پولیس کا بگاڑ،بنیادی وجہ کیاہے؟

شروع سے سنتا آ رہا تھا کہ ہماری پولیس رشوت خور اور کرپٹ ہے ، بے ایمان ہے ، وقت پر کام نہیں کرتے ، گویا معاشرے میں ہر برائی کی شروعات ہی ان سے ہو رہی ہوں لیکن کبھی ڈائریکٹ پالا نہ پڑنے کی وجہ سے صحیح طور پر اس کا اندازہ نہ ہو سکا – میرے خیال میں یہ جون ٢٠١٣کی بات ہے موٹر سائیکل کی رجسٹریشن بک گم ہو گئی ، چھوٹے بھائی کو کال کر کے بتایا کہ یہ مسئلہ ہے ، وہ کہنے لگا آپ قریبی چوکی چلے جاؤ، میں کسی سے کہتا ہوں وہ بھی وہاں آ جائے گا ( وہ اس کا کوئی دوست تھا)

چوکی پہنچے تو پولیس والے میرے ساتھ آئے شخص کو ( جو مجھ سے پہلے ہی وہاں پہنچ چکا تھا ) شاید بہت اچھی طرح جانتے تھے ( میری اس سے پہلی ہی ملاقات تھی ) پروٹوکول دیتے ہوئے اس کے ساتھ گپ شپ میں مصروف ہو گے ، محرر کے سامنے کوئی سائل بیٹھا اپنا مسئلہ بتا رہا تھا ، میں بھی دعا سلام کر کے محرر کی ٹیبل سے اخبار اٹھا کر ایک طرف بیٹھ گیا کہ یہ پہلے والے شخص سے فارغ ہو کر ہی مجھ سے بات کرے گا ( اور ویسے بھی بات مجھے نہیں بلکہ میرے ساتھ آئے چھوٹے بھائی کے دوست کو کرنی تھی ) خیر کچھ دیر گزری تو محرر نے ایک سپاہی کو بلایا کہ بوتل لاؤ مہمان آئے ہیں ، اخبار پڑتے ہوئے جب میں نے سنا تو حیرانگی ہوئی کہ پولیس والے بھی بوتل منگواتے ہیں مگر میں نے ان کی طرف توجہ نہ دی ، چند منٹ کے بعد محرر کی سپاہی کو دی جانے والی آواز دوبارہ سنائی دی کہ مہمان آئے ہیں بوتل لاؤ –

اتنی دیر میں محرر کے سامنے پہلے سے بیٹھا ہوا شخص جا چکا تھا اور اب صرف ہم دونوں ( میں اور میرے ساتھ آیا چھوٹے بھائی کا دوست ) ہی وہاں موجود تھے ، میں محرر کی طرف متوجہ ہوا کہ اسے بتاؤں کہ بہت مہربانی مجھے بوتل نہیں پینی مگر میرے بولنے سے پہلے ہی میرے ساتھ آیا شخص سپاہی کی طرف اشارہ کر کے بول پڑا کہ الیاس بھائی اسے پیسے دو بوتل لے آئے ، میں نے پانچ سو کا نوٹ نکال کر دیا ( اللہ بھلا کرے ڈڈو کی شکل والے سپاہی کا کہ اس نے بوتل لانے کے بعد باقی پیسے مجھے واپس کر دیے تھے ) سپاہی بوتل لایا اور ڈرنک بار بار استعمال ہوئے ڈسپوز ایبل گلاسوں میں ڈال کر سب کے سامنے رکھ دی –

اس دوران تقریبا” ایک گھنٹہ گزرنے کے باوجود محرر میرے ساتھ آئے شخص سے خوش گپیوں میں مصروف رہا پھر میری طرف مخاطب ہو کر بولا کہ آپ کو پہلے اسٹام پر درخواست لکھوا کر لانی پڑے گی ( جو میں نے پہلے سے ہی لکھوا کر جیب میں ڈال رکھی تھی ) ایک گھنٹے کے بعد اس کا مجھے یہ بتانا مجھے برا لگا مگر کیا کرتا کام کروانا تھا، خاموش رہا اور جیب سے اسٹام نکال کر اس کے حوالے کر دیا –

محرر کے چہرے پر ہلکی سی تبدیلی اس وقت آئی جب اس نے موٹر سائیکل کے مالک کے نام کے ساتھ اسٹام پیپر میں کیپٹن لکھا ہوا دیکھا ( وہ بندہ میرے ساتھ فقط خود اس لیے نہیں آیا تھا کہ اس کے آنے پر اسے ملٹری پولیس کو انوالو کرنا پڑے گا لہذا میں خود ہی کر لوں ، میں نے بھی ساتھ آئے شخص کی عزت رکھتے ہوئے خود اپنا کوئی تعارف کروانا مناسب نہ سمجھا ) بہرحال ایک ڈیڑھ لیٹر کی سیون اپ کی بوتل نے میری ایف آئی آر کٹوا دی اور میں نقل لے کر شکریہ کے ساتھ وہاں سے اٹھ آیا –

میرا خیال ہے ایف آئی آر کٹے دو دن ہی گزرے تھے کہ ہمارے گھر میں قران خوانی تھی ، دعا میں کچھ دیر باقی تھی بہت سارے لوگ ابو جی کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ، یہ محرر بھی اپنے کسی کام کے لیے ہماری گلی میں آ نکلا ، ابو جی نے کہا کہ کھانا کھا کے جانا ( انہیں میں نے چوکی والی واردات کا نہیں بتایا تھا ) خیر محرر صاحب کھانے کے انتظار بیٹھ گئے ، مدرسے کے بچوں اور مہمانوں کو کھانا کھلوانے کے بعد ابو جی کے ساتھ بیٹھے ہوئے لوگ بھی کھانے کے لیے اوپر ہال میں آ گئے ، محرر کی نظر میرے اوپر پڑی تو چونک سا گیا ، ابو جی نے ہی اسے بتایا کہ بڑا بیٹا ہے –

سب نیچے بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے ، محرر ہوسٹر میں لگے پسٹل کی وجہ سے تنگ ہو رہا تھا ، ابو جی نے نام لے کر کہا کہ پیٹی اتار کر آرام سے کھانا کھاؤ ، محرر نے بیلٹ سمیت پسٹل اتار کر سائیڈ پر پڑے ٹیبل پر رکھ دیا ، اسی ٹیبل کے ساتھ آگے صوفے پر میں بیٹھا تھا میں نے پسٹل کی میگزین سے ساری گولیاں نکال کر ٹیبل پر رکھ دیں ( محرر پر کیا گزری یہ تو اللہ ہی جانتا ہے ) مگر جاتے ہوئے اپنا کارڈ مجھے دے گیا کہ کوئی کام ہو تو کال کر لینا ( بعد میں ہماری چوکی سے بدلی ہو کر وہ ٹیکسلا چلا گیا تھا مگر اس کے باوجود تین چار بار کال کرنے پر اس نے میرا کام کیا ) –

اس واحد تجربے کے بعد پولیس والوں کے بے ایمان ہونے کا یقین کامل ہو گیا تھا مگر بعد میں چند اچھے افسران کے توسط سے حل ہوتے عام لوگوں کے مسائل دیکھے تو اپنی ذاتی رائے اس لیے بدل لی کہ صرف اپنے ساتھ ہوئے ایک واقعہ پر بدگمان نہیں ہونا چاہیے – ابھی چند دن پہلے ہی لاہور چیرئنگ کراس دھماکے میں شہید ہونے والے افسران اور چارسدہ کچہری میں پولیس کے جوانوں کی موثر و بروقت کاروائی نے میرے دل میں پولیس کے لیے تکریم میں مزید اضافہ کیا ہے –

مگر اس وقت افسوس ہوا جب یہ سنا کہ چکری روڈ راولپنڈی سے دو بے گناہ ( اب تک کی اطلاعات یہ ہی ہیں ) سگے بھائیوں کو پولیس نے گھر سے اٹھا کر مار دیا ہے – ماورائے عدالت قتل پولیس میں شامل مجرموں کے لیے ویسے بھی کوئی اتنی بڑی بات نہیں مگر میرے لیے اس واقعہ کی غیر معمولی اہمیت اس لیے ہے کہ ابھی چند دن پہلے ہی تو پاکستان آرمی نے ملک بھر میں آپریشن ” ردالفساد ” کے آغاز کا اعلان کیا تھا جس کا مین ٹارگٹ ہی پنجاب ہے اور غالب امکان یہی ہے کہ یہ ٹارگٹڈ آپریشن متعلقہ علاقے کی پولیس کی مدد سے ہی کیا جائے گا ، کہا جا رہا ہے کہ پنجاب پولیس کی طرف سے کسی بھی شخص کو کسی بھی جگہ روکے جانے پر نہ رکنے کی صورت میں موقع پر گولی مارنے کے آرڈرز بھی ہو چکے ہیں وہ بھی بعد کی کسی انکوائری کے بغیر ، کسی بھی عام آدمی کو پریشان کرنے کے لیے ایسی خبریں کافی ہو سکتی ہیں اور جو مجھے ہمارے معاشرے میں پولیس کے کردار پر سوال اٹھانے پر مجبور کرتے ہیں –

اگر تاریخ پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ١٩٧١میں ملک ٹوٹنے کے بعد آنے والی تقریبا سبھی سیاسی حکومتوں نے سیاسی بنیاد پر پولیس میں بھرتیاں کیں اور اپنے سیاسی مفاد کے لیے پولیس کو استعمال کرنا شروع کیا جو اب ایک ناسور بن چکا ہے – گزشتہ چالیس سالوں میں تمام جمہوری اورغیر جمہوری حکومتوں نے پولیس کو سیاسی بنیاد پر اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لیے استعمال کیا ہے ، جس کے نتیجے میں جرائم کو فروغ ملاجس سے اسٹریٹ کرائم سے لے کر دہشت گردی تک کے واقعات میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے – پولیس کو سیاست میں ملوث کرکے فائدے حکومتوں نے اٹھائے اور سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان عوام کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے –

ہیومن رائٹس واچ ایشیا کی اس شہہ سرخی This Crooked System: Police Abuse and Reform in Pakistan کے ساتھ چھپی ١٠٢ صفحات کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پولیس ماورائے عدالت قتل، تشدد ، صوابدیدی گرفتاریوں ، حبس بے جا میں رکھنا اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث ہے ، صوبائی سطح پر پولیس کے محکمے کو سیاسی اثرو رسوخ، مقامی بزنس مینوں اور دیگر بااثر حلقوں کی جانب سے شدید دباؤ کا سامنا ہے –

رپورٹ کے مطابق پولیس کی زیادتیوں کا زیادہ تر شکار پناہ گزین ، خانہ بدوش ، غریب اور اقلیتی برادری ہوتی ہے – پولیس کی جانب سے چھترول کرنا ، ٹانگوں میں راڈز ڈالنا ، نیند سے محروم رکھنا ، جنسی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے- سینئر عہدیداروں کے مطابق پولیس کو پیشہ ورانہ انداز میں تفتیش کرنے، فزانزک تجزیہ کرنے کی تربیت نہیں دی جاتی لہٰذا وہ جسمانی تشدد کا رویہ اپناتے ہیں – (خیال رہے کہ اس رپورٹ میں کے پی کے کی پولیس کا ذکر موجود نہیں )

وفاقی محتسب سیکرٹریٹ سے جاری ہونے والی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق محکمہ پولیس کے تقریباً 90 فیصد اہلکار مطلوبہ معیار کے مطابق پڑھے لکھے نہیں ہیں ، رپورٹ میں یہ کہا گیا کہ مناسب تربیت نہ ہونے ، اعلیٰ افسران کے اثر و رسوخ ، احتساب کے کمزور نظام اور حکمت عملی کے فقدان کے سبب پولیس اہلکار اپنی ذمہ داریاں درست طریقے سے نہیں نبھا رہے ہیں -رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ کسی بھی تھانے کا انچارج یعنی ایس ایچ او تمام شکایات درج نہیں کرتا ہے۔ کیوں کہ کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق جتنی زیادہ پولیس رپورٹس درج ہوں گی اُس سے یہ تصور کیا جاتا ہے کہ فلاں تھانے کی حدود میں جرائم کی شرح زیادہ ہے اور متعلقہ تھانے کا انچارج سمجھتا ہے کہ جرائم کی شرح میں اضافے کے تاثر سے اُس کی کارکردگی متاثر ہو گی –

وفاقی محتسب کی رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ وسائل کی کمی محکمہ پولیس میں بدعنوانی کی ایک بڑی وجہ ہے جب کہ اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ پولیس اہلکار تفتیش اور تحقیقات کے جدید طریقوں سے آشنا نہیں ہیں –

( وفاقی محتسب کے حکم پر تحقیقاتی کمیٹی سابق وفاقی سیکٹری و آئی جی پولیس عباس خان کی سربراہی میں بنی تھی جس میں دیگر کئی ریٹائرڈ و حاضر سروس اعلی افسران اور ماہرین قانون شامل تھے ، کمیٹی کے معاونین میں ڈی جی ایف آئی اے ، سیکٹری وازرت داخلہ ، ڈپٹی ڈی جی آئی بی کے علاوہ اور بہت سارے اعلی افسران و ماہرین شامل تھے ،

اگر ہم پولیس ایکٹ ١٨٦١ اور پولیس ترمیمی آرڈر ٢٠٠٢ کے تناظر میں پولیس کی ڈیوٹیز کو دیکھیں تو ان میں سے نمایاں یہ ہیں :

*١ مجاز اتھارٹی کی جانب سے تمام احکامات و جاری کیے گئے وارنٹز پر عمل درآمد –

*٢ امن عامہ کو متاثر کرنے والی معلومات جمع کرنا –

*٣ شہریوں کی زندگی ، جائیداد اور آزادی کی حفاظت –

*٤ امن عامہ کا تحفظ اور فروغ –

*٥ اس بات کو یقینی بنانا کہ کسی بھی شہری کو قانون کے تحت جو حقوق و مراعات حاصل ہیں وہ محفوظ ہوں –

*٦ تمام عوامی مقامات ( جن میں سڑکیں ، پارک ، گلیاں اور عبادت گاہیں شامل ہیں ) پر امن عامہ کو یقینی بنانا –

*٧ ایسی تمام چیزوں کو تحویل میں لے کر باقاعدہ ریکارڈ محفوظ کرنا جو لاوارث ہوں –

*٨ ٹریفک کنٹرول ( ہر قسم کی ) –

*٩ مجرموں کا پتا لگا کر انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانا –

*١٠ ان افراد کو گرفتار کرنا جن کے لیے مکمل قانونی اجازت حاصل ہو اور ان افراد کی گرفتاری یقینی بنانا جن کے متعلق جرائم کے وافر شواہد موجود ہوں –

*١١ گرفتاری کے فورا بعد گرفتار شخص کی مرضی یا پسند کے شخص کو گرفتاری سے آگاہ کرنا –

*١٢ امن عامہ کی خاطر بغیر وارنٹ کے ایسی جگہوں پر داخل ہونا جہاں جوا ہوتا ہو ، شراب یا اسلحہ ڈمپ کیا گیا ہو –

*١٣ عوامی مقامات پر خواتین اور بچوں کو ہراساں کرنے کی روک تھام کو یقینی بنانا –

*١٤ کسی شخص پر جرم کےارتکاب کا شبہ ہونے کی صورت میں اس شخص کے خلاف کوئی بھی کاروائی کرنے سے پہلے مجوزہ قانونی کاروائی سمن ، وارنٹ، سرچ وارنٹ یا دیگر تمام قانونی عمل کو یقینی بنانا –

*١٥ حادثات کا شکار ہونے والوں کی مدد –

اب اگر ہم مختلف اداروں کی طرف سے پولیس کے متعلق جاری کردہ تحقیقاتی رپورٹس ، ١٨٦١ کے پولیس ایکٹ و ٢٠٠٢ کے پولیس ترمیمی آرڈر اور زمینی حقائق کا جائزہ لیں تو تینوں میں واضح تضاد نظر آتا ہے –

اب ارباب اختیار کو دیکھنا چاہیے کہ یہ تضاد کیوں ہے اور کیا بغیر پولیس اصلاحات . ریفارمز کے اس تضاد کا ختم ہونا ممکن ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ بغیر اصلاحات کیے پولیس کو دیے گئے لامحدود اختیارات معاشرے میں مزید تحریب کا باعث بنتے جا رہے ہوں ؟ کیا موجودہ سیاسی نظام میں یہ ممکن ہے کہ پولیس کو دیے گئے لامحدود اختیارات سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال نہیں ہوں گے ؟ کیا اصلاحات کے بغیر ایسا ممکن ہے کہ وردی میں کھڑا شخص خوف کے بجائے تحفظ کی علامت سمجھا جائے ؟؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے