزید کھوج میں لگ گیا کہ کہاں ہے؟ جایا کیسے جا سکتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ غرَض وقت گزرتا چلا گیا اور’’لیپا‘‘ کی بازگشت کانوں میں گونجتی رہی ۔اُس دن سے میں نے اپنے دماغ پرلیپا کو کچھ یوں نقش کرلیا کہ میرا خواب بن گیا، لیپے جانا ۔ یہ شوق وقت کے ساتھ ساتھ کم ہونے کی بہ جائے پروان چڑھتا گیا۔ لیپا جانا میرے لیے ناگزیر ہوچلا تھا ۔ کئی دفعہ ارادہ باندھا لیکن ہر بار کسی نہ کسی سبب ٹوٹ گیا۔

۱۵سال تک ارادہ بنتے اور ٹوٹنے کا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تاوقتِ کہ ۱۲مئی۲۰۱۶ ؁ء کا دن آگیا۔ ایمز اسکول اینڈ کالج اپر چھتر میں اپنے ساتھی اُستاد، ملک مسعود جعفر ( جو کہ لیپا کے باسی ہیں) کے ساتھ بیٹھے گپ شپ میں لیپے جانے کا ارادہ کرلیا ۔ قوی امکان تھا کہ یہ ارادہ بھی ریت کی دیوار ثابِت ہو گا leepa 1مگر مسعود جعفر کا حوصلہ اور مَحبت میرے ارادے کے مصّمم ہونے کی وجہ بن گیا ۔ آخر کار ۱۳مئی کو ہمارا لیپے جانا طے پایا۔ ’’جمعے کو جائیں گے اور اتوار کی شام واپس لوٹیں گے‘‘ مسعود نے بتایا ۔جمعرات کی رات میں نے اپنازادِراہ باندھ لیا جو کہ مختصر سا بستہ تھاجس میں ضرورت کی چند چیزیں۔ اگلے دن ہم کالج سے ہوکر پونے بارہ بجے دومیل پُل پہنچے اس جگہ سے ہمیں بس میں سوار ہو کر ریشیاں جانا تھا۔

قریب بارہ بجے بس میں سوار ہوئے اس سے قبل مسعود نے سفری ضرورت کے پیشِ نظر کچھ پھل خریدے ۔دومیل سے شاہراہِ سری نگر پر تقریباً ۴۸کلومیٹر کی مسافت پر جوں ہی ہٹیاں سے آگے نکلتے ہیں تو سڑک کے بائیں جانب دریائے جہلم پر ایک پل نظر آتا ہے جسے’’ نیلی پل‘‘(Naili) کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ پل عبور کریں تو آگے مسلسل چڑھائی ہے ۔ کسی ناگن کی مانند بل کھاتی سڑک اوپر ہی اوپر چلی جاتی ہے ۔ دریا کے اس پار پہلا گاؤں گوہر آباد ہے جہاں سے معروف سیاسی شخصیات دیوان علی چغتائی اور ان کے والد علی خان چغتائی وزرائے ریاست رہ چکے ہیں۔ اس گا ؤں کے لوگ پڑھے لکھے ہونے کے باعث اچھے عہدوں پر ہیں۔ گوہر آباد ہی میں تین اشاریہ دومیگا واٹ کا پاور پراجیکٹ بھی کام کررہا ہے ۔ جس سے ہٹیاں ، لمنیاں اور ریشیاں کے علاقے روشن ہورہے ہیں ۔

گوہرآباد سے آگے سائیں باغ، شاریاں بھی اپنی زرخیزی کے سبب مشہور ہے ۔ ۲۰۰۵ ؁ء تک یہاں دھان کے کھیت لہلاتے تھے جو مقامی لوگوں کی سہل طلبی کے باعث اب ختم ہوچکے ہیں۔ لمنیاں ، سائیں باغ سے اگلا گاؤں ہے۔ جہاں کی اچھی خاصی آبادی خواندہ اور برسرروزگار ہے۔ لمنیاں سے ریشیاں تک کا سفر نسبتاً زیادہ دشوار گزار ہے۔ تنگ اور کچی سڑک جگہ جگہ سے اکھڑی ہونے کے باعث زیادہ پر خطر ہوچکی ہے ۔ اسی وجہ سے اس سڑک پر گاڑی کی رفتار کم ہو جاتی ہے ۔ لیکن یہ کم رفتاری اس لیے بہتر ہے کہ آپ گردوپیش کے دل فریب اورمسحور کن نظاروں سے لطف اندوز ہونے کا موقع حاصل کرلیتے ہیں۔

ریشیاں مظفرآباد سے قریباً ۷۵کلومیٹر دور ایک صحت افزامقام ہے جہاں بس کا سفر اختتام پذیر ہوجاتا ہے کیوں کہ یہاں سے آگے کی سڑک مکمل ڈھلوانی ہونے کی وجہ سے نہایت دشوار گزار ہے۔ ریشیاں پہنچ کر میری خوشی مزید بڑھ گئی کہ یہاں میرے ایک اور عزیز ظفر اقبال مل گئے یہ ملاقات بالکل غیر یقینی تھی ۔ ظفر مجھے حیرت سے تک رہا تھا شاید وہ بھی میری طرح اس اچانک ملاقات پر حیران تھا، میں خوش تھا کہ ایک اور ہم سفر ملا۔ظفر کے ساتھ اس کے مزید دو دوست بھی تھے یعنی یہاں سے آگے کا سفر ہم پانچ لوگوں نے مل کے کرنا تھا۔

جب تک اگلا سفر شروع ہوتاہم لوگ گئے دنوں کی باتیں کرتے اور ایک دوسرے کا حال احوال جاننے کے ساتھ ساتھ ہوٹل کی طرف چلے۔ریشیاں بازار میں قائم بلبل کشمیر ہوٹل پر دوستوں کی جانب سے پُر تکلف چائے نے کافی حد تک سفر کی تھکان کم کر دی۔ یہاں سے آگے کا سفر چوں کہ ایک مشکِل سفر تھا جو جیپ پر طے کرنا تھا۔ ریشیاں تا لیپا جیپ با آسانی مل جاتی ہے۔ یہاں سے لیپے جانے کے لیے دو راستے ہیں ایک ریشیاں بازار سے اُلٹے ہاتھ جاتا ہے جو داؤ کھن کی حسین وادی سے ہو کر لیپہ پہنچتا ہے۔ فطری حسن سے مالا مال ہے ، مظفر آباد سے تقریباً۷۹ اور ریشیاں سے صرف ۴ کلومیٹردور داؤ کھن سطح سمُندر سے ۲۴۹۰ میٹرز بلند ہے۔ جب کہ دوسرا راستہ برتھ واڑ گلی (ریشیاں گلی) سے ہوتا ہوا قدرت کے حسین شاہکار لیپہ تک جاتا ہے ۔

ریشیاں گلی ایک خوب صورت پہاڑی درہ ہے جو سطح سمُندر سے قریباً ۳۲۰۰ میٹر بلندی پر ہے۔ اس درے کی دوسری طرف لیپا ہے۔ ہم نے برتھ واڑ گلی والے راستے شاہراہِ کرنل حق نواز کیانی پر سفر جاری رکھا۔ کرنل حق نواز کیانی اس خطے میں اپنی عسکری خدمات کے حوالے سے عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔پنجاب کے ضلع جہلم کے گاؤں مونا پنڈ میں پیدا ہونے والے کرنل کیانی ۶۵ کی پاک بھارت جنگ میں جر أت و بہادری کی مثال بنے رہے ۔ انہی خدمات کے عوض ان کو ستارۂ جر أت سے نوازا گیا۔ ’’فاتح لیپا ‘‘کے نام سے جانے ،جانے والے کرنل کیانی ۵ مئی ۱۹۷۲ ؁ء کو شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہوئے ۔ لیپا وادی میں مشہور’’ کیانی پوسٹ‘‘ آپ کی یادگار ہے۔

ر یشیاں فوجی چیک پوسٹ پر سرحدی علاقہ ہونے کی وجہ سے اندراج لازمی ہے۔ ہم نے بھی اندراج کروایا اور آگے بڑھنے لگے۔ جوں جوں بلندی کی طرف بڑھتے گئے سردی اور فطری حسن میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ گاڑی کاڈرائیور نہایت مہارت کے ساتھ گاڑی چلا رہا تھا۔ ریشیاں سے لیپا صرف ۲۵کلومیٹر ہے لیکن تمام راستہ پہاڑی اور دشوار ہونے کے سبب یہ ۲۵کلومیٹر میدانی علاقے کے ۱۰۰کلومیٹر مساوی ہوجاتا ہے ۔ ریشیاں سے لیپہ کے سفر میں کئی پہاڑی گھاٹیاں راہ میں حائل ہوئیں جب کہ کئی ایک جگہوں پر گلیشئیر ز کو بھی موجود پایا۔ یہی وجہ ہے کہ موسمِ سرما میں جب شدید برف باری ہوتی ہے تو اس راستے پر گاڑیوں کی یہ محدود آمدورفت بھی ختم ہو کر رہ جاتی ہے ۔ مقامی لوگوں کے لیے یہ وقت امتحان کا ہوتا ہے کہ یخ بستہ موسم میں برفیلے راستوں پر پیدل سفر کرنا پڑتا ہے۔

جنرل پرویز مشرف ، سردار عتیق احمد خان اور میاں نواز شریف سمیت کئی حکومتوں نے لیپا کے باسیوں کو نیلی تا لیپا ’’ٹنل ‘‘ کا خواب دِکھا یا جو تا حال شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ اگر اس علاقے میں ’’ٹنل ‘‘ بن جاتا ہے تو مظفر آباد سے اس کا فاصلہ سمٹ کر صرف ۴۵ کلو میٹر ز رہ جائے گا۔ سب سے بڑھ کر اس ٹنل سے سیاحت کو جو فِروغ ملے گا وہ الگ۔ اگر حکومت لیپے کے لوگوں کے لیے مخلص ہے تو ٹنل ضرور بنے گا۔ اس ٹنل سے اس علاقے کی معیشت کو بھی خاطر خواہ فائدہ ہو گا۔

ریشیاں گلی کے ۳۲۰۰ میٹرز بلند درے سے گزر کر گاڑی پائیں رو ہو جاتی ہے جس سے ایک نیا منظر کُھلتا ہے۔ سامنے’’ شمسا بری‘‘ کی برف پوش چوٹی دست بستہ آنے والوں کو خوش آمدید کہتی ہے ۔ شمسا بری پہاڑ کے حوالے سے مختلف ضعیف روایات موجود ہیں مثلاًیہ کہ قدیم وقتوں میں شمس نامی کسی شخص کی بارات اس پہاڑ کی دوسری طرف جارہی تھی کہ اس پہاڑ پر موجود ایک پری اس پر فریفتہ ہوگئی اور باراتیوں کو مار ڈالنے کے بعد اس کو اپنا بنا لیا ۔جس کے بعد اس پہاڑ کو’’ شمس پری‘‘ کہا جانے لگا جو بعد میں شمسا بری یا پھر شمسا پری مشہور ہوگیا ۔

ایک دوسری روایت کے مطابق اس پہاڑ پر ایک حسین و جمیل پری رہتی تھی جس کا نام شمسا پری تھا اسی کی وجہ سے یہ پہاڑ شمسا پری اور پھر’’ شمسا بری‘‘ کہلاتا ہے ۔ اِن روایات میں کس قدر صداقت ہے اللہ ہی بہتر جانے ۔ لیکن اس پہاڑ نے وادئ لیپا کے حُسن میں جو اضافہ کیا ہے وہ واقعی کسی پری کے حسن سے کم نہیں۔ لیپا کی وادی شمسابری کے دامن میں اپنے تمام ترحسن کے ساتھ آنے والوں پر سحر طاری کیے ہوئے ہے ۔

برتھ واڑ گلی یا ریشیاں گلی سے آگے کا تمام سفر اترائی میں ہے کچی سڑک کے دونوں اطراف کائل کے گھنے جنگلات اس سفر کو خوب صورت بنانے کے ساتھ ساتھ آپ کو تازہ ہوا کے جھونکوں سے محظوظ کرتے ہیں۔ جو آپ کے کانوں میں سرگوشیاں کرتے ہیں اور اس بات پر مائل کرتے ہیں کہ آپ بنانے والے مصور کے فن پر بے ساختہ سبحان اللہ کہہ دیں ۔ گاڑی نے تقریباً سوا گھنٹے کی مسافت طے کرلی تو بیلی کے مقام پر کائل (بیاڑ) کے گھنے جنگل میں واقع بیلی سنگم ہوٹل پر قیام کیا۔ آبادی سے دور اس جنگل میں مسافروں کی سہولت کے پیش نظر بنایا گیا یہ ایک مختصر سا ہوٹل ہے۔ ایک محدود سے کمرے پر مشتمل اس ہوٹل میں روایتی طریقے سے چولہا بنایا گیا ہے جس میں ہمہ وقت آگ جلتی ہے اور گرم پانی کی دیگچی اوپر موجود رہتی ہے جو بہ وقتِ ضرورت چائے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہم نے اس ہوٹل پر چائے نوش کی اور ٹھنڈے ماحول میں اُبلے ہوئے گرما گرم انڈوں سے لطف اندوز ہوئے ۔

دس منٹ ٹھہرنے کے بعد گاڑی نے اپنی منزل کی طرف دوبارہ سفر شروع کیا ۔ یہاں سے آگے کے سفر میں وادی نظر آرہی تھی میرے ہم سفر ملک مسعود جعفر اورظفر اقبال نے اُنگلی کے اشاروں سے میری توجہ مختلف مناظر فطرت کی جانب مبذول کروائی۔ اِن داد طلب مناظر میں ایک منظربارہ ہزاری کا بھی تھا۔ بارہ ہزاری دراصل ایک بلند چوٹی ہے جس کی وجۂ تسمیہ اس کی بلندی ہے جو ۱۲۰۰ ہزار فٹ بتائی جاتی ہے۔ یہ چوٹی برف کا لبادہ اُوڑھے سورج کی ڈوبتی شعاعوں میں اپنے حسن کے جلوے دکھا رہی تھی ۔ ملک مسعود کے بہ قول وہ دوستوں کے ہم راہ کبھی کبھار گرمی کے موسم میں اس چوٹی پر پکنک منانے جایا کرتے تھے۔

باتیں جاری تھیں کہ اچانک ایک فوجی چوکی آگئی جس پر ایک مرتبہ پھر روک کر شناختی کارڈ مانگے گئے ۔ میر ے میزبانوں نے بتایا کہ یہ آرمی چیک پوسٹ ہے جس کے بعد نالہ قاضی ناگ پر ملحقہ پل عبور کرتے ہی وادی میں داخل ہوجائیں گے۔ میں بہت زیادہ پر جوش تھا گو کہ سفر کی تھکان کے باعث سربوجھل ہوچکا تھا لیکن وادی کے نظاروں کے فسوں نے مکمل طور پر مدہوش کردیا ۔ چاروں اطراف سے پہاڑوں ، جنگلات اور چوٹیوں میں گھری یہ وادی جن کا شمار دُنیا کے خوب صورت ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔ قدرتی نظاروں ، مرغ زاروں ، سبزہ زاروں ، دھان کے وسیع رقبے پر پھیلے لہلہاتے کھیتوں ، تا بہ فلک بلند چوٹیوں اور دودھیا پانیوں کے ندی نالوں کی مالکن یہ حسین وادی، جِس کی وجۂ تسمیہ بھی نرالی ہے،

پروفیسر حبیب گوہر کے بہ قول ’’ کسی بھی علاقے کی درست وجۂ تسمیہ معلوم کر لینا کسی معجزے اور کرامت سے کم نہیں‘‘ اس وجہ سے لیپا کی درست وجۂ تسمیہ معلوم نہیں ہو پائی البتہ مختلف لوگوں میں جو مشہور ہے اس کے باعث کسی قدیم زبان میں لیپا’’ پہلی رات کی دلہن ‘‘ کو کہا جاتا تھا ۔ وادی کے بے پناہ حسن کے باعث اس کو یہ نام دیا گیا۔

اسی طرح ایک دوسری روایت کے مطابق اس وادی کی پہاڑوں کے بیچ جو شکل بنتی ہے وہ ہونٹوں کے ایسی ہے۔ کسی انگریز نے اسی وجہ سے اس کو ’’لیپس ویلی ‘‘ کا نام دیا جو بعد میں لیپا بن گیا، نام کی وجہ کچھ بھی ہو لیپا کے حسن کے بارے اگر یہ کہوں کی دلہن کے حسن سے بھی زیادہ حسن لیپا کا ہے تو مبالغہ نہ ہو گا، میں مکمل طور پر نظاروں میں کھو چکا تھا کہ مسعود کی آواز نے چونکا دیا۔’’ہمارا ٹھکانا آگیا ہے اپنا سامان سمیٹ لو ‘‘ اپنا بستہ اٹھائے گاڑی سے اترے اور اپنے دیگر ہم سفروں کو کل ملنے کے وعدے پر خدا حافظ کہا۔

مغرب کی اذان کا وقت قریب تھا جب ہم نے وادی کے پہلے گاؤں’’ملِک پورہ‘‘میں قدم ڈالے۔مسعود کے مطابق اس گاؤں کی ساری آبادی ملک برادری کی ہے جس وجہ سے یہ ملِک پورہ کہلاتا ہے۔ نالہ قاضی ناگ کے کنارے آباد اس گاؤں کی شرح خواندگی ۱۰۰فیصد ہے۔اگر پوری وادی کی بات بھی کریں تو خواندگی کے اعتبار سے یہ قابلِ ذکر وادی ہے ۔میں یہاں کے جتنے بھی لوگوں سے شناسا ہوں وہ سب کے سب کم از کم ماسٹر ڈگری ہولڈر ہیں۔ملِک پورہ اسٹاپ پر اتر کر ہم لوگ ایک پگڈنڈی پر چل پڑے جس کے ایک طرف دھان کے کھیت جب کہ دوسری جانب قاضی ناگ نالہ تھا جو شمسا بری سے نکلتا ہوا ایک طویل مسافت طے کرنے کے بعد ’’ٹیٹوال ‘‘ چلہانہ کے مقام پردریائے نیلم سے بغل گیر ہو جاتا ہے۔یہ راستہ مسعود جعفر کے عشرت کدے کو جاتا ہے۔

سڑک سے کچھ ہی فاصلے پر مسعود کا دولت کدہ آ گیا۔ دیودار کی لکڑی سے بنے ٹین کی چھت والے خوب صورت گھر کے دروازے پر مسعود کی والِدہ محترمہ نے ہمارا استقبال کیا اور مادرانہ شفقت سے سروں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے خوش آمدید کہا۔ مسعود کی امّی کی شفقت ایسی ہی تھی جیسی کہ کسی بھی ماں کی ہونی چاہیے۔وہ ہمیں اندر (رسوئی گھر) کچن میں لے گئیں جس کی وجہ سردی میں اضافہ تھا اور ایک ماں اپنے بچوں کو موسم کی سختیوں سے بچاتی ہی ہے۔ایک دشوار گزار پہاڑی سفر کے بعد میرے سر میں شدید درد ہو رہا تھا۔میں سونا چاہتا تھا لیکِن مسعود مجھے اپنے ساتھ قریبی بازار لے گیا جہاں سے کچھ خریداری کر کے فوراً ہی واپس آ گئے۔میں نے اسے کہا کہ گھر فون کرنا ہے مگر اس کے جواب نے مجھے پریشان کر دیا کہ فون کا رابطہ رات ہونے والی بارِش کے باعث منقطع ہے۔اور شاید کل تک بحال ہو گا۔میں اب آرام کرنا چاہتا تھا اس لیے مسعود کی والدہ محترمہ نے جلد ہی کھانا چُن دیا ۔کھانا بہت مزے دار تھا خاص اہتمام سے میرے لیے بنا ہوا یہ کھانا میں زیادہ نہ کھا سکا۔اس کی ایک وجہ میرا سر درد اور دوسرا میں بسیار خوری میں عدم دل چسپی تھی۔کھانے سے فراغت پا کرمیں نے سر درد کی گولی لی اور سرد موسم میں رضائی اوڑھ کر سکون کی نیند سو گیا۔

اگلی صُبح جلد ہی آنکھ کھل گئی رات سکون کی نیند سونے کی وجہ سے طبیعت کا بوجھل پن زائل ہو چکا تھا۔ لسی اور ماں کے ہاتھ کے بنے پراٹھوں کا روایتی ناشتہ کرنے سے قبل حسَین وادی کی تازہ دم صبح میں بادِ نسیم سے لطف اندوز ہونے نکلا۔نالہ قاضی ناگ کا پانی پتھروں سے ٹکرا ٹکرا کر اپنے ہونے کا پتا دے رہا تھا۔

ناشتے کے بعد مسعود کے ہم راہ نکلا اور پیدل ہی مین بازار لیپا سے ہوتے بوائز ڈگری کالج اورہائی اسکول کا دورہ کیا۔ مین بازار مسعود کے گھر سے قریب ہے تھا جس میں ضروریات زندگی کی سبھی اشیا با آسانی مل جاتی ہیں ۔اس بازار کے علاوہ وادی کے تقریباً ۲۵ گاؤں ہیں جن تمام کے اپنے چھوٹے چھوٹے بازار ہیں۔مین بازار کے کچھ فاصلے پر ڈگری کالج ہے اس کالج کو چند دن پہلے ذوالفقار بھٹو کے نام سے موسوم کیا گیا تھا۔علاقے کے اکثر لوگ اس اقدام سے خائف نظر آئے کیوں کہ یہ سراسر نا انصافی ہے کہ وادی کے کئی نام ور لوگوں کو چھوڑ کر ذوالفقار علی بھٹو کانام استعمال کیا جائے۔

مسعود نے بتایا کہ اس کالج کی تعمیر کے دوران کچھ مورتیاں بھی ملیں جن کو مذہبی تعصب کے بھینٹ چڑھاتے ہوئے ضائع کر دیا گیا اور توڑ کر دیواروں میں چُن دیا گیا۔اس مختصر سے دورے میں کئی لوگوں سے ملاقات ہوئی اور ان سے تاثرات بھی لیے۔۱۱ بجے کے بعد مسعود نے ایک کزن سے موٹر سائیکل مانگا وہ بھانپ چکا تھا کہ مجھ سے مزید پیدل نہ چلا جائے گا۔موٹر سائیکل کے ذریعے ہم وادی کے گاؤں ’’کیسر کوٹ‘‘اور ’’نوکوٹ‘‘ سے ہوتے ہوئے ’’رنج کولا‘‘میدان میں گئے، بلند پہاڑ کے دامن میں واقع یہ ایک سر سبز میدان ہے ۔جہاں آج علاقے کی دو کرکٹ ٹیموں کے مابین کرکٹ میچ ہونے جا رہا تھا۔ اس جگہ آنے کا مقصد کرکٹ نہیں بل کہ وہ دوست تھے جو گزشتہ روز ہمارے ہم سفر تھے۔ان دوستوں سے ملے جب کہ مسعود کے مزید کچھ دوستوں سے بھی میرا تعارف ہوا۔جلد ہی اس جگہ سے واپس ہوئے روایتی طور پر آٹا پیسنے کی مشین’’آسیا‘‘ پن چکی اور ساتھ ہی ایک اور روایتی مشین’’پیکو‘‘ کا جائزہ لیا ۔

’’ آسیا ‘‘ میں پہلے بھی کئی بار دیکھ چکا تھا تا ہم قدیم طریقے سے چاول صاف کرنے کی مشین’’پیکو‘‘ پہلی مرتبہ دیکھنے کا اتّفاق ہوا۔ یہ دونو ں مشینیں پانی کے بہاؤ سے چلتی ہیں۔ان کا جائزہ لینے کے بعد ’’نوکوٹ‘‘ میں واقع شش منزِلہ تاریخی عِمارت دیکھی۔ مکمل طور پر خالص دیودار کی لکڑی سے بنی یہ عِمارت غالباً۱۹۴۰ ؁ء میں بنائی گئی تھی۔یہی عمارت لیپا وادی کی شناخت بھی ہے۔نو کوٹ سے واپَس کیسر کوٹ کی طرف آئیں تو راستے میں دھان کے وہ کھیت ہیں جو تا حدِ نگاہ پھیلے ہیں۔یہی کھیت ہیں جن کا ذکر ابتدا میں میں نے کیا۔

وادئ لیپا آزاد کشمیر میں سب سے زیادہ چاول پیداکرنے کے حوالے سے بھی اہمیت کی حامل وادی ہے۔لیکن یہاں کے کِسان آج بھی جدید سہولیات سے نا آشنا ہیں ۔حکومت اور متعلقہ محکمے بھی اس سلسلے میں اقدامات اٹھانے سے قاصر نظر آتے ہیں۔اگر یہاں کے چاول کی پیداوار کو بڑھا کر عالمی منڈی میں لے جایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ قیمتی زر مبادلہ حاصل نہ ہو۔

یہاں کے لوگ چاول، سیب،چیری،شہد ،اخروٹ وغیرہ کے اعتبار سے خود کفیل ہیں لیکن سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث تجارتی سطح پر کاشت مشکِل ہے۔ یہاں کا اخروٹ اور شہد دنیا بھر میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ دھان کے وسیع و عریض کھیتوں میں چاول کی کاشت کا موسم تھا۔کسان اپنے اپنے بیلوں کے ساتھ کام میں مشغول تھے۔ان جاذبِ نظر مناظر کو اپنے کیمرے میں محفوظ کیا اور اگلے مقام کی جانب بڑھے۔’’کیسر کوٹ ‘‘ وادی کا ایک معروف گاؤں ہے اس گاؤ ں میں زندگی کی تمام سہولیات موجود ہیں لیکن سڑک کی خستہ حالی منہ چِڑاتی ہے۔کیسر کوٹ میں زعفران تونظر نہیں آتا لیکن یہاں کی مٹی زعفران زر ضرور ہے۔ اخروٹ اور سیب یہاں بہ کثرت پیدا ہوتے ہیں۔

لیپا وادی میں قریب قریب تمام برادریوں کے لوگ بستے ہیں ۔کشمیر ی اور پہاڑی زُبانیں یہاں کی اہم زبانیں ہیں۔۲۵ گاؤں کی اس وادی کے مشہور گاؤں نوکوٹ،لب گراں،کلی منڈل،نو کوٹ،لیپا ،سید پورہ،تلواڑی،چک مقام ،غا ئی پورہ،کپہ گلی اور بٹلیاں وغیرہ ہیں ۔ اِس وادی کی کُل آبادی قریباً (۶۰۰۰۰ )ساٹھ ہزار نفوس پر مشتمل ہے جس میں سے (۲۰۰۰۰) بیس ہزار وادی سے باہَر تعلیم یا روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں۔آبادی کے اعتبار سے ’’غا ئی پورہ‘‘ سرِفہرست ہے بھارتی مقبوضہ کشمیر کی سرحد پر واقع اس گاؤں کی آبادی بیس ہزار لوگوں پر مشتمل ہے۔

۳ بجے کے قریب مسعود نے یاد دلایا کہ کھانا بھی کھانا ہے لہذا گھر جانا ہو گا۔ میں بھی بھوک محسوس کر رہا تھا اس لیے گھر کی راہ لی۔ماں جی نے زبردست کھانا تیار کر رکھا تھا۔چوں کہ اگلے دن سویرے ہم نے واپس مظفرآباد لوٹنا تھا اس لیے وقت کو غنیمت جانتے ہوئے زیادہ سے زیادہ علاقہ دیکھنا چاہتا تھا سو ایک مرتبہ پھر گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔بازار میں گئے جہاں موٹر سائیکل کھڑا تھا وہ نکال رہا تھا کہ ایک شخص کو فون پر بات کرتے دیکھا اور یک دم مسعود کو کہا کہ مجھے گھر بات کرنی ہے۔اس نے اپنے ایک پھوپھا سے (جو وہاں دکان دار تھے)موبائل لے کر دیا میں نے گھر ابو سے بات کی اور ان کو اپنی خیریت کی اطلاع دی۔

ہماری اگلی منزل ’’تریڈہ شریف‘‘ہوتی اگر وقت کی بندش کے ساتھ ساتھ موسم اور رستے کی دشواری آڑے نہ آتی۔تریڈہ شریف میں ایک روحانی بزرگ’’ سائیں مٹھا بابا‘‘ کا مزار ہے ۔ یہ مزار گزشتہ کئی برسوں سے مرجع خلائق عام ہے۔مسعود نے بتایا کہ’’ آپ کے طالبِ علم افضال عالَم مغل بھی تریڈہ کے قریبی گاؤں ’’لب گراں‘‘ سے تعلُق رکھتے ہیں‘‘۔مجھے یاد آیا کہ جامعہ کشمیر میں ایم اے اردو میقات اوّل کے طالب علم افضال بھی لیپا سے ہیں مگر گاؤں کا نہیں معلوم تھا۔

افضال عالم مُغل ایک قابل نوجوان ہے جو جماعت میں تو اپنی قابلیت منواتا ہی ہے عملی زندگی میں بھی آگے ہی آگے نظر آتا ہے ۔مقامی روزنامہ اخبار ’’سیاست‘‘میں بہ طور نیوز ایڈیٹر اپنی خدمات سر انجام دے رہا ہے۔اس نوجوان کی اردو سے مَحبت کا یہ عالم ہے کہ صحافت میں ماسٹر کرنے کے بعد اردو کی طرف آیا اور اس کی ترقی کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔

تریڈہ جانا تو محال ہو گیا لیکن ’’سید پورہ‘‘گاؤں میں نالہ قاضی ناگ کے کنارے ہری ہری گھاس پر لیٹ کے موسم کا لطف اٹھایا جا سکتا تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے مذکورہ گاؤں کا رُخ کیا۔قاضی ناگ کے کنارے آباد یہ چھوٹا سا گاؤں سیاحوں کو دعوتِ نظارہ دیتا ہے۔اچھا خاصا وقت اس جگہ بیت گیا۔مغرب کے قریب موسم زیادہ ابر آلود ہو گیا ہم نے واپسی میں ہی غنیمت جانی۔ واپس پہنچے تو موسم کسی قدر بہتر تھا اور ابھی اندھیرا ہونے میں بھی کچھ دیر تھی اس بات کو جانچتے ہوئے سوچا کیو ں نہ ایک اور قریب ترین جگہ کودیکھ لیا جائے۔

مسعود کے گھر کے پاس ہی پاور پرجیکٹ کے لیے بنائی گئی ایک نہر کی طرف رخ کیا یہ نہر قاضی ناگ نالے سے نکال کر بجلی پیدا کرنے کے مقصد سے بلندی سے گرائی گئی ہے۔اس پاور پراجیکٹ سے ایک اشاریہ چھے میگا واٹ بجلی حاصل کر کے وادی کی ضرورت کو پورا کیا جاتا ہے۔ ہم اس جگہ کو دیکھ پاتے قسمت کو یہ منظور نہ تھا ۔ہمارا موٹر سائیکل پنکچر ہو گیا ۔ اس کو مشکِل سے کیسر کوٹ میں واقع پنکچر کی دکان تک پہنچایا ہی تھا کہ تیز بارِش اور آندھی نے آ لیا۔بائیک وہاں چھوڑ کر ہم ایک ہوٹل میں گھس گئے ۔یہ چھوٹا سا روایتی ہوٹل تھا جس پر مزے دار چائے پی اور بارِش تھمنے کا انتظار کرنے لگ گئے۔بارش تھمنے تک اندھیرا پھیل چکا تھا اس لیے واپسی کی راہ لی اورمسعود کے گھر پہنچ کر دم لیا ۔پہلی فرصت میں گھر فون کیا اب کی بار اپنی شریکِ حیات(سائرہ قریشی) سے بات ہوئی۔ وہ بات کر کے مطمئن نظر آئی جب کہ میری کیفیت بھی مختلف نہ تھی۔کھانا کھانے سے قبل مسعود اپنے کسی ماموں کے ہاں چلا گیا اور میں اس کے ایک کزن کے ساتھ باتوں میں لگ گیا۔مسعود کی واپسی ہوئی تو کھاناکھا کر کل ایک نئی اور حَسین صبح کی اُمید میں سو گئے۔

۱۵ مئی اتوار کی صبح بھی بہت بھلی بھلی معلوم ہوئی اس صبح کا منظر بھی قابل دید تھا۔پرندوں کی چہچاہٹ اور ہواؤں کی اٹھکھیلیاں وادی کے حسن میں اضافہ کر رہے تھے۔۱۰ بجے والی گاڑی کے ٹکٹ ہم نے ایک دن پہلے لے لیے تھے۔ اس لیے اطمینان تھا۔جب تک گاڑی آتی ہم اردگرد کے کھیتوں میں گئے ۔ آرمی کیمپ میں اس شرط پر داخلے کی اجازت ملی کہ تصاویر نہیں بنا ئی جائیں گی۔وہاں سے واپس لوٹے تو ماں جی(مسعود کی والدہ) نے میرے لیے دیسی چاول اور مکئی کا آٹا ڈال رکھا تھا وہ اٹھایا اور گھر سے نکلے۔ ماں جی ساتھ آئیں اور اپنی دعاؤں کے آنچل میں رخصت کیا۔جب تلک گاڑی نظروں سے اوجھل نہ ہو گئی وہ ٹکٹی باندھے تکتی رہیں۔

واپسی پر میرے ہم راہ اس وادی کی بے تحاشا یادیں تھیں۔اس وادی سے جو محبتیں پائیں وہ نا قابِل بیان ہیں۔مسعود جعفر کے گھر سے جو خلوص ملا وہ اپنی مثال آپ ہے۔واپسی کے سفر پر جب برتھ واڑ گلی پہنچا تو میرے موبائل نے میسیج موصولی کی گھنٹی بجائی جس کا مطلب تھا کہ سگنل آ چکے ہیں۔میسیج دیکھا تو اہلیہ کا تھا پلٹ کر کال کی۔پتا چلاکہ ابّو ،امّی ،سائرہ اور مریم سبھی ابو کے دوست کے ہاں لمنیاں آئے ہوئے۔ میں نے مسعود کو بتایا تو اس نے کشادہ دلّی سے مجھے مشورہ دیا کہ ’’تم لمنیاں اُتر جانا اور اپنے کنبّے کے ساتھ ہی گھر جانا‘‘۔

میں واپسی پر شالا باغ اتر گیا جہاں سے ابّو لوگوں کے ساتھ رات گھر پہنچا۔ یوں ایک خواب جو ۱۵ برس پہلے دیکھا آج پورا ہوا۔ میں واپسی بعد بھی سوچتا رہا کہ ہمارے حکمراں کیوں اپنی رعایا کو بھول جاتے ہیں؟اگر حکومت چاہیے تو بہت مختصر مدّت میں لیپا ٹنل تعمیر کر کے ساٹھ ہزار نفوس کے دِل جیتنے کے ساتھ ساتھ ملکی سیاحت کو فروغ دے سکتی ہے۔اس ٹنل کی تعمیر جو وادی کے لوگوں کا اک خواب ہے کاش یہ خواب بھی جلد تعبیر پائے۔

میں اُن تمام لوگوں سے یہ بات ضرور کہوں گا جو سیاحت کے دل دادہ ہیں وہ ایک دفعہ لیپا ضرور دیکھیں قدرت کا یہ شاہکار دیکھ کر انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ:’’اس حَسین وادی کا بنانے والا خود کس قدر حَسین ہوگا‘‘ اس شعر کے ساتھ اجازت چاہوں گا۔

ؔ میں نے اس کو اتنا دیکھا ،جتنا دیکھا جا سکتا ہے
لیکِن پھر بھی دو آنکھوں سے کتنا دیکھا جا سکتا ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے