یہ کالم یا مضمون نہیں بلکہ ایک پڑھے لکھے پولیس ملازم کی دُکھ بھری داستان ہے جو چند دن قبل آئی بی سی اردو کو موصول ہوئی . آئی بی سی اردو آئین اور قانون کی بالا دستی پر یقین رکھتا ہے اور ادارہ جاتی بدعنوانیوں کو سامنے لاکر اصلاح احوال کی کاوش ادارے کی پالیسی کا حصہ ہے . زیر نظر تحریر حرف بہ حرف شائع کی جا رہی ہے ، صرف صاحبِ تحریر پولیس اہلکار کا اصلی نام بدل دیا گیا ہے . خیال رہے کہ یہ اہلکار بین الاقوامی تعلقات میں ایم فِل کی ڈگری کا حامل ہے . (مدیر)
قرآن مجید کا مطالعہ کریں کچھ احکامات اتنے واضح اور سادہ ہیں جن کی تشریح کی ضرورت نہیں پڑتی. انصاف قائم کرو،جھوٹ نہ بولو،احسان کرو، زنا ، غیبت چغل خوری ظلم شرک فساداور دیگر غیر اخلاقی حرکات کی سختی سے ممانعت کی جاتی ہے.
ایک عام مسلمان کو ان باتوں کو سمجھنے اور عمل کرنے میں کسی عالم دین کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑتی.اگر آپ کا ایمان کمزور ہے تب بھی آپ ان واضح احکامات کی حقیقت تسلیم کرنے سے انکار نہیں کر سکتےمیرا تعلق بھی مذکورہ ایمان کی حالت جیسا ہے،کمزور ہوں خطاکار ہوں عبادات میں نادانستہ مجھ سے سقم رہ جاتا ہے.مگر خدا کے وجود اور اس کے احکامات کو سچے دل سے تسلیم کرتا ہوں
تربیت مذھبی گھرانے میں ہوئی عملی زندگی میں خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ہو کر پولیس فورس جوائن کی.مگر ایک طویل عرصہ محکمے میں گزارنے کے باوجود میری ادارے کے ساتھ مطابقت نہ ہو سکی پولیس کے محکمے میں بیشتر لوگ سسٹم کا حصہ بن جاتے ہیں وہ اپنی ضروریات کسی نہ کسی طریقے سے پوری کر لیتے ہیں اور اپنا کام چلا لیتے ہیں جو ایسا نہیں کر سکتے وہ نقصان اٹھاتے ہیں.میرا شمار بھی موخر الذکر لوگوں میں ہوتا ہے
محکمہ پولیس سے 13 سالہ وابستگی کے باوجود اپنا معمولی سا جائز کام نہیں کروا سکتا ایسے آدمی کو محکمے میں عموما "نالائق” کہا جاتا ہے اور میری نالائقی یہ ہے کہ میں بغیر کسی "مدد” کے اپنے ذاتی کام اور اپنے حق کے لیے طویل عرصے سے جدوجہد کر رہا ہوں .
کہا جاتا ہے انسان الله پر یقین رکھے تو وہ کسی کا محتاج نہیں رہتا.اس بار میں نے بھی سوچا چلو الله کا بتایا ہوا سیدھا راستہ اپناتا ہوں ،رشوت سفارش اور چاپلوسی کے شرمناک ہتھکنڈوں کو ٹھوکر مار کر میں نے اپنی مدد آپ لینے کا فیصلہ کیا.
میں جب بھی بغیر رشوت اور سفارش کے سائل کے روپ میں مجاز افسر کے آگے پیش ہوتا ہوں مجھے ٹرخا دیا جاتا ہے یا دھتکار دیا جاتا ہے.اسی طرح کچھ عرصے سے محکمہ مال کے پاس جا رہا ہوں ان کو ان کی محکمانہ سابقہ غلطی کی نشاندہی کرواتا ہوں جس کی وجہ سے میری زمین کا انتقال نہیں ہو رہا ان کو بار بار التجا کرتا ہوں کے براہ کرم آپ اپنے ریکارڈ کی تصیحح فرما لیں، آگے سے وہ اچھا جی! ہاں جی! کر دیں گے ! ہو جائے گا! کی گردان دھرا کر مجھے ایک سال سے ٹال رہے ہیں.
میرا قصور یہ ہے کہ میں ان کی جیب گرم کر کے اپنا حق رشوت کے عوض لینا نہیں چاہتا اور وہ مجھے اس ذلالت سے بلامعاوضہ میں نکالنا نہیں چاہتے
میں ایک سال کی رخصت کلاں کے لیے ( جو میرا حق ہے)کئی مرتبہ ایس پی کو پیش ہو چکا ہوں وہ نہ مجھے چھٹی دیتے ہیں نہ سلیقے سے کوئی بات سنتے ہے
میں ٹریفک وارڈن ہوں ، کہا جاتا ہے زیادہ سے زیادہ چالان کرو .جب میں کسی بااثر آدمی کا چالان کرتا ہوں تو میرے افسران میری سرزنش کرتے ہیں اور دبے لفظوں میں ” دیکھ سن” کر چالان کرنے کا اشارہ دے دیتے ہیں.میں قانون کے نفاذ میں امتیاز نہیں رکھ سکتا.اپنے تئیں انصاف کی کوشش میں یا تو چالان بلا تفریق امیر غریب سب کا کردیتا ہوں یا کسی کا نہیں کرپاتا.اسی کشمکش میں مہینہ گزر جاتا ہے چالان کم ہوتے ہیں پھر سزا مل جاتی ہے.ماہ نومبر کی چالان ڈائری کم تھی ، نتیجتا میری ایک سال کی سروس کاٹ لی گئی
انتہائی مایوسی کی حالت میں بند گلی میں کھڑا سوچتا ہوں صبر کا گلا گھونٹ کر اس فرسودہ اور غیر منصفانہ نظام سے ٹکرا جاؤں .میری سمجھ میں بڑی آسانی سے یہ بات آ جاتی ہے کہ لوگ خود کشیاں کیوں کرتے ہیں؟یا کسی خود کش بمبار کی طرح اس منافقانہ شیطانی نظام کے بخیے کیوں ادھیڑ دیتے ہیں جو شرافت کی زبان نہیں سمجھتا. پھر میں شدت پسند تنظیموں میں نوجوان اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کی شمولیت کے بارے میں سوچتا ہوں .ان کو بھی حق نہیں ملتا جو تھوڑا بہت ملتا ہے وہ ان کی ضروریات پوری نہیں کرتا .پھر وہ آسانی سے غیر ریاستی عناصر کے ساتھ مل کر بین الاقوامی سازشوں اور سیاست کا حصہ بن جاتے ہیں پھر مروجہ نظام کو ٹھیک کرنے کی آڑ میں معصوم لوگوں کا خون بہاتے ہیں اور اپنی محرومیوں کا بدلہ دہشت گردی کی صورت میں لے لیتے ہیں.
میری ارباب اختیار سے اپیل ہے کہ جب تک اندرونی انصاف قائم نہیں ہوگا نام بدل بدل کر آپریشن کرنے سے کوئی کامیابی نہیں ملےگی، ہمارے محروم لوگوں کو دشمن ورغلاتے رہیں گے اور وہ اپنا غم و غصہ غلط سمت میں نکالتے رہیں گے.