ویلنٹائن ڈے اور ہم

ویلنٹائنز ڈے آنے پر ہمارے ہاں ہر دفعہ کئی سوال اٹھتے ہیں ایک طرف اس دن کو منانے کی حمایت کرنے والے سامنے آتے ہیں جو اس دن کے مثبت پہلو بتاتے نہیں تھکتے

اور دوسری جانب ایک مکتبہ فکر اس دن کی مخالفت کے فتوے دیتا ہے

لیکن بالحال یہ کسی بھی شخص کا انتہائی ذاتی معاملہ ہے کہ وہ یہ دن مناتا ہے یا نہیں.

اور کوئی بھی عقل شعور رکھنے والا شخص یہ جانتا ہے کہ کسی کے ذاتی معاملات کی کن سوئیاں لینا غلط ہے. لیکن بھلا ہو ہمارے چینلز کا جو سرخ گلاب، اٹکیلیاں کرتے جوڑے اور گفٹس خریدتے لوگوں کو دکھا کر ناجانے کون سی ریٹنگ لینا چاہتے ہیں.

پھولوں کی دکان پر میڈیا کے لوگ زیادہ اور پھولوں کے خریدار کم نظر آتے ہیں. اور جو آتے ہیں وہ اپنی پرائیویسی میں مخل ہوتے میڈیا سے کنی کتراتے نظر آتے ہیں.

. اور ویسے بھی سچ بات تو یہ ہے کہ ہم رپورٹرز کو کیا حق پہنچتا ہے کہ مائیک اور کیمرہ پکڑے کسی سے بھی جا کر پوچھیں کہ پھول کس کے لیے لے رہے ہیں یا کیا تحفہ لیا ہے؟

یہ سوال بیہودہ ہیں اپنی ذاتیات کو ڈسکس کرنا لوگوں کو برا لگتا ہے اور ان سے ایسے سوال پوچھنا ہم رپورٹرز کو بھی معیوب لگتا ہے.

اور پھر معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ اراکین پارلیمنٹ سے بھی ویلنٹائنز ڈے کے حوالے سے سوالات بتا کر رپورٹر کو آزمائش میں ڈالا جاتا ہے.

گو کہ اب تو یہ عالم ہے کہ بیشتر سنجیدہ مزاج اراکین پارلیمنٹ پہلے ہی کہہ دیتے ہیں اگر کوئی معقول سوال پوچھنا ہے تو پوچھیں ویلنٹائنز ڈے کا پوچھ کر شرمندہ نہ ہوں..

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ویلنٹائن ڈے کی ٹی وی چینلز پر کوریج نہ دینے کی ہدایت دے کر بیشتر رپورٹرز کے دل خوش کر دئیے..

لیکن وہ کیا ہے نا کہ پیکج تو پھر بھی بنے گا کہ کسی اور چینل پر چل گیا تو کہیں اس اہم ترین معاملے کی کوریج دینے میں ہم پیچھے نہ رہ جائیں..

عوام ویلینٹائن ڈے منائے اپنے چاہنے والوں کو تحفے دے پھول دے مگر میڈیا خدارا کوریج نہ دے..

عوام کو انکی زندگیاں جینے دے اور دوسرے چینلز سے آگے نکلنے کے چکر میں عوام کی نجی زندگی اور معاملات میں مداخلت بند کرے..

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے