گرفتار ملزمان زخمی : عدالت برہم

کراچی: پولیس کی جانب سے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے غیر قانون طور پر گرفتار ملزمان کو فائرنگ سے زخمی کرنے کی اطلاعات پر انسداد دہشت گردی کی عدالت کے انتظامی جج نے قانون نافذ کرنے والے ادارے کے سربراہ کو ایسے واقعات کی اندرونی تحقیقات مکمل کر کے 15 روز میں اس کی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

عدالت نے تنقید کی کہ گذشتہ ڈیڑھ ماہ میں ایسے 65 کیس رپورٹ ہوچکے ہیں کہ جن میں ملزمان کی ٹانگوں میں گولیاں ماری گئی ہیں جیسا کہ پولیس کا دعویٰ ہے کہ رات کی تاریکی کی وجہ سے ایسا ہوا ہے، اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پولیس اپنی من مانی کررہی ہے کیونکہ بیشتر متاثرہ افراد نشے کے عادی تھے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ جن ملزمان کو ریمانڈ کے حصول کیلئے عدالت میں پیش کیا گیا، انھوں نے الزام لگایا کہ انھیں گرفتاری کے بعد گولی ماری گئی ہے۔

عدالت کا مزید کہنا تھا کہ ریاست کے اداروں کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام شہریوں کو زندگی، عزت، وقار اور جائیداد کا تحفظ فراہم کریں۔

عدالت کا کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے، خاص طور پر پولیس، انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 5 ٹو کے تحت اختیارات کا استعمال کررہے ہیں، لیکن اسی دفعہ کی تیسری شرط میں کہا گیا ہے کہ فائرنگ کے واقعات میں ہونے والی ہلاکتوں اور انتہائی نوعیت کے زخم کی تحقیقات قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ہیڈ کی سربراہی میں اندورنی انکوئری کمیٹی کرے گی۔

عدالت نے کہا کہ ‘یہ کہنا کافی ہوگا کہ مستقل آتشی اسلحے کا استعمال انتہائی خوفناک اور آئین کی حدود کی خلاف ورزی ہے، کیونکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ ایک شہری کو قتل کریں یا انتہائی نوعیت کے زخم پہنچائیں، جس پر مبینہ طور پر پولیس مقابلے کا الزام ہو، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اس قسم کی کارروائیاں ایسے قوانین بنانے کی ضرورت پر زور دیتی ہیں جو مبینہ پولیس مقابلوں یا ماورائے عدالت قتل کے حوالے سے پولیس افسران کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال کے زمرے میں لائے جائیں’۔

انسداد دہشت گردی کے انتظامی جج نے مزید کہا کہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ نے بھی ایسے ملزمان کی جسمانی حالت پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور عدالت کو بتایا ہے کہ جیل میں ایسے زخمی ملزمان کی بڑی تعداد موجود ہے۔

آئین اور انسداد دہشت گردی کی دفعات کی بالادستی کے حوالے سے عدالت کا کہنا تھا کہ یہ ناگزیر ہوگیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسی کے سربراہ ایک کمیٹی کے ذریعے اندرونی انکوئری مکمل کریں اور یہ انکوئری رپورٹ 15 روز میں عدالت میں پیش کی جائے۔

9 فروری کو اسی عدالت نے ایک سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کو مبینہ پولیس مقابلے کی انکوئری کا حکم دیا تھا، جس میں پولیس نے اقبال نامی شخص کو شاہرائے نور جہاں پولیس کی حدود میں مبینہ مقابلے میں زخمی حالت میں گرفتار کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے اسے انسداد دہشت گردی قانون کے تحت ملزم قرار دیا تھا۔

ان 65 مقدمات کی تفصیلات کے مطابق 29 دسمبر 2016 سے اب تک 80 زخمی ملزمان کو پیش کیا جاچکا ہے۔

ان میں سے پانچ مقدمات مبینہ ٹاؤن تھانے جبکہ 3 پاکستان بازار، پیر آباد، لانڈھی اور شاہرائے نور جہاں، دو مقدمات شارع فیصل، شیر شاہ، اورنگی ٹاؤن، نیو کراچی، چاکی واڑہ، اقبال مارکیٹ، زمان ٹاؤن، عزیز آباد، جوہر آباد، نارتھ ناظم آباد، ڈیفنس، عوامی کالونی، سپر مارکیٹ اور تیموریہ تھانوں میں درج ہیں۔

اس کے علاوہ بغدادی، لیاقت آباد، کلا کوٹ، گزری، گلبرگ، بلال کالونی، گلستان جوہر، سچل، گلشن اقبال، عزیز بھٹی، اتحاد ٹاؤن، سولجر بازار، سعود آباد، ایف بی ایریا، پاپوش نگر، مدینہ کالونی، سرسید، سائٹ بی اور پریڈی تھانوں میں ایک، ایک مقدمہ درج ہے۔

پولیس نے ان مبینہ ملزمان کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 324 اور 353 جبکہ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 7 کے تحت مقدمات درج کیے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے