میرا ویلنٹائین ڈے کیسا رہا؟

14 فروری کا دن تھا.عہد و پیمان ہو چکےتھے.امیدوں کی اٹھانیں قابل دید تھیں.
دل و دماغ پہ حسین خیالات کی ریل پیل
تھی، مسکراتے ہوئے احساسات ابھرتے
چلے جا رہے تھے. ذہن میں ابھرنے والے دلکش نقشے مٹنے سے پہلے کئ اور نقش ابهار جاتے تھے. تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں.
میں کمرے سے روانگی کو بے تاب تھا.
مقررہ وقت سے کچھ پہلے ہی روانہ ہو چکاتھا.اک لذت آفریں مقام پہ پہنچ چکا تھا.
پروہ ابھی کچھ فاصلے پہ تھے.تب تک نیم پکی چهلی ہونٹوں سے سے ہم آغوش ہو رہی تھی، چهلی کا حسنِ اختتام ہونے کو تھا.
اتنے میں وہ بهی نمودار ہو گئے، میری نگاہ ان پہ پڑی.مگر وہاں انسان نہیں عہد وپیمان کا پہاڑ نظر آیا.یہ حسین انسانی
مورت اک مجسم عہد کی صورت میں
میرے سامنے تھی.بس کیا تھا کہ اب
تک خوابیدہ جذبات بھی پُر جوش انداز
میں بیدار ہونے لگے.دل میں گدگداهٹ
کی اک باقاعدہ مہم شروع ہو چکی تھی.
دھڑکنوں کے بے ربط تار مستی میں ڈوبی دُهنیں اٹھا رہے تھے.وہ جدھر مڑتے آنکھوں کی پتلیاں ادھر کو گھوم جاتی.اس کے نازاں انداز دل میں گر کیے جا رہے تھے . وہ جس لمحےاک اچٹتی نگاہ مجھ پہ ڈالتے اسی گھڑی حیاء کا دورہ پڑ جاتا.
اٹھتی نگاہیں پھر نیچی ہو جاتیں. ناز و تغافل کے ملے جلے انداز دل کو موہ لیتےتهے.اس دیرینہ آشنا کا یوں ناآشنا بن جانا،لطف آمیز حیرت کو بڑهائے جا رہا تها.یہ جانی پہچانی صورت، تیور بدل بدل کر جس ناز سے ان جان بنتی جا رہی تھی دل بڑھ بڑھ کر فدا ہواچاہتا تھا.اس دلربا نازنیں کی یہ پر کیف ادائیں زیادہ دیر دیکھنے کا وقت کہاں تھا.؟
بالآخر ہمت کی اور اس کے روبرو ہو گیا…
مگر …
اس نے ادھورے مصافحے اور سرسری
معانقے کے بعد نگاییں پهیردیں…
مسکراہٹوں پہ پہرا بٹهاڈالا..پہلی سی محبت دینے سے انکار کر ڈالا…پھر کیا تھا..؟
وعدوں کا پہاڑ ریزہ ریزہ ہو چکا تھا…خوشنما خیالات ہوا میں تحلیل ہو چکے تھے،
احساسات بکهر چکے تھے..امیدیں رفتہ رفتہ رخصت ہو رہی تھیں.اب میرے
سامنے باوفا وعدوں کے پاسباں پہاڑ کی جگہ اک بے وفا وعدہ شکن خود غرض انسان کی صورت تهی.. اداسی کا بے ڈھنگا طوفانی لاوا دل سے برآمد ہونے لگاتها.کیفیات کی تلخی کا اثر شدید تھا، میں لکھ تو دوں پر ڈر ہے الفاظ کی رگیں پھٹ جائیں گی. اس وقت میرے لیے مرنا
آسان ہو چکا تها.احساسات و امیدوں کا
سارا سرمایا ہوا ہو چکا تھا.میرے پاس
ٹوٹے ہوئے وعدوں کے ٹکڑوں کے سوا
کچھ باقی نہ رہاتها، کس سے کہوں اب کہ دل کس بے دردی سے ریزہ ریزہ ہوا ؟
کرچی کرچی دل کے ذرے کچھ یہاں وہاں
بکھر گئے.

پھر….
وہ مجھ سے منہ چھپاتا رہا،وہی اوپنر جاتا رہا،باولنگ پر بهی اسی نے قبضہ جمائے رکھا. اس کے وہ مجھے باولنگ بیٹنگ دینے کے سبھی وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے.
میں بس فیلڈنگ کرتا رہا…

المختصر….
اس نے بیٹنگ کا موقع دیا نہ باؤلنگ کی
طرف جانے دیا.
یہی دکھ کیا کم تھا کہ اس نے نظریں ملانا
بھی چھوڑ ڈالا..!
ہائے میری توبہ
اس ملعون کرکٹ سے توبہ..!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے