کیا دہشت گردی پشتون قوم کی وجہ سے ہو رہی ہے؟

دہشت گردی کا پورا ملبہ پشتون قوم پر ہی ڈالنا نہایت زیادتی، کم عقلی اور بد دیانتی ہے۔ پاکستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری عسکریت پسندی میں پشتون قوم ایک سینڈوچ کی طرح ہر طرف سے دہشت گردی کا شکار رہی ہے۔ روس کے خلاف پاکستان کی ریاستی چھتری میں افغان سرزمین پر جنگ ہو یا امریکہ کی چھتری میں پاکستان کے پروردہ انہی مذہبی عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ۔ ایک طرف پشتون قوم نے ریاست کی لڑائی لڑی اور دوسری طرف ریاست کے ہاتھ سے نکل کر اسی کے خلاف بر سر پیکار مسلح عسکریت پسندوں کے نشانے پر بھی وہی رہی۔ دہشت گردی کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کے اعداد و شمار اٹھا کے دیکھنے سے آپ کو معلوم ہو گا کہ دہشت گردی کی قیمت کس نے کتنی ادا کی ہے۔

پاکستان میں‌امن کے قیام کے لیے اپنے ہی وطن میں بے گھر ہونے والی زخم خوردہ قوم کو آپ اپنے جارحانہ طعنوں سے نوازیں گے اور روز مرہ زندگی میں گلی محلے ، کام کاج اور ملازمت کی جگہوں سے لے کر سوشل میڈیا اور دیگر ذارئع ابلاغ تک آپ تفریق، امتیازی سلوک اور اپنے تعصب کا اظہار کریں گے تو انتقام اور منافرت کے جذبات کا مشتعل ہونا سمجھ میں آنے والی بات ہے۔

یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ پشتون جوانوں کو بھی دہشت گردی کی راہ دکھلانے والے قومی ادارے ہی تھے، یہ الگ بات ہے کہ اب صورت حال قابو سے باہر ہو گئی۔

پشتون قوم کو دہشت گردی پر مورد الزام ٹھہرانے سے پہلے یہ بھی دیکھ لیں کہ جنداللہ، لشکر جھنگوی، پنجابی طالبان، سپاہ صحابہ، سپاہ محمد، جیش محمد اسی طرح کراچی میں ایم کیو ایم اور پی پی پی کے مسلح ونگز، بلوچستان کی علیحدہ گی پسند عسکری تنظیمیں، اور کشمیر میں بر سر پیکار مسلح تنظیمیں ان سب کی فکری نرسریوں کی بنیادیں فاٹا میں پڑی ہیں اور نہ ہی یہ تنظیمیں‌ خیبر پختونخواہ میں پروان چڑھی ہیں نیز نہ ہی ان تنظیموں کے قائدین اور اکثر کارکن پشتون ہیں۔ مذکورہ مسلح اور عسکریت پسند عناصر کے اکثر سرگرم قائدین آج بھی بخیر و عافیت فاٹا یا کے پی کے میں نہیں پاکستان کے مرکزی شہروں بلکہ ریاستی اداروں کی گود میں بس رہے ہیں۔

منافرت کے اس تسلسل کی ایک تازہ لہر حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے بعد شروع کیے گئے ملک گیر آپریشن رد الفساد کے دوران سامنے آنے والی پنجابی پٹھان نسلی و لسانی منافرت کی صورت میں زیر بحث آئی جو اگرچہ کسی حد تک تھم چکی ہے لیکن سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع تک سرایت کر تی جا رہی ، جو کہ ایک قابل تشویش امر ہے۔ جس کے خلاف بندھ نہ باندھا گیا تو اس سے مزید تکلیف دہ نتائج برآمد ہو نے کا خدشہ ہے۔ اس صورت حال میں آگے بڑھ کر تعمیری کردار ادا کرنے والے بعض صاحبان دانش و ارباب قلم داد تحسین کے مستحق ہیں۔

معاشرے میں متحرک رہنے والے لوگ اپنی زندگی میں طرح طرح کے تجربات سے گزرتے ہیں۔ لوگوں کی انفرادی زندگی میں پیش اآنے والے واقعات اور کہانیاں سامنے لائی جائیں تو آپ کو نہایت ہی حیران کن، مثبت اور تعمیری مشاہدات دیکھنے اور سننے کو ملیں گی کہ کس طرح ملک کے مختلف حصوں میں مختلف قومیت کے لوگ آپس میں پیار و محبت کے ساتھ رہتے ہیں جو کہ نہایت قابل اطمینان امر ہے. لیکن دوسری طرف ایسے بھی تلخ تجربات بھی سامنے آئیں گے جنہیں قالین کے نیچے آپ آسانی سے نہیں چھپا سکتے۔ خاص طور پر ہر فرد کے ذاتی خیالات و تجربات کو سر عام اگلتے سوشل میڈیا کے اس متحرک دور میں زیادہ دیر خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہا جا سکتا۔ صورت حآل کی نزاکت کا جب تک انکار کرتے اور خوش فہمیوں‌میں‌مبتلا رہیں‌گے معاملے کی شدت اور پیچیدگی میں‌اضآفہ ہو تا جاتا ہے. لہذٰا مسئلے کی جڑ کو تلاش، تشخیص اور اعتراف کر کے اس کا موثر انداز میں‌علاج کیا جائے. یہ طے ہے کہ مسئلہ کی جڑ پشتون قومیت، کسی کی داڑھی یا پگڑی میں نہیں ہے بلکہ کہیں اور ہے، جرأت مندی سے آگے بڑھ کر جس کے علاج کی ضرورت ہے۔

اگر پاکستانی عوام کو دہشت گردی سے تحفظ دلانا ہے تو آپ اتنی سنجیدگی دکھائیں جتنی اسلام آباد میں منعقد ہونے والی بین الممالک اقتصادی کانفرنس یا لاہور میں منعقد ہونے والے پی ایس ایل کر کٹ کے لیے آپ یکسو، متحرک، سنجیدہ اور مستعد نظر آتے ہیں۔ ریاست کی یہ منافقانہ پالیسی طشت از بام ہو چکی ہے کہ ایک طرف وہ خود دہشت گردوں کی سرپرستی کرے اور دوسری طرف تمام تر قومی وسائل سلامتی اور دفاع کے نام پر خرچ ہوں۔ یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ اتنی جانیں گنوانے کے باوجود صرف ریڈ الرٹ جاری کرنے پر اکتفا اور دہشت گردوں کے تعاقب کے لیے کسی واقعے کا ہی انتظار کیوں کیا جاتا ہے. ہم نہتے شہری یہ خواہش ہی کر سکتے ہیں کہ دہشت گرد چاہے جس خول اور لبادے میں ہوں ان سے کسی قسم کی نرمی برتے بغیر ان کو ان کے جرائم کے مطابق کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ مار دھاڑ اور قتل و غارت سے نکل کر تعمیر و ترقی، باہمی تعاون و یک جہتی کے ساتھ مل کر آگے بڑھنے کی دیرینہ خواہش مند یہ قوم مزید کسی منافرت کی متحمل نہیں ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے